پاکستان: سرمایہ کاری میں کمی....ملکی معیشت شدید متاثر

پاکستان کافی عرصے سے بدامنی، بھتا خوری، توانائی بحران، سیاسی عدم استحکام، بے روزگاری اور دیگر متعدد مسائل کی دلدل میں بری طرح دھنسا ہوا ہے، جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف پاکستانی معاشرہ بے یقینی اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہے، وہیں دوسری طرف پاکستانی معیشت بھی شدید خطرات سے دو چار ہے۔ امن و امان کی ابتر صورت حال اور توانائی کے بحران کے باعث غیرملکی سرمایہ کاری کم ہو گئی ہے۔ گزشتہ ماہ براہ راست غیرملکی سرمایہ 90 فیصد کمی سے صرف ایک کروڑ ڈالر رہ گئی ہے۔ ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال، سیاسی رسہ کشی اور توانائی کے بدترین بحران نے غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد کم کر دیا ہے، جس کے باعث براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال جولائی سے جنوری 2015 کے دوران براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 78 لاکھ ڈالر کمی سے صرف 54 کروڑ 54 لاکھ ڈالر رہی۔ گزشتہ سال اس دوران سرمایہ کاری کا حجم 55 کروڑ 32 لاکھ ڈالر تھا، صرف جنوری کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 9 کروڑ ڈالر کمی سے صرف ایک کروڑ 63 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ واضح رہے کہ پاکستانی معیشت جن مسائل کی وجہ سے شدید خطرات کی زد میں ہے، ان میں بدامنی، بھتا خوری، توانائی بحران اور سیاسی عدم استحکام سرفہرست ہیں۔ پاکستان گزشتہ تقریباً دس سال سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ ملک میں آئے روز بم دھماکے اور خود کش حملوں کی وجہ سے پاکستان میں خوف و ہراس اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کے مختلف شہروں میں ٹارگٹ کلنگ بھی زوروں پر ہے، اس حوالے سے کراچی کا نام سرفہرست ہے۔ اگرچہ بدامنی و خوف و ہراس پورے ملک میں ہے، لیکن کراچی میں بدامنی کا راج کئی گنا زیادہ ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ بھتا خوری بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ کراچی میں بھتا خوری کی وجہ سے ملکی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، کیونکہ بھتا خور بھتا نہ ملنے پر فیکٹریوں کو آگ لگا دیتے ہیں اور تاجروں کو قتل کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے سرمایہ کار کراچی چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہورہے ہےں۔ اگرچہ کراچی میں گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے رینجرز آپریشن جاری ہے، لیکن ابھی تک کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائم اور بدامنی پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو آئے ہوئے بھی دو سال ہونے کو ہیں، لیکن حکومت بدامنی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کراچی چونکہ ملک کا معاشی حب ہے، جس کے حالات پورے ملک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کراچی کے حالات کو دیکھتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ملکی سرمایہ کاروں کی بھی بڑی تعداد کراچی کو خیر باد کہہ رہی ہے۔ جبکہ ایک عرصے سے ملک میں موجود توانائی بحران بھی پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کا بڑا سبب واقع ہوا ہے۔ میاں نواز شریف نے عام انتخابات سے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ الیکشن جیت کر ہم چند ہی ما ہ میں ملک سے توانائی کے بحران کا خاتمہ کردیں گے، لیکن دو سال بعد بھی حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے میں تو کامیاب کیا ہوتی، بلکہ توانائی بحران میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ میں مزید اضافہ ہوا ہے، جس سے پاکستانی انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے توانائی کے حوالے سے کئی منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں، لیکن ان کی تکمیل کے لیے بھی کئی سال درکار ہیں۔ اس کے ساتھ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھی ملکی معیشت کو شدید خسارہ پہنچ رہا ہے۔ جب سے نواز حکومت ملک میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک ملک سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے ایک ساتھ مل کر ملک کے مفاد میں کام کرنے کی بجائے ایک طرف حکومت نے اقربا پروری اور سیاسی مفادات حاصل کرنے پر اپنی ساری توجہ مرکوز کی ہوئی ہے، وہیں دوسری طرف بعض اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے۔ گزشتہ سال پہلے ایک طرف طاہر القادری حکومت کو گرانے کے لیے اسلام آباد میں ڈیرہ جمائے بیٹھے رہے، جبکہ دوسری جانب کئی ماہ تک وفاقی دارالحکومت میں پی ٹی آئی نے دھرنا دیا رکھا،جس سے نہ صرف پاکستان کو کھربوں کا نقصان ہوا ، بلکہ کئی ممالک کے پاکستان کے ساتھ ہونے والے ترقیاتی معاہدے بھی منسوخ ہوئے، جبکہ اس کے بعد بھی ملک میں سیاسی حالات معمول پر نہیں آسکے۔

