ہمارے پاؤں بارود پر ……

پورا ملک سیکورٹی کے لحاظ سے غیر محفوظ ہے۔اس کی بڑی وجوہات اندرونی و بیرونی دشمن عناصر بیان کی جاتیں ہیں۔جن کے بنیادی مقاصد پاکستان کی بنیادیں ہلانا ہیں اور یہاں کی سیاسی،معاشی اور تہذیب و ثقافت کو تباہ کرنا ہے،لیکن یہ تو دنیا کے ہر بڑے چھوٹے ملک اور خطہ کا مسئلہ ہے، وہاں اگر اندرونی نہیں تو بیرونی طاقتیں تو ضرور ہوتیں ہیں جو انہیں نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ ہر کسی ملک کے دشمن ہوتے ہیں۔جس کے ٹارگٹ پر وہ ہوتا ہے۔ اسی لئے قومی سیکورٹی پلان بنایا جاتا ہے اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ اگر ذرا سا وہم بھی ہو تو اس پر سختی سے کام کیا جائے ،تاکہ کوئی حادثہ رونما نہ ہو سکے ۔دشمنوں کو آسان ٹارگٹ نہ مل سکے۔

ہمارے ہاں رویہ ذرا مختلف ہے یا شاید ہم دنیا میں بسنے والی مختلف قوم ہیں۔ہمیں شاید اپنی زندگیوں،بچوں سے پیار نہیں۔اس کا اندازہ ماضی کی کئی مثالوں سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ہمارے ہاں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر با اختیارعہدیداروں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سسٹم کا خوب مزاق اڑایا ہے۔ یہاں انتہائی سنگین بحرانوں میں سیاسی قائدین کے مزاحیہ جملوں ،بیانات نے غیر سنجیدہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یہاں بین القوامی دہشت گرد کو با آسانی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس ملک کے ساتھ کسی نے کوئی ایسا اچھا سلوک نہیں کیا ،جسے قابل تحیسن کہا جا سکے۔وہ سیاسی ،فوجی قائدین ہوں یا جاگیردار ،وڈیرے یا سرمایہ دار ہوں ،وہ بیوروکریٹس ہو یا کلرک بادشاہ سب اپنے مفادات کے حصول میں سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ اس سے ملک برباد ہو گا یا غریب عوام جان سے جائے گی ۔یہ اﷲ تعالٰی کا خاص کرم ہے کہ یہ ملک سلامت ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے وطن اور اپنی قوم کے لئے مثبت سوچ رکھتے ہوئے بہتری کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی ایسا انکشاف سامنے آتا ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی ہم کہا کھڑے ہیں۔

آج کل گزشتہ کئی دنوں سے چکوال میں بارودی مواد استعمال کرنے والی لائسنس یافتہ کمپنیوں کی چھان بین کے لئے ڈی سی او چکوال عامر لودھی نے احکامات جاری کئے ۔یہاں پر 12کے قریب کمپنیاں تھی جن کو بارودی مواد رکھنے کا لائسنس دیا گیا تھا جو کہ وہ سالٹ مائنز کے لئے استعمال ہوتا تھا،مگر جب سروے کیا گیا ،تو یہ دیکھ کر عامر لودھی کو بھی اس بات پر شدید تشویش ہوئی کہ آٹھ سو کے قریب لوگ ایسے ہیں جن کے پاس گن پورڈر اور دوسرے دو طرح کے خطر ناک بارودی مواد موجود ہیں ۔جس کی عام خریدو فروخت ہو رہی ہے۔ مجھے عامر لودھی یہ بات بتاتے ہوئے خود بھی افسوس زدہ اور پریشان تھے کہ یہاں سے بارودی مواد ایسے خرید و فروخت ہو رہا ہے، جیسے کوئی ٹافی خرید نی ہو ۔اس بارودی مواد کی عرصے سے کوئی مونیٹرنگ نہیں ہوئی ۔انہوں نے فوج سے ماہرین کو بلا کر تفتیش کی ،جس سے کئی اور دل دھلا دینے والے انکشافات سامنے آئے ۔

