1. - مرنے سے لے کر دفنانے تک کے اعمال

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ان شاء اللہ آج سے ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کسی مسلمان مرد یا عورت یا بچہ کا انتقال ہونے لگے تو وہاں سے لے کر دفنانے کے بعد تک وہ کون سے اعمال ہیں جو قرآن والسنۃ اور صحیح اور حسن روایات سے ثابت ہیں اور کرنے چاہیں اور کون سے اعمال ہیں جو بدعات ہیں اور ہم میں پھیل گیے ہیں اور ان سے بچنے میں فلاح ہے. مگر ہم میں سے اکثر لوگ ان سے اس سے اسلیے نہیں بچتے کہ ھم دوسروں کی اندھی تقلید کرتے رہتے ہیں یا پھر یہ کے ہم سوچتے ہیں اگر میں نے یہ عمل جو کہ بدعت ہے نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟

مرنے والے کو کلمہ کی تلقین

سیدنا سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‏"

مفہوم:
اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کہنے کی تلقین کرو

(صحیح مسلم،حدیث نمبر: 916)

سیدنا معاذ رضی اللہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‏ مَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ ‏"‏ ‏.‏

مفہوم:

جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو گا وہ جنت میں داخل ہوگا

(حوالہ:سنن ابو داؤد رقم: 3116 وسندہ صحیح)

ان صحیح روایات سے معلوم ہوا کہ مرنے والے مرد یا عورت کو کلمہ کی تلقین کرنا چاہیے

مرنے سے قبل وصیت:

اللہ نے فرمایا:

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ‌ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَ‌كَ خَيْرً‌ا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَ‌بِينَ بِالْمَعْرُ‌وفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ

مفہوم:

"تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرجائے، پرہیزگاروں پر یہ حق اور ﺛابت ہے

(سورۃ بقرۃ،آیت 180)

یہ بات ذہن میں رہے کہ سورۃ بقرۃ کی آیت: 180 وصیت کے مسائل نازل ہونے کی وجہ سے منسوخ ہے اور یہ فہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏(‏إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ)‏ فَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ كَذَلِكَ حَتَّى نَسَخَتْهَا آيَةُ الْمِيرَاثِ.

‏ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ : «إن ترك خيرا الوصية للوالدين والأقربين» ” اگر مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے “ ( سورۃ البقرہ : ۱۸۰ ) ، وصیت اسی طرح تھی ( جیسے اس آیت میں مذکور ہے ) یہاں تک کہ میراث کی آیت نے اسے منسوخ کر دیا ۔

دیکھیں سنن ابی داؤد رقم: 2869 وسندہ حسن.

اسی طرح سیدنا ابن عمر، ابو موسی رضی اللہ عنہما سعید بن مسیب، حسن، مجاہد عطاء بن ابی رباء، سعید بن جبیر،محمد بن سیرین، عکرمہ، قتادہ طاؤس، ابراہیم نخی، ضحاک وغیرہ رحمہم اللہ بھی اس آیت کو وصیت کے مسائل کے نازل پر منسوخ سمجھتے تھے

اور بعض علماء کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے لیکن جن کا ورثہ مقرر نہیں انکے حق میں ثابت ہے. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ، حسن، مسروق، طاؤس ضحاک، مسلم بن یسار، علاء بن زیاد یہ ہی کہتے ہیں. اس آیت کی مکمل تفسیر دیکھیں:

تفسیرابن کثیر جلد: 1،صفحہ 296، 297، 298مترجم مکتبہ اسلامیہ))

وصیت کے معاملہ میں دو راتیں وصیت کے بغیر نہ گزاریں جائیں، بہرحال اس روایت کی رو سے مرنے والے کو وصیت کرنا چاہیے، یہ روایت آگے آۓ گی.

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

‏"‏مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَىْءٌ، يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ، إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ".‏‏

مفہوم:

کسی مسلمان کےلائق نہيں کہ اس کے پاس وصیت کرنے والی کوئي چيز ہو اور وہ بغیر وصیت لکھے دو راتیں بسر کر لے"

صحیح بخاری حدیث: 2738

مرنے والے کے لیے ایک تہائي یا اس سے کم مال میں وصیت کرنی جائز ہے، اوربعض کہتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ وصیت ایک تہائي تک نہیں پہنچنی چاہیے، اور اسی طرح وارث کےلیے وصیت نہيں کی جاسکتی کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"..وَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ.."

