پی پی پی کے اندرونی اختلافات

 ورکرز پر بڑھتا ہوا ضمیر کا دباؤ
بلاول اُمید کی کرن

برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستانی سیاست کے اُفق پر اُبھرنے والی سب سے تواناجماعت اسوقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔30نومبر1967 کو پارٹی چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے جناب ذوالفقارعلی بھٹو ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے ‘جوآج تک اپنے پارٹی ورکرکوسب سے زیادہ محبوب ہیں۔

ppp کی بااثر شخصیات میں اسوقت جناب آصف زرداری ‘اُن کی بہن فریال تالپور ‘مخدوم امین فہیم اورپارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لطیف کھوسہ سمیت پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیوکمیٹی کے ممبر یوسف رضاگیلانی ہیں۔پی پی پی کی موجودہ رسی کشی مختلف گروپس کے ساتھ ساتھ پارٹی کے صدرآصف زرداری اورچیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مابین بھی جاری رہنے کی اطلاعات ہیں۔جب کراچی کے جلسے میں بلاول زرداری کو عوام سے متعارف کروایاگیاتوان کے لہجے کی کاٹ بھٹو جیسی بنانے کیلئے بہت تگ ودو کی گئی۔نواسے ہونے کے ناطے بلاول زرداری بھی ایک پُرجوش لیڈرہیں۔ذرائع کے مطابق بلاول زرداری پارٹی قیادت اپنے ہاتھ میں لیناچاہتے ہیں‘جبکہ انکے والد اختیارات کااستعمال خود کرکے انہیں پارٹی میں فعال رکھناچاہتے ہیں۔کراچی کا بلاول سیکرٹریٹ بھی نامعلوم وجوہات کی بناء پر بند ہے۔گوکہ پارٹی کے تمام عہدیدار جناب زرداری اور انکے فرزند کے درمیان کسی بھی قسم کی چپقلش کو خارج از امکان قراردیتے ہیں ‘لیکن اگرپیپلزپارٹی کے یوم تاسیس‘محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی اورمحترم ذوالفقارعلی بھٹوکی سالگرہ کی تقریبات پر نظردوڑائی جائے تو بلاول زرداری فزیکلی غائب نظرآتے ہیں۔ان کا اندرونِ سندھ سیلاب کے پانی میں غریب عوام تک چل کرجانااورپھر منظر سے ہٹ جاناکسی اوربات کاپتہ دیتاہے ‘یہ ایسی باتیں ہیں جس سے پارٹی کے دیرینہ ورکر کے قیاس کو تقویت ملتی ہے۔

دوسری جانب کچھ حلقوں کاکہناہے کہ اگلے ماہ پانچ تاریخ کو ہونے والے سینٹ انتخابات کی وجہ سے دانستہ طورپر بلاول زرداری کو پارٹی معاملات سے دوررکھاگیاہے۔پاکستان پیپلزپارٹی جس کے پاس اسوقت قومی اسمبلی کی 47‘سینیٹ کی 41‘اورصوبائی اسمبلی کی 106نشستیں ہیں ‘سینیٹ میں تیس نشستیں جیتناچاہتی ہے۔اسکے لیئے اس نے ایم کیوایم‘مولانا فضل رحمان اور اندرون ِ بلوچستان رابطے بڑھادیئے ہیں۔بلاول زرداری اپنے تندوتیز بیانات کی وجہ سے ایم کیوایم کے علاوہ دیگرجماعتوں سے بھی پی پی پی کی دوری کاسبب بنے تھے ‘اسلیئے ممکن ہے وہ سینیٹ انتخابات کے بعد منظرِ عام پر آجائیں‘لیکن ان باتوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو طفل تسلی نہیں دی جاسکتی۔وہ فرزندِ بے نظیر کو فارم میں دیکھناچاہتے ہیں۔بالخصوص پنجاب کی پی پی پی بلاول زرداری کے ایکٹیوہونے کی پرزورحامی ہے۔

