آخر لوگ کیا کہیں گے

میں گنجا ہونا چاہتا ہوں-ایسا گنجا جس کے سر پر بال بالکل نہیں ہوں اور اسے صاف پشتو زبان میں" شنیگری سرے" کہا جائے - لیکن معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے روئیوں سے بھی ڈرتا ہوں کہ "آخر لوگ کیا کہیں گے" یقیناًپڑھنے والوں کیلئے یہ بات عجیب ہوگی کہ اس میں کونسی بڑی بات ہے جب دل چاہا سر کو بالوں کی قید سے آزاد کرادو لیکن میں اپنی یہ خواہش گذشتہ چالیس سالوں سے دل میں لئے پھر رہا ہوں کہ کب ایسا دن آئیگا جب میں " شینگری سرے " بن جاؤنگا-

بچپن میں سرکاری سکول میں ٹاٹ پر پڑھا ہوں ایسے کلا س میں جہاں پر کلاس میں ساٹھ سے زائد بچے ایک کلاس میں ٹھونسے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے کلاس دوئم میں ہم کلاس فیلو بیٹھے تھے کہ میرے ایک ساتھی نے میرے سکول کے ملیشیا کپڑوں پر رینگنے والی ایک " جوئیں " پکڑی اور زمین پر رکھتے ہوئے اعلان کردیا کہ آجاؤمسرت کے کپڑوں سے جوئیں نکلی ہیں اسے دیکھ لو" اف اتنی شرمندگی اور میں جلدی سے جو ئیں کو دیکھنے کیلئے بیٹھ گیا اس دوران دوسرے کلاس فیلو جوئیں کو دیکھنے کیلئے آرہے تھے کہ میں نے زمین نے پھونک مار دی اور کہا " کہاں ہیں جوئیں جھوٹ بولتے ہوں" میرے پھونک سے جوئیں تو غائب ہوگئی اور جو کلاس کے دوسرے ساتھی آرہے تھے میری چالاکی سمجھے بغیر میرے کپڑوں سے جو ئیں نکالنے والے ساتھی پر پل پڑے کہ " تم ہر وقت مسرت غریب کو تنگ کرتے ہوں" اور وہ میرا ساتھی خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا- میں دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا کہ چلو اپنی چالاکی سے جان تو بچا لی - لیکن اس ذہنی تناؤ کا شکار بھی رہا کہ آخر یہ جوئیں میرے کپڑوں میں کیسے آگئی کیونکہ ہر روز تو میری والدہ میرے بالوں میں کنگھی اور آنکھوں میں سرمہ لگا کر بھیجا کرتی تھی آخر یہ جوئیں کہاں سے آگئی - خیر آئندہ کے ڈر سے میں نے گھر آکر والدہ کو کہا کہ میری بالوں میں جوئیں دیکھ لو اگر ہیں تو نکال دو تو والدہ نے کہا کہ ابھی وقت نہیں تو میں نے پھر کہا کہ " امی مجھے شینگری سرے" کردو کہ نہ رہینگے بال اور نہ ملیں گے جوئیں" لیکن میری والدہ نے مجھے گلے سے لگاتے ہوئے کہا کہ نہ بیٹا " گنجے مت بنو" عجیب لگو گے اور پھر لوگ کیا کہیں گے " میں اس وقت تو نہیں سمجھا لیکن یہ بات ذہن میں آگئی کہ " آخر لوگوں کو میرے بالوں سے کیا مطلب ہے" لیکن میرے گنجے ہونے کی خواہش دل میں ہی رہی-

سکول کے دور سے فارغ ہوا تو پھر کالج کے دور میں بالوں کا شوق رہا لیکن پھر بھی گنجے ہونے کی خواہش دل میں ہی رہی - کچھ دن زندگی میں ایسے آئے جب میرا دل کرتا تھا کہ میں گنجا ہو جاؤ لیکن ان دنوں ہمارے علاقے میں ایک نیا ایس ایچ او آیا تھا جس نے ہمارے محلے میں دکانوں پر وی سی آر دیکھنے والوں کو پکڑنے کے بعد گنجا کردیا اورپھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا کہ جسے بھی پکڑا جاتا اسے گنجا کردیا جاتا اور میں نے خوف کے مارے گنجا ہونے کی خواہش کو قربان کردیا کہ آخر " لوگ کیا کہیں گے" کہ یہ لڑکا فلم دیکھتے ہوئے پکڑا گیا کیونکہ ایسے بہت سارے معزز افراد کو ان دنوں میں" شینگری سرے" کردیا گیا تھا اسی وجہ سے میں گنجا ہونے کی خواہش لئے عملی زندگی میں داخل ہوا-