مفہوم:

"..وارث کے لیے وصیت نہيں.. "

سنن ترمذی کتاب الوصایا حدیث نمبر: 2121، امام ترمذی نے حسن صحیح اور علامہ البانی رحمہما اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے

جب کوئ مسلمان وفات پا جاۓ اور اسکی آنکھیں کھلی ہوں تو سب سے پہلے اس کی آنکھیں بند کرتے وقت یہ کہیے

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى أَبِي سَلَمَةَ وَقَدْ شَقَّ بَصَرُهُ فَأَغْمَضَهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَهُ الْبَصَرُ ‏"‏ ‏.‏ فَضَجَّ نَاسٌ مِنْ أَهْلِهِ فَقَالَ ‏"‏ لاَ تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلاَّ بِخَيْرٍ فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ ‏"‏ ‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِي سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ ‏.‏ وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ ‏"‏ ‏.‏

اے اللہ فلاں (اس کا نام لے کر) کو بخش دے، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اسکا درجہ بلند فرما. اس کے ورثاء میں تو اسکا جانشان بنا، اے ہمارے پروردگار! ہمیں اور اسکو بخش دے، اور اسکے لیے اسکی قبر میں کشادگی فرما. اور اسکے لیے اس میں روشنی کر دے.

(حوالہ: صحیح مسلم: 920)

کسی کے مرنے پر مندرجہ ذیل الفاظ کہنا مسنون عمل ہے

إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا ‏

ھم سب اللہ کے لیے ہیں اور ھم سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے. یا اللہ! مجھے میری مصیبت کے عوض بہتر اجر دے اور اس سے بہتر بدلہ عطا فرما.

(صحیح مسلم رقم: 918)

اسی طرح میت کو چادر سے ڈھانپ دینا چاہیے

أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ سُجِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ مَاتَ بِثَوْبِ حِبَرَةٍ.‏

سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، مفہوم:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائ تو آپ کو یمنی چادر سے ڈھانپ دیا گیا

بخاری اور مسلم: 942

میت کے ورثا کو میت کا قرض فورا اتارنا چاہیے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ ‏"‏.‏

مفہوم:

مومن کی روح اس وقت تک جنت میں جانے سے رکی رہتی ہے جب تک اسکا قرض ادا نہ کیا جاۓ.

(سنن الترمذی رقم: 1078 وسندہ حسن)

میت کی خبر بجھوانا مسنون ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَعَى لِلنَّاسِ النَّجَاشِيَ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ فَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى وَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ ‏.‏

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، مفہوم: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی موت کی خبر اسی روز بجھوائ.."
(صحیح مسلم رقم:951

مسلمان مرنے والے کی خوبیوں کا ذکر کرنا چاہیے لیکن اسکی برائیاں نہیں بیان کرنا چاہیے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‏ "لاَ تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا.."‏‏.‏

مفہوم:

جو لوگ مر گۓ انکو برا نہ کہو کیونکہ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں.."

(صحیح بخاری، رقم: 6516)

میت پر نوحہ، چیخ وپکار اپنے آپ کو مارنا ایسے امور پر میت کو عذاب ہوتا ہے اسلیے اس عمل سے بچنا چاہیے

دیکھیں صحیح بخاری رقم: 3978، 3979

یعنی مرنے والے مسلمان کو یہ وصیت ضرور کرنا چاہیے کہ اسکی موت کے بعد نوحہ نہ کیا جاۓ تاکہ اگر اس کے رشتہ دار یہ عمل کر بیٹھیں تو وہ اس گناہ اور عذاب سے ان شاء اللہ بری الذمہ ہو جاۓ.

