مذہبی اقلیتوں پر مظالم

پروفیسر رام پرشاد گھوسلا اپنی کتاب’مغل کنگ شپ اینڈ نوبی لیٹی‘ میں لکھتے ہیں "مغلوں کے زمانہ میں عدل و انصاف میں جو اہتمام ہوتا اور جو ان کی مذہبی پالیسی تھی اس سے عوام ہمیشہ مطمئن رہے، اسلامی ریاست میں سیاست اور مذہب کا گہرا لگاؤ رہا ہے لیکن مغلوں کی مذہبی رواداری کی وجہ سے اس لگاؤ کی وجہ سے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا ، کسی زمانہ میں بھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ حکمراں قوم کا مذہب محکوموں کا بھی مذہب بنا دیا جائے حتی اورنگزیب نے حصول ملازمت کیلئے اسلام کی شرط نہیں رکھی تھی، مغلوں کے عہد میں Corporation Actجیسے قوانین منظور نہیں کئے گئے ، ایلزبتھ کے زمانہ میں اس قسم کا کوئی جبر نہیں کیا گیا Bartholomew's Day جیسے قتل عام سے مغلوں کی تاریخ کبھی داغدار نہیں ہوئی ، مذہبی جنگ کی خون ریزی سے یورپ کی تاریخ بھری ہوئی ہے لیکن مغلوں کے عہد میں ایسی مذہبی جنگ کی مثال نہیں ملتی ، بادشاہ مذہب اسلام کا محافظ اونگہبانضرور سمجھا جاتا ، لیکن اس نے کبھی غیر مسلم رعایا کیعقائد پر دباؤ نہیں ڈالا۔"پر متھان سرن نے اپنی کتاب’ پرونشل گورنمنٹز اندر دی مغلز‘ میں لکھا ہے کہ’ مغلوں کی حکومت عروج کے زمانہ سے دنیا کی شاندار حکومتوں میں سے ایک تھی اور اس کی تمام معاصر حکومتوں میں اس سے زیادہ وسیع اور مستحکم کوئی حکومت نہ تھی ، اس نے ہندو ، مسلمان دونوں کو متحد کیا ، اس کی کارکردگی ایسی تھی جس پر فخر کیا جاسکتا ہے" اٹھارویں صدی عیسوی میں سر جان شور بہت بڑا مدبر گذار ہے ، اس کا بیان ہے کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی برسر اقتدار ہوئی تو اس صوبوں کے نظم و نسق میں ابتری ضرور تھی لیکن اس کا جو نظام تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغلوں کیحکومت استحکام اور دانش مندی کی مضبوط بنیاد پر قائم تھی ، جس میں مختلف فرقوں کے حقوق کی پوری حفاظت تھی ، ہندوؤں کیلئے قوانین ان ہی کے بنائے ہوئے تھے جن پر سختی سے عمل درآمد کرنی کی کوشش کی جاتی"۔اس جیسے متعدد حوالے جات موجود ہیں کہ مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ تاریخ میں ہمیں اسی کوئی مثال نہیں ملتی۔جبکہ اس کے مقابلے میں اگر ہم دیکھیں تو مسلمانوں کو ہندو بنانے کی باقاعدہ مہم سرکاری سر پرستی میں چلائی جا رہی ہے یا پھر غربت کے مارے خاندانوں کو اسلام سے ہٹا کر دیگر مذاہب میں شامل ہونے کیلئے دباؤ ڈالا جاتاہے۔ان میں ایسے عناصر بھی ملوث ہیں جو سادہ لوح افراد کو لالچ دیکر اپنے مذہب میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن اسلام کے نام پر دنیا بھر جانے والی کسی بھی تبلغی جماعت ، مسجد یا فرد کی جانب سے کوئی شکایت نہیں آئی کہ کسی غیر مسلم کو کسی لالچ ، دھوکے یا کسی ڈر و دباؤ میں لاکر مسلمان کیا گیا ہو۔مسلمان حکمران نے جس بھی مملکت کو فتح کیا اس کی عوام کی ساتھ ہمیشہ صلہ رحمی اور شفقت کا سلوک کیا، محمد بن قاسم سے لیکر مغل حکمرانوں تک برصغیر کی مثال ہمارے سامنے ہے ، اگر اس قبل خلافت راشدین کی فتوحات دیکھیں تو بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ مسلم سپاہ جس جس ملک میں گئی ، اسے فتح کیا لیکن کبھی اس ملک یا علاقے کے کھیت کھیلان یا عوام کو نقصان نہیں پہنچایا۔ غیر مسلموں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا اور ان کے رسم و رواج میں کبھی رکاؤٹ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔لیکن اس کے برخلاف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مسلم اقلیتوں سے لیکر مسلم ممالک پر قابض ہونے والوں نے عوام کے ساتھ ان مملکتوں کا بھی تخت و تختہ کیا کہ وہ عبرت کی مثال بن گئے۔چنگیز خان ، ہلاکو خان سے لیکر بارک اوباما ، نریندر مودی تک نے مسلمانوں پر جارحیت اور استبدادی مظالم کے ریکارڈ قائم کئے۔یہ شائد ان کی فطرت میں ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ستم کرکے اپنی خونی جبلت کو تسکین پہنچائیں، مغرب نے سائنسی علوم کو ترقی دیکر اسے عالم انسانیت کے فلاح و بہبود کا ذریعہ بنانے کے بجائے تباہی کا استعارہ بنا دیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب نے انسانی آرام و آسائش کے لئے بے شمار چیز یں ایجاد کیں لیکن جنگی ساز و سامان میں اسلحہ ، ہوائی جہاز ، بم ، زہریلی گیس بھی ایجاد کیں ، جن کے ذریعے لاکھوں انسانوں کو اس کے شہر سمیت مٹی کا ڈھیر بنا دیا گیا۔