دوران ملازمت مختلف لوگوں سے رابطہ رہا اور بہت سارے گنجے دوست بھی دیکھے ایسے گنجے جن کی خواہش نہیں تھی کہ وہ گنجے ہو جائیں بلکہ وہ قدرتی طور پر گنجے پن کا شکار ہو گئے تھے یہ لوگ گنجا ہونے کی وجہ سے ہر وقت ذہنی تناؤ کا شکار رہتے اور مجھے کہتے کہ تمھارے بال کیوں نہیں گرتے 249 تم خوش قسمت ہو کہ تمھارے بال نہیں گر رہے اور میں اپنی برتری ان پر قائم رکھنے کیلئے اپنے گنجے ہونے کی خواہش دل میں ہی رکھتا - قدرتی طور پر گنجے ہونے والوں کی ایک عجیب سی منطق جو آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ لوگ اپنے ساتھ ہر وقت کنگھی جیب میں لئے پھرتے ہیں میں نے آج تک کسی بالوں والے شخص کے پاس کنگھی نہیں دیکھی ہاں جن کے بال نہیں ہوں یا پھر گنے چنے ہوں وہی کنگھی ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں-خیر غم روزگار میں جب بھی میں نے گنجے ہونے کا ارادہ کیا تو دوست کہتے کہ '" شینگری سرے" مت بنوکیونکہ پھر لوگ کیا کہیں گے اور میں لوگوں کے ڈر کے مارے بال گنجا کرنے سے محروم ہی رہا- ساتھ میں دوست شرارت سے کہتے کہ " شینگری سرے" مت بنو کیونکہ پھر کوئی لڑکی لفٹ نہیں کروائیگی اور میں " لفٹ" لینے کے چکر میں بالوں پر توجہ دیتا رہتا-

زندگی میں ایک ایسا دور بھی آیا جب میری منگنی کردی گئی منگیتر کو میں نے ایسی تصویر بھیجی جس میں میرے بال تھے جب منگنی ہوگئی تو پھر میرے دل میں خواہش ابھری کہ میں اپنے آپ کو بالوں سے محروم کروں لیکن جب میرے ارادے کا گھر والوں اور دوستوں کو پتہ چلا تو پھر کہنے لگے " تمھاری منگیتر کیا کہے گی کہ یہ " چھلا ہوا آلو" ہے اور میں منگیتر اور سسرال والوں کے ڈر سے بالوں کی قربانی دینے سے محروم رہ گیا - دوران ملازمت ایک تربیتی پروگرام میں تھائی لینڈ جانے کا موقع ملا بنکاک ائیرپورٹ پر اترنے کے فورا بعد وہاں پر ایک ہیر ڈریسر کی دکان میں گھس گیا کہ یہاں پر آکر اپنے آپ کو گنجا تو کردو لیکن وائے رے قسمت یہاں پر خاتون ہیئر ڈریسر نے گنجا کرانے سے معذرت کی اور کہا کہ وہ صرف مشین سے مجھے بالوں سے فارغ کرسکتی ہیں اور میں نے اسی پر اکتفا کیا کہ چلو " شینگری سرے " نہ سہی بلکہ " مشین سرے" ٹھیک ہے لیکن یہ خواہش دل میں رہی کہ میں شینگری سرے رہو ں

، بنکاک میں دو ہفتے گزارنے کے دوران مجھے احساس ہوا کہ " لوگ کیا کہیں گے والا حساب" صرف ہمارے ہاں ہی چلتا ہے وہاں تربیتی پروگرام میں بھی کسی نے توجہ ہی نہیں دی کہ پاکستان میں تو میرے میرے بال تھے اور ی58اں آکر میں نے مشین سے کاٹ دئیے" دو ہفتے گزرنے" مشین سرے"رہنے کے بعد بنکاک سے واپس پاکستان آگیا اور پھر میری یہ خواہش دل میں ہی رہی-لیکن دو ہفتوں میں ذہنی تناؤ سے بچا رہا کیونکہ جس وقت اٹھ جاتا " مشین سے کاٹے ہوئے بالوں" پر ہاتھ پھیرتا اور وقت ضائع کئے بغیر اپنے تربیتی پروگرام میں حصہ لیتا ساتھ میں شیمپو کا خرچہ بھی نہیں تھا لیکن پاکستان آکر یہی سلسلہ پھر شروع رہا-