1970‘1977‘1988‘1993اور2008میں برسراقتدارآنے والی جماعت 2013کے الیکشن میں بالکل بے بس نظرآئی۔جنوبی پنجاب میں صرف ضلع رحیم یارخان میں قومی اسمبلی کی دونشستیں اسے حاصل ہوئیں۔جبکہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں آٹھ نشستوں پراسے قناعت کرنی پڑی۔جناب ذوالفقارعلی بھٹو اپنے معمولی ورکرز کے بھی نام یادرکھاکرتے تھے‘لیکن آج کی پی پی پی تنظیمی طورپر بھی اپنی پوزیشن بحال کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔حال ہی میں مخدوم شہاب الدین کو ہٹا کر سابق گورنر مخدوم سیداحمد محمودکوجنوبی پنجاب کا صدرمقررکیاگیاہے۔کچھ حلقے اس بات کو بھی اس اندازمیں پیش کرتے ہیں کہ مخدوم شہاب الدین اورسابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے مابین اختلافات کی وجہ سے یہ ایکشن لیاگیا‘جبکہ مخدوم شہاب الدین کاموء قف ہے کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے علیل تھے اورانہوں نے بغیر کسی دباؤ کے استعفی دیا۔پی پی پی کی 2013کی شکست کے حوالے سے مخدوم شہاب الدین کا موء قف ہے کہ ’’ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والوں نے بھی پہلے سے طے کررکھا تھا کہ اس دفعہ pppکو اقتدارمیں نہیں آنے دینا چاہیئے ۔‘‘

دوسری جانب سندھ میں بھی درگاہِ نوح کے سجادہ نشین اورپی پی پی کے دیرینہ ورکر مخدوم امین فہیم کے بارے بھی ایسی ہی اطلاعات ہیں کہ وہ پارٹی قیادت سے نالاں ہیں ۔گزشتہ دنوں پیرپگارو اورمخدوم امین فہیم کے درمیان ملاقات ہوئی ۔اطلاعات کے مطابق اس دوران مخدوم امین فہیم اور حُرجماعت کے روحانی پیشواکے درمیان بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مشترکہ حکمتِ عملی پر غورکیاگیا‘تاکہ سروری جماعت اورحُر جماعت کے اشتراک سے اپنے زیادہ اُمیدواروں کو کامیاب کرایاجاسکے۔اگرایساہوتاہے تو یقینایہ بات آصف زرداری صاحب کیلئے ناگوارہوگی‘ذرائع کے مطابق اندرونِ سندھ بلدیاتی انتخابات کے دوران پی پی پی کی یہی کوشش ہے کہ پرانے ورکرزکوٹکٹ دے کر راضی کیاجائے۔اس طرح کاالجھاؤ دونوں جانب نقصان کرسکتاہے کیونکہ جس پیپلزپارٹی پارلیمینڑیرین کے ٹکٹ پر اسمبلی کے اُمیدوارجیتے ہیں ‘اس پر مخدوم امین فہیم کے بطور صدردستخط ہیں اور اب سینیٹ کے ٹکٹس پربھی انہی کے دستخط چلے ہیں۔

بدھ کے روز مخدوم امین فہیم نے لندن میں بلاول سے ملاقات کی۔اطلاعات ہیں کہ اس میں انہوں نے بلاول کو اپنی ناراضگی سے آگاہ کیا۔اب جب کے پی پی پی اور ایم کیوایم میں پھر قربتیں بڑھ رہی ہیں ایسے میں ذولفقارمرزاپھر سے ایکشن میں ہیں۔گزشتہ برس انہوں نے سرپرقرآن مجید رکھ کر ایم کیوایم پر سنگین نوعیت کے الزام لگائے تھے اورپھر یکلخت منظرسے ہٹ گئے تھے۔

انہوں نے ایک نجی چینل کو انٹرویودیتے ہوئے اس بات پر زوردیاکہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری اورآصف علی زرداری کے مابین شدید اختلافات ہیں۔انہوں نے چیلنج کیاکہ اگرایسانہیں ہے توپھرآصف علی زرداری ‘بلاول کو بلاکرمجھے جھوٹاثابت کردیں۔اُن کا یہ بھی کہناہے کہ بلاول زرداری سندھ کے وزیراعلی قائم علی شاہ کوہٹاکرمراد کووزیراعلی بناناچاہتے تھے ‘مگرآصف زرداری نے انہیں ایساکرنے سے روک دیا۔انہوں نے پی پی پی کی قیادت پر الزامات کی برسات کرتے ہوئے انہیں انورمجید اور مظفرٹپی پر نوازشات کرنے کی قدغن لگائی ۔جس کے جواب میں شرجیل میمن نے کہا کہ اگر بند شوگرملوں کو قانونی طریقہ سے انورمجید نے فعال کرکے ملک کی بہتری کیلئے قدم اُٹھایاہے تو پھر اس میں کون ساجرم ہے۔ذوالفقارمرزاکی پریس کانفرنس کے بعد پی پی پی کی جانب سے انکی سینٹرایگزیکٹو کمیٹی کی ممبرشپ معطل کردی گئی ہے۔

