نقوشِ محبت

سال اور گزر گیا، میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ، اگرچہ مجھے مزید پڑھنے کا شوق تھا مگر 1965 کی پاک بھارت جنگ نے ہم نوجونواں پر عجیب سا اثر ڈالا تھا ۔میرے دل بھی پاک فوج میں شامل ہو کر اپنے ملک پر جان قربان کا جذبہ مو جزن تھا ۔ایک دن ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کرک گیا تو وہاں فو جی بھرتی ہو رہی تھی، میں نے قمیص نکالی اور بھرتی ہو نے کے لئے جوانوں کی صف میں کھڑا ہو گیا ۔

جھٹ سے بھرتی ہو گیااور میرے ہاتھ میں دو کاغذپکڑا کر دو دن کے بعد نو شہرہ رپورٹ کرنے کی تاکید کی گئی۔

فوجی ٹریننگ حاصل کرنے نو شہرہ پہنچا، اب پریکٹیکل لائف میں قدم رکھنے کے بعد مجھے زندگی کے تلخ رویوں سے واسطہ پڑا۔چھ ماہ ٹریننگ کے بعد میرا تبادلہ نو شہرہ ہی کے آرمی سپلائی ڈ پو میں کر دیا گیا۔․․․․․․․․․ہماری بیرک (رہنے کی جگہ) ڈپو سے تقریباً آدھا کلو میٹر دور تھی اور ہم روزانہ وہاں پیدل جایا کرتے تھے۔چھ سات مہینے تو خیریت سے گزر گئے ․․․․․․․․․․․․․لیکن ایک دن اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مکمل طو پر میری زندگی کا رخ بدل دیا اور ایک نئی ڈگر پر مجھے ڈال دیا ۔ہوا یوں کہ جس راستے پر ہم روزانہ پیدل جایا کرتے تھے اس راستے میں فوجی افسروں کی کو ٹھیاں بھی واقع تھیں․․․․․․․․ ایک جب موسم بڑا سہا نا تھا ، میں جو نہی پہلی کو ٹھی کے قریب پہنچا تو ایک سفید لفافہ اڑتا ہوا میرے قدموں میں آگرا،․․․․․․ لفافہ اٹھایا،․․․․․․․ کو ٹھی کی طرف دیکھا ․․․․․․․، بر آمدے میں لگے چک کے پیچھے فرش اور چک کے درمیان خالی جگہ دو سفید سفید پاؤں نظر آگئے، ․․․․․․میرا دل دھک سے رہ گیا․․․․․․۔میں آگے جانے کے بجائے پیچھے کو مڑ گیا ،سڑک کے ایک کنارے پر کھڑا ہو کر لفافہ کھولا، لکھا تھا۔۔۔

اجنبی ! معاف کرنا ،جو کچھ کر رہی ہوں․․․․․․․․ شاید آپ کو پسند نہ آئے ․․․․․․․کو ئی شریف لڑکی بھلا اس طرح کب کرتی ہے کہ کسی اجنبی کا راستہ روک لے اور واضح بے شرمی سے کہہ دے ․․․․․․․میں آپ سے محبت کرتی ہوں․․․․آپ نے مجھے نہیں دیکھا۔۔․․․․․․․مگر میں آپ کو کئی مہینوں سے دیکھ رہی ہوں ، ۔۔ہر چند کو شش کی کہ آ پ کا راستہ نہ رو کوں مگر اب بات میرے بس میں نہیں رہی۔۔۔یقین جانیے ،میں نے پہلی بار دل ہارا ہے․․․․آپ مجھے قابلِ اعتبار لڑکی پا ئیں گے․․․․․میری سچائی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جس کو مخاطب کر رہی ہوں․․․․․․نہیں جانتی کہ وہ کیا ہے․․․․․کون ہے ․․․․؟ کیا آپ میری ڈھٹائی کو معاف کر دیں گے ؟ کیا یقین کروگے کہ میں اپنی زندگی آپ پر نچھاور کر سکتی ہوں․․؟
آپ کی۔۔۔۔۔۔ــــ

خط پڑھ کر میرا دل زور سے دھڑکا،․․․ایک لرزتی ہو ئی خوشی محسوس کی․․․․بیرک پہنچا تو میری حالت کچھ عجیب سی تھی․․․․جو کچھ پیش آیا اس کا یقین نہیں آرہا تھا․․تکیے سے ٹیک لگائے چو ری چوری خط پڑھتا․․․جانے کتنی بار پڑھا․․․