میں جب بھی کسی انگلش فلم میں ہیرویا ولن کو " شینگری سرے"دیکھتا ہوں تو مجھے ان پر رشک آتاہے کیونکہ نہ تو انہیں " لوگ کیا کہیں گے" کا ڈر ہوتاہے اور نہ ہی انہیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ انہیں کوئی لڑکی لفٹ نہیں کروائیگی - ایسے میں نے اپنی لالی ووڈ یا بالی ووڈ کے فلموں میں بہت کم کردار ایسے دیکھے ہیں کہ کوئی ہیرو یا ولن گنجا ہو شائد ان لوگوں کو بھی " لوگ کیا کہیں گے"کا ڈر ہوتا ہے-

الیکٹرانک میڈیا میں ہونے کی وجہ سے ہم صحافیوں کی سب سے زیادہ توجہ کام کے ساتھ " لک " پر بھی ہوتی ہیں اور ہمارے کچھ دوستوں کے بقول " آخر لوگ تو ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں" اسی ڈر کی وجہ سے میں بالوں کو فارغ کرنے سے محروم رہا کہ لوگ کیا کہیں گے - کچھ عرصہ قبل تھائی لینڈ میں کی جانیوالی خاتون ہیر ڈریسر کی "مشین سے کٹنگ" کی کہ چلو جب تک سکرین پر نہیں آتے اس وقت تک بال نئے آئینگے لیکن دوسرے دن سکرین پر آنا پڑا ارو پھر کچھ دوستوں نے مشین سے کٹے بالوں کو دیکھ کر کہا اوے تم عمرہ کرنے گئے تھے"اور میں نے جلدی سے ہاں میں سر ہلا دیا کہ آخر لوگوں کو میرے بالوں سے کیا مقصد ہے-اور دل میں گنجا ہونے کی خواہش پھر بھی رہی-

ہر سال مارچ میں جب لوگ اپنے بچوں کو گنجا کرتے ہیں تو اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے نہ صرف بال مضبوط ہوتے ہیں بلکہ نظر بھی تیز ہوتی ہیں ان باتوں کی حقیقت جاننے کیلئے میں گنجا ہونا چاہتا ہوں لیکن پھر یہی سوچ کہ "لوگ کیا کہیں گے" اور میں کچھ نہیں کرپاتا - اپنی خواہش کو ختم کرنے کیلئے کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو گنجا کردیا لیکن پھر بیگم نے گھر میں داخل ہوتے وقت مجھے آڑے ہاتھ لیا کہ بچے کو کیوں گنجا کردیا اپنی خواہشات بچوں پر مسلط مت کرو اور میں شرمندگی سے کچھ نہیں کہ پایا کہ میں تو اپنی خواہش کے ساتھ ساتھ اپنے بچے کے بال بھی مضبوط اورنظریں بھی تیز کرنا چاہتا تھا لیکن وہ دن اور آج کا دن ابھی بیگم مجھے اپنے بیٹوں کے بال ٹھیک کرنے کیلئے ہیرڈریسر کے پاس نہیں بھجواتی کہ " کہیں یہ اپنی ناآسودہ خواہش " شینگری سرے" بننے کا خواب اپنے بچوں پر پورا نہ کریں - اوریہاں بھی میرے دل کی خواہش میرے دل میں ہی رہتی ہیں-

لوگ کیا کہیں گے ایسا جملہ ہے جس کیلئے میں نے کئی مرتبہ دوستوں کیساتھ شرط بھی لگائی کہ اگر تم کہو تو میں گنجا ہوتا ہوں لیکن اس میں تمھیں کچھ " شرط " لگانی پڑیگی لیکن میرے ساتھی بھی شائد مجھے سمجھتے ہیں اسی لئے وہ گنجا ہونے کی شرط میرے ساتھ نہیں لگاتے -میرے ذہن میں تھا کہ اگر کوئی دوست شرط لگاتا ہے اور میں نتیجے میں شینگری سرے بن جاتا ہوں تو پھر لوگوں کو یہی کہہ سکوں گا کہ میں نے شرط لگائی تھی اور گنجا ہوگیا لیکن وائے رے قسمت-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420529 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More