دنیامیں ازل سے اقتدارہی کی رسی کشی چل رہی ہے‘یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کے دلائل بھی اپنے ہیں اورجج بھی اپنے ۔مرحوم ذوالفقارعلی بھٹو پارٹی کے بانی چیئرمین تھے ‘ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کے پارٹی کے وجود میں آنے سے لیکر جناب ِ بھٹو کی وفات 4اپریل 1979تک ان جیسی کرشماتی شخصیت پارٹی میں موجود نہ تھی لیکن انہوں نے بھی پارٹی انتخابات نہیں کروائے ‘نواب محمد احمدخان کے قتل کے الزام میں گرفتارہونے سے قبل ہی جناب اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹوکوچیئرپرسن نامزدکرگئے۔پھر بیگم نصرت بھٹوصاحبہ نے دخترِ پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹوکوشریک چیئرمین نامزد کردیا۔پھر دسمبر 1993آیااورمحترمہ بے نظیرصاحبہ نے چیئرپرسن کی عدم موجودگی میں سنٹرایگزیکٹوکمیٹی کے اجلاس میں اکتیس ارکان کے متفقہ فیصلے سے خود کو چیئرپرسن منتخب کراتے ہوئے بیگم نصرت بھٹوکومعزول کردیا‘محترمہ 27دسمبر 2007تک پارٹی کی چیئر پرسن رہیں۔اب پھر بظاہر ایک ایسی ہی صورتحال درپیش ہے ۔وہ پارٹی جسے محترمہ بے نظیر بھٹواورذوالفقارعلی بھٹو نے اپناخون پسیناایک کرکے ملک کی زنجیر بنادیاتھا‘اب شکستہ حال ہے۔صوبہ خیبرپختونخواہ میں انکے پاس صرف صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں ہیں ‘بلوچستان میں زیرو‘جنوبی پنجاب جوکہ پی پی پی کاووٹ بینک تھا اسے پی پی پی کی کارکنان سے بے رُخی اور پاکستان تحریک انصاف اچک چکی ہے۔عامرڈوگرکی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد جاوید احمد صدیقی کو جنوبی پنجاب کا سیکرٹری مقررکیاگیاہے۔جاوید احمد صدیقی اورصدرجنوبی پنجاب مخدوم سید احمد محمود پارٹی کو جنوبی پنجاب میں متحرک کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پارٹی ورکرزشکستہ دل ہیں ۔وہ بھٹو اورمحترمہ کی محبت میں پارٹی سے لگاؤ رکھتے ہیں لیکن ملک میں گردش کرتی افواہیں اورپارٹی کاعوام میں گرتامورال ان کے حوصلے کو شکست دینے کی برابرکوشش کررہاہے۔پارٹی کی جانب سے بلاول زرداری اورشریک چیئرمین سابق صدر کے درمیان اختیارات کے تنازعے کی تردید کے باوجود عام ورکرمطمئن نظرنہیں آتا۔کہیں کہیں دیرینہ ورکر یہ کہتاہواپُرجوش ہوجاتاہے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے۔اس نعرے کے بعد اگر اسکے چہرے پر موجود پریشانی سے پیداہونے والے اتارچڑھاؤ پر نظر ڈالی جائے تو پارٹی کے عمومی تاثرکی کڑیاں صاف عیاں ہوجاتی ہیں۔ہمارے ایک پیارے دوست اورپی پی پی کے چاہنے والے ضلع لیہ کے پہلے صاحبِ کتاب شاعرعباس زیدی صاحب کہتے ہیں کہ جب تک 73کا آئین زندہ ہے ‘بھٹو بھی زندہ رہے گا۔انکی الفت اپنی جگہ مگر سوچنے کا مقام ہے کہ جناب ِ بھٹو اورپھر بے نظیر کے بعد پی پی پی میں کیا کوئی ایسا لیڈرنہیں جس کے لیئے کارکنان کے دلوں میں ویسی ہی محبت جنم لے‘ جیسی ان شخصیات کیلئے ہے ؟؟؟