ولیم اول نے ۱۰۶۶ ؁ء میں انگلستان کو فتح کیا تو اس کے حکم سے مفتوحہ علاقوں کے گھر ، کھیلان اور کھیت وغیرہ سب کچھ جلا دئیے گئے اور ایک لاکھ سے زیادہ مرد و زن ، بچوں اور عورتوں کو قتل کیا گیا ۔ لن گارد تاریخ انگلستان جلد دوم میں لکھتا ہے کہ " یارک اور ڈرہم کے علاقے اس طرح برباد کردئے گئے تھے کہ نو سال تک وہاں کی زمین کھتی کے لائق نہیں رہی۔روس کا حکمران آئیون چہارم (۱۵۸۴ ؁ء۔۱۵۳۰؁ء)آئیون مہیب (ٹریبل) کہلاتا تھا وہ اپنے غلاموں کو اپنی ملکیت سمجھتا اور کہتا کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے ان کو ہلاک کردے اور جب تک چاہے ان کو زندہ رہنے دے۔اس کو کلیسا کے پادریوں سے شکایت رہتی کہ وہ کاہل ہیں ، عبادت نہیں کرتے اس لئیکلئیسامیں جاکر قیام کرتا اور کبھی کبھی رات رات بھر ان سے عبادت کراتا ، اس نے تو بائبل کو بھی بدل دینے کی کوشش اور اپنی طرف سے اس کا نسخہ تیار کرکے اس کو رائج کرانے کی کوشش کی (روس ازڈبلیو ۔آر ۔مرفل ص ۶۹۔۶۷)۔

سولہویں صدی میں فرانس کے حکمراں چارلس نہم اور اس کی ماں کیتھرائن نے ملکر سینٹ بار تھیمیلو کے میلے کے موقع پر دس ہزار پروٹسٹنٹ کو قتل کرادیا ، توکیتھولک چرچ نے خوشی کے شادیانے بجائے ( انسائیکلو پیڈیا ٓاف بری ٹانیکا ،گیارہواں ایڈیشن ج ۱۰)

لوئی پانزد دہم اپنی داشتاؤں کے ہاتھوں کھلونا بنا رہا اس کے زمانہ میں ژان سینی تحریک مذہبی و سیاسی احکام کے خلاف چلی تو اس کو کچلنے کیلئے ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ روس کا شہنشاہ پیٹر اپنے کارناموں کی وجہ سے پیٹر اعظم کہلاتا مگر جہاں اس میں بڑی عظمت تھی وہاں اس کے مزاج میں اتنا غصہ تھا کہ پھر ایسے مظالم کرنے پر اتر آتا کہ لوگ ان کو دیکھ کرتھرا اُٹھتے۔اس نے اپنے لڑکے الیکزیسن کو پھانسی کی سزا دلوائی ، اسلئے کہ اس کی حرکتیں اس کو پسند نہیں تھا اس نے اپنی ایک بیوی کو خانقاہ میں بند کرکے نن بننے پر مجبور کیا اس نے کلیسا میں اپنی خواہش کے مطابق اصلاحات کیں تو پادریوں نے اسکو قتل کردینے کی دھمکی دی۔