اس بارودی مواد کو گن پورڈر کہا جاتا ہے۔یہ اتنا خطر ناک ہے جو کہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ اگر2 کلو گرام گن پورڈر کھاد میں ملا دیا جائے تو وہ خطر ناک بارود بن جاتا ہے۔ عامر لودھی جیسے مردِ مجاہد آفیسر نے اپنا کام کر دیا ،مگر کیا اتنے بڑے مسئلے کا سامنے آنے کے بعد اس کا سختی سے سدِ باب کیا جانا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہو رہا ،بلکہ ڈی سی او عامر لودھی کو پی ایم ڈی سی کے محکمہ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے سفارش کی گئی کہ جیسے ہے ویسے ہی کام کو چلنے دیا جائے۔غریب مزدوروں کے بیروزگاری کا مسئلہ ہے۔ یعنی بارودی مواد کو بغیر کسی تحفظ کے کھلا چھوڑ دیا جائے ۔

ملک میں دہشت گردی کرنے کے لئے وزیرستان جیسے علاقوں کی کیا ضرورت رہی ہے۔ جب کہ یہاں کئی وزیرستان ہیں،جہاں سے بارود،اسلحہ آسانی سے مل سکتا ہے۔ کیا ملک کے دارلخلافہ سے چند میل دور فاصلے پر واقع چکوال شہر اور دوسرے کئی شہروں سے جب چاہیں بارودی مواد حاصل کر سکتے ہیں۔کیا کسی کو اس بات کی سنگینی کا اندازہ ہے……؟یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ سال ہا سال سے سے ایسے ہی چلا آرہا ہے۔ یہ بارود کہاں سے آتا ہے ،کہاں استعمال ہوتا ہے، یہاں سے کدھر جاتا ہے……؟ کوئی ذمہ دار نہیں ہے اور جب کسی آفیسر نے ملک اور عوام کی حفاظت کے لئے قدم اٹھایا ہے تو اسے غلط سفارشیں کی جا رہی ہیں اور غلط طریقے سے بارودی مواد کا کاروبار چلتے رہنے کی ضرورت پر ضد کی جا رہی ہے۔
ملک کے ہر شعبہ میں پاور فل مافیا کا رواج عام ہے۔ سیاسی مافیا، سرمایہ دار مافیا ،قبضہ گروپ مافیا اور ہر شعبہ میں مافیا اتنا موثر ہو چکے ہیں کہ ان کے لئے ایک سنجیدہ ایکشن پلان کی ضرورت ہے ۔ضروری نہیں کہ یہ ’’کلین واش‘‘ ایک ساتھ ہو ،ایک کے بعد ایک کیا جا سکتا ہے،مگر کہیں سے شروع تو کرنا ہو گا۔ ورنہ حکومت کو ایسے بڑے مجرمانہ غفلت برتنے پر قوم معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اپنے بچوں کا سوچنا ہو گا ۔ سانحہ پشاور کے دوران ننھے بچوں نے جان دے کر حکمرانوں کی ایسی کئی غفلتوں کا خمیازہ اٹھایا ۔ لاہور میں مون ماکیٹ کا واقعہ بھلایا جا چکا ہے کہ کتنے آرام سے دہشت گرد نے بارودی مواد حاصل کیا اور مارکیٹ میں رکھ کر چلا بھی گیا ۔مفاد پرست لوگوں کی مجرمانہ غفلت سے ہمارے ہزاروں پیاروں کی بے گناہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

اگر کسی محبّ وطن نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے تو یہیں سے کنٹرول شروع کر دیا جائے ۔یقیناً پہاڑوں پر ایسے بارودی مواد کی ضرورت ہے مگر اسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری لائسنس یافتہ کمپنیوں کو دی جائے اور ان کو سختی سے گاہے بگاہے چیک کیا جائے۔اگر انکمپنیوں میں سے کوئی غفلت کرتا ہے تو اسے کڑی سزا دی جائے تاکہ کوئی ایسی بے پروائی کی جرات نہ کر سکے اور ہم مزید کسی حادثے کا شکار ہونے سے بچ جائیں ۔
 
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 19 Articles with 13069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.