دوسری روایت میں صبر کے حوالہ سے ہے سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا:

"‏يَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ ابْنَ آدَمَ إِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى لَمْ أَرْضَ لَكَ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ"‏.‏

مفہوم:

اللہ ارشاد فرماتا ہے: اے ابن آدم اگر تو نے صدمہ کے فورا بعد ثواب کی نیت سے صبر کیا تو میں تیری جزا کے لیے جنت پسند کروں گا.

حوالہ: ابن ماجہ، رقم:1597 وسندہ حسن

میت پر خاموشی سے آنسو بہانا جائز ہے

عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ، فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، مفہوم:

ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی رضی اللہ عنہا کی تدفین کے وقت موجود تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.."

(صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1342)

وفات کے بعد میت کا بوسہ لینا جائز ہے

عَنْ عَائِشَةَ، وَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا بَكْر ٍ ـ رضى الله عنه ـ قَبَّلَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ مَوْتِهِ

(رواہ بخاری، رقم الاحادیث: 4455، 4456 )

اس کا مفہوم: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مفہوم:

سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کا بوسہ لیا.

اہل ایمان کے فوت ہونے والے نابالغ بچے جنت میں جاتے ہیں

"قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ"‏‏.‏

سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ابراہیم رضی اللہ عنہ (فرزند رسول صلی اللہ علیہ وسلم) فوت ہوۓ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:

ابراہیم کو جنت میں دودھ پلانے والی موجود ہے

(حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 1382)

مشرکین کے فوت ہونے والے نابالغ بچوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،


"يَقُولُ سُئِلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ ‏ "‏اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ‏".‏‏

مفہوم:

اللہ انکے اعمال سے بہتر واقف ھے

(حوالہ: صحیح بخاری رقم الحدیث: 1384)

میت کے متعلق وہ امور جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور بدعت ہے

مرنے والے کے سر کے قریب قرآن مجید رکھنا یا سورۃ یاسین پڑھنا یا میت کا منہ قبلہ رخ کرنا، ناخن کاٹنا یا زیر ناف بال صاف کرنا یا یہ عقیدہ رکھنا کہ جمعہ کے دن صرف دو گھڑی عزاب ہوتا ہے پھر نہیں ہوتا، مرنے والے کے ارد گرد بیٹھ کر ذکر کرنا، صرف فاتحہ پڑھنا اور نعت خوانی کرنا اور اسکی اجرت لینا. راہداری (میت اٹھانے سے قبل غلہ ساتھ رکھنا اور تدفین کے بعد غرباء میں تقسیم کرنے) کی رسم ادا کرنا، مرنے والے کے پاس سورۃ بقرۃ یا سورۃ یاسین پڑھنا، حیلہ (میت اٹھاتے وقت میت پر قرآن مجید رکھنا اور رکھنے سے قبل اسکے برابر غلہ یا پیسے مولوی صاحب کو دینا) کی رسم ادا کرنا، بیوی کے فوت ہونے پر خاوند کے لیے بیوی کو غیر محرم قرار دینا وغیرہ یہ سب بدعات ہیں اور غلط طور پر رائج ہیں اور ان سے بچنے میں ہی فلاح ہے

موت کے بعد مؤمن خاوند اور بیوی کا تعلق قائم رہتا ہے

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ جِبْرِيلَ، جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ"‏.‏

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصویر سبز ریشمی کپڑے میں (لپیٹ کر) لاۓ اور کہا، مفہوم:

یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں

(حوالہ: ترمذی، رقم الحدیث: 3880 و سندہ صحیح)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسکو حسن غریب کہا، محدث کبیر الشیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا اور محدث العصر الشیخ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے بھی اسکو "انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعۃ" میں درج نہیں کیا. یاد رہے کہ اس کتاب میں الشیخ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے اپنی راۓ اور اپنی تحقیق کے مطابق سنن الاربعہ کی تمام کمزور اور ضعیف روایات کو درج اور جمع گیا، گویا معلوم ہوا کہ الشیخ زبیر علی زئ رحمہ اللہ کی راۓ میں بھی یہ روایت حسن یا صحیح درجہ کی ہے، واللہ اعلم.
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 413182 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.