سترھویں صدی میں جرمنی میں پروٹسٹنٹ فرقوں کی جنگ شروع ہوئی تو یہ یورپ کی تیس سالہ جنگ کے نام سے مشہور ہوئی ، یورپ کی بہت سی مملکتیں اس میں الجھ گئیں ، مورخین کے مطابق اسلڑائی میں بوہیمیا کے ۳۵ ہزار گاؤں میں صرف ۶ ہزار باقی رہ گئے تھے ، بویریا ، فرینکونیا اور سوابیا میں غارتگری ایسی کی گئی کہ یہ سارے علاقے قحط اور امراض سے تباہ ہوکر ویران ہوگئے۔جرمنی میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی تھی اس جنگ کے بعد ساٹھ لاکھ رہ گئی ۔انیسویں صدی میں ۱۸۳۱ ؁ء میں یونان کے علاقے موریا میں تین لاکھ اور یونان کے شمالی حصہ میں ہزاروں مسلمان مرد ، بچے اور عورتیں بڑی بے رحمی سے ہلاک کی گئیں ، تفصیل مارما ڈیوک پکتھال کی کتاب ’ دی کلچرل سایڈ آف اسلام ‘ میں پڑھی جا سکتی۔پہلی جنگ عظیم ودوئم میں انسانوں پر الم انگیز مصائب آئے جس سے ہر ذی شعور آگاہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں روسیوں کے تیس لاکھ سپاہی جرمن حملہ آوروں کے اسلحہ سے ہلاک ہوئے ان کے ملک کے آٹھ لاکھ مربع میل کے علاقے بالکل تباہ ہوگئے ، اسی جنگ میں برطانیہ کے چھ لاکھ سپاہی مارے گئے اور چالیس لاکھ مکانات برباد ہوئے ، فرانس کو چھبیس ملینڈالر کا نقصان ہوا یہاں کے پانچ لاکھ گھر تہس نہس ہوگئے اور ساڑھے سات لاکھ خاندان بے گھر ہوئے، پورے یورپ میں ایک کروڑ سے زیادہ سپاہی موت کے گھاٹ اترے ، دو کروڑ سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے اور ان گنت معذور اور بے کار ہو کر زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے ، کل چار سو ملین کی املاک تباہ ہوئی۔ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں مردوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کو چشم زدن میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔امن کے نام نہاد علمبرداروں نے عراق، افغانستان، فلسطین، برما ، نائیجریا میں لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی۔سوچنے کی بات یہی ہے کہ انتہا پسند دراصل ہے کون ؟۔تاریخ انسانی تو یہی بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ جبر و طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا بلکہ بد مست حکمرانوں نے اپنے ہم مذہب یا اسلام کے علاوہ مذاہب کو بھی اپنے ظلم و انتہا پسندی سے محفوظ نہ رہنے دیا۔یورپ کی تیس سالہ جنگ ہو یا جنگ عظیم و دوئم ، یہ کسی مسلم حکمران کی جانب سے مسلط جنگ نہیں تھی ، اس میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کے مٹی کا ڈھیر بنانے والے مسلمان نہیں تھے ۔مسلم امہ کے خلاف جس قسم کا پروپیگنڈا مغرب سے کیا جاتا ہے اسکا مظاہرہ وہ توہین قرآن و نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ پر توہین کرنے سے پست ذہینت کی صورت میں ہی نظر آجاتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے نام پر بین الاقوامی پروپیگنڈا مہم کے تحت خلفشار کا شکار کچھ عناصر متاثر ہوکر اسلام کی تعلیمات کو سامنے لانے والوں کو بنیاد پرست کہہ کر خود انتہا پسند بن جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ انتہا پسند کون ہیں ؟؟۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660060 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.