جناب آصف زرداری صاحب اپنے دور حکومت میں ایک مضبوط عصاب کے سیاستدان کے طورپر اُبھرے ‘مگر ان کیخلاف پھیلنے والی افواہیں اس قدرطاقتورہیں کہ ان کی مفاہمت کی سیاست کے اعزاز کوبھی دھندلادیتی ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عامی آدمی سوچتاہے کہ اگر یہ مفاہمت عوام کیلئے سود مند ہے توپھر اسکے ثمرات کیوں نظرنہیں آتے ۔پاکستان پیپلزپارٹی کاورکرسوچتاہے کہ اگریہ مفاہمت ملکی حالات کو سازگاربنانے میں مددگارثابت ہوئی ہے تو پھر مجھے لوگ طعنہ کیوں دیتے ہیں کہ تمہارے دورمیں فلاں جگہ کرپشن ہوئی‘سفارش ہوئی‘مہنگائی بڑھی ‘پی پی پی کاورکر جب اپنے اسلاف پرتنقیدسنتاہے تو اسکاپارہ چڑھ جاتاہے لیکن اسکے پاس دوستوں اوراحباب کو رد کرنے کیلئے جتناموادہوتاہے وہ دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے جب اپنے رہنماء کی تکذیب کا جواب دیتاہے توایک فقرہ اس کے دل وضمیر پر بجلی بن کر گرتاہے کہ’’بڑی طرفداری کرتے ہو‘تمہیں پی پی پی نے کیا دیا؟یہ کسی ایک نہیں بلکہ سندھ ‘بلوچستان‘جنوبی پنجاب اورخیبر پختونخواہ کے ورکرز کے بھی دُکھ کا قصہ ہے ۔پی پی پی کے ورکرکوکہاجاتاہے کہ تم سات برس سے سندھ میں اقتدارمیں ہو اورعروس البلاد کو ٹارگٹ کلنگ‘اغوابرائے تاوان‘لینڈمافیا‘بھتہ خوری‘سڑیٹ کرائمز‘گینگ واراورسیاسی عدم استحکام سے نجات دلانے میں ناکام ہوگئے ہوتواسکے پاس جواب دینے کو کچھ نہیں ہوتا۔وہ بس یہی سوچتاہے کہ یہ ایسی مفاہمت کا کیافائدہ جس سے جنوبی پنجاب میں پی پی پی کاصفایاہوا‘کراچی خون میں نہایا‘تھرکے سینکڑوں معصوم پھول جیسے بچے بن کھلے مرجھاگئے۔یہاں آکراُسے ذوالفقارمرزاکی کچھ باتوں میں سچائی نظر آنے لگتی ہے۔وہ سوچتاہے کہ اسلامی سوشلزم کانعرہ لگانے والی پی پی پی کے دورمیں اوراسکے آبائی صوبے میں ہی معصوم کلیاں بھوک سے بلک بلک کرماؤں کی گود میں دم توڑ رہی ہیں اورانکاپرسان حال کوئی نہیں ‘ایسے میں انکی نظر جناب بلاول زرداری پر جاپڑتی ہے ‘وہ اس امید کی کرن کے بارے میں سوچتے ہوئے اسوقت پریشان ہوتاہے‘ جب اُسے سوشل میڈیا اورپرنٹ والیکڑونک میڈیامیں گردش کرتی خبریں اورذوالفقارمرزاکے گرماگرم بیانات تکلیف دیتے ہیں۔ذوالفقارمرزاکے بارے کبھی اُسے کہاجاتاہے کہ وہ عذیربلوچ کی گرفتاری کی وجہ سے پریشان ہے توکبھی کوئی بیان دیاجاتاہے ۔ایسی الجھن زدہ فضا میں وہ جوش‘ وہ ولولہ جو ایک فعال سیاسی پارٹی کے رکن کی پہچان ہوتاہے‘ اسکے اندرمنجمدہوجاتاہے۔پیپلزپارٹی کے ورکرز کو لوگوں کو اس بات کا بھی جواب دیناپڑتاہے کہ پانچ سالہ دورِ حکومت میں محترمہ کاقاتل نہیں ملا اورتم کیاکروگے ؟یہ ایک ایساسوال ہے جو اس کے دل ودماغ کو پہلے سے زیادہ منتشرکرتاہے اورافواہوں کواسکے اندرجگہ دیتاہے۔پھر عام ورکریہ سوچتاہے کہ مباداذوالفقارمرز کی یہ بات سچ ہو کہ جناب بلاول زرداری کا ٹوئٹراکاؤنٹ کوئی او رآپریٹ کررہاہے۔۔۔ویسے ٹیکنالوجی اتنی جدید ہو گئی ہے کہ پتہ لگایاجاسکتاہے کہ یہ ٹویٹ کس ریجن سے ہواہے‘ جس میں ذولفقارمرزاپرطنزکیاگیاہے یاپی پی پی کے اندرونی اختلافات کو رد کیاگیاہے۔مگریہ کون کرے ؟ اورکیوں کرے؟