پاکستان کے موجودہ حالات سرمایہ کاروں کے لیے موافق نہیں ہیں۔ بدامنی، بھتا خوری، اغوا برائے تاوان، توانائی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے سائے میںغیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گھبراتا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ اچانک نہیں بناتے، بلکہ اس کے لیے دس بیس سال مکمل منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس کے بعد کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ دوسرے ملک میں سرمایہ کار ی کرنے کے بعد انڈسٹریز چونکہ کئی کئی سال تک قائم رہتی ہیں، اس لیے ملک کے حالات مستحکم اور پرسکون ہونا ضروری ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں ایک عرصے سے حالات معمول پر نہیں آئے، بلکہ دن بدن مزید بگڑ رہے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے کنی کترارہا ہے اور ملک میں پہلے سے موجود سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستان سے نکال رہا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار حصص خریدنے کی بجائے پہلے سے اپنے پاس موجود حصص فروخت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ فروری کے مہینے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے حصص فروخت کرکے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ سے 6 کروڑ 24 لاکھ 68 ہزار ڈالر کا سرمایہ نکالا۔ نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان لمیٹڈ کے اعداد و شمار کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں نے فروری کے آخری ہفتے کے دوران اسٹاک مارکیٹ سے 97 لاکھ 77 ہزار ڈالر نکالے، جبکہ اس سے پہلے ہفتے کے دوران 93لاکھ31ہزار ڈالر مالیت کے حصص خریدے تھے، جنوری 2015کے مہینے کے دوران غیر ملکیوں نے اسٹاک مارکیٹ میں 27 لاکھ99ہزار ڈالر کی سرمایہ کی تھی، تاہم فروری کے مہینے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بڑے پیمانے پر حصص فروخت کیے اور اپنا سرمایہ مارکیٹ سے نکال لیا۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کے حالات کی وجہ سے پاکستان کا اپنے سرمایہ کار بھی ملک کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہےں۔ سال گزشتہ ماہ اگست میں وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان سے گزشتہ 5سال کے دوران مجموعی طور پر 47 کروڑ 85 لاکھ 60ہزارڈالر مالیت کا سرمایہ بیرون منتقل ہوا ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(ای سی سی)اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی منظوری سے بیرون ممالک سرمایہ کاری کے لیے منتقل ہوا ہے، جبکہ غیرقانونی طریقے سے جو سرمایہ بیرون ممالک منتقل ہوا ہے اس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ مالی سال 2009-10 سے مالی سال 2013-14 کے دوران بیرون ممالک منتقل ہونے والے 47 کروڑ 85 لاکھ60 ہزارڈالر مالیت کے سرمائے میں سے 12کروڑ76 لاکھ 70 ہزارڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی منظوری سے بیرون ملک منتقل ہوا ہے، جبکہ 35کروڑ8 لاکھ 90ہزارڈالر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(ای سی سی)کی منظوری سے بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان سے بیرون سرمایہ کی منتقلی میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے جب ملک میں ناموافق معاشی حالات و واقعات ہوں اور سرمایہ کاری کی ناقص صورتحال ہو یا امن و امان کی صورتحال خراب ہو اور سیاسی عدم استحکام ہو۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی خراب معاشی صورتحال بدامنی اور توانائی بحران سے تنگ آکر سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کردیا ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک نے بھی پاکستانی سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات کا لالچ دےا۔ پاکستان سے ٹیکسٹائل سیکٹر بنگا دیش منتقل ہوا ہے۔ جہاں بنگلا دیشی حکومت نے پاکستانی سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات فراہم کی ہیں، پاکستان سے بنگلا دیش صنعتیں منتقل کرنے والوں کو صنعتی زونز میں مفت پلاٹ اور رہائش کے لیے مفت لگژری اپارٹمنٹ دیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ چند سال کے دوران 10 ہزار پاکستانیوں نے بنگلا دیش میں 500 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے، حالانکہ گزشتہ سال بنگلا دیش کے سیاسی حالات کافی کشیدہ رہے ہیں، اس کے باوجود پاکستانی سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ پاکستان سے بنگلا دیش میں منتقل کرنے کو ترجیح دی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان کے حالات بنگلا دیش سے بھی بدتر ہیں۔ جبکہ بنگلا دیشی حکومت نے ایک طرف غیر ملکی سرمایہ کاروں اپنے ملک میں خوش آمدید کہا ، جبکہ دوسری جانب دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے ملک کے لاکھوں افراد کے روزگار کا معاہدہ کیا۔ اسی ضمن میں فوری طور پر پانچ لاکھ خادمائیں سعودی عرب کو فراہم کرنے اور ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ مزدور سعوری عرب کو فراہم کرنے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ بنگلا دیش کے بعد پاکستانی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد اپنا سرمایہ ملایشیا میںمنتقل کر چکی ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ملایشیا منتقل ہونے والے پاکستانیوں میں اکثریت کراچی کے تاجروں کی ہے، جو کراچی کے حالات سے تنگ آکر اپنی فیملیوں کے ہمراہ ملائیشیا منتقل ہوچکے ہیں۔ پاکستانی سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کی تیسری بڑی جنت دبئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی سرمایہ کاروں کی بہت بڑی تعداد اپنا کاروبار دبئی میں منتقل کر چکی ہے۔ جبکہ ذرائع کے مطابق 2013 اور 2014 کی درمیانی مدت میں پاکستانیوں نے دبئی میں 16 ارب یو اے ای درہم یعنی 441.76 ارب روپے کی مالیت کی املاک کی خریداری کی۔ پاکستانیوں نے 2014ءکے دوران 7.5 ارب درہم یعنی 207.075 ارب روپے مالیت کی جائیداد کی خریداری کی۔ ان حالات میں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ اور مواقع فراہم کرے۔ سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ خرچ کرنے کی ترغیب دیں،تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار پاکستان میں اپنا سرمایہ خرچ کریں ، جس سے ایک طرف پاکستان کی معیشت مضبوط ہوسکے اور دوسری جانب پاکستان میں موجود لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار مل سکے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.