پی پی پی جو کہ ایک مزدورکی جماعت تھی‘ اسکوفعال کرنے کیلئے اُمید کی کرن بلاول زرداری ہی ہوسکتے ہیں۔انھیں نوجوانوں میں گھل مل کررہناہوگا۔اپنی والدہ کی مانند کبھی ریڑھی والے کے پاس چنے کھاناہوں گے اورکبھی اپنے ناناکی طرح سکول کے دورے پر اساتذہ کی کرسی پر بیٹھنے سے انکارکرتے ہوئے موڑھے پر بیٹھناہوگا۔خلوص ومحبت کارکنان پر نچھاورکرناہوگی ۔ورکرزکے گلے شکوے دورکرتے ہوئے پارٹی کوحتی الوسع کرپشن‘سفارش ‘اقرباء پروری اور خوف سے نکالناہوگا۔پارٹی کے جمودکوتوڑنے کیلئے انہیں ملک گیردورے کرناہوں گے ۔پارٹی کے اندرنوجوان خون کو جگہ دینی ہوگی اورمخلص بزرگ اراکین کااحترام کرتے ہوئے اُن سے بہت کچھ سیکھناہوگا۔مفاہمت کی سیاست کو جاری رکھتے ہوئے اپنے تحفظات کابرملااوربرموقع نہ صرف اظہارکرناہوگابلکہ اپنی جماعت کوحقیقی اپوزیشن پارٹی کے طور پر اُبھارنا ہوگا۔پاکستان پیپلز پارٹی کو غریبوں اورمزدوروں کی جماعت بناناہوگا۔نیچے سے لے کراوپرتک پارٹی کی ری کنسٹرکشن کرتے ہوئے ایمانداراورمخلص ساتھیوں کو سامنے لاناہوگا۔اطلاعات کے مطابق پی پی پی میں چند ایسے افراد بھی ہیں جو انہیں مس گائیڈ کرسکتے ہیں‘انکے ساتھ محتاط رویہ اختیارکرکے اپنے فطرتی لہجے اورانداز کواپناناہوگا۔اگروہ ایساکرنے میں کامیاب ہوگئے اورپی پی پی کے بزرگ اراکین نے نئے خون کیلئے جگہ خالی کردی تو بلاشبہ اگلے الیکشن تک یہ جماعت اپنے آپ کو بھٹوکی جماعت کہلاکرفخرکرسکے گی۔اگرایسانہیں ہو تاتونہ صرف بھٹوخاندان‘پی پی پی کے چاہنے والوں بلکہ پاکستان کا نقصان بھی ہوگا۔ایسا تونہیں کہ پانچ مرتبہ اقتدارمیں آنے والی جماعت یکلخت دم توڑ دے گی لیکن ایسا ضرورہے کہ اس سپیس سے جب کوئی اورمستفید ہوگاتو رفتہ رفتہ یہ جماعت اپنی وہ ساکھ کھوبیٹھے گی ‘جسے پانے کیلئے بھٹوخاندان اﷲ کو پیاراہوا۔بیگم نصرت بھٹو نے نجانے کس انداز سے یہ کہاتھاکہ bhuttos are born for rule۔ ممکن ہے خدائے ذوالجلال کو یہ فقرہ پسند نہ آیاہو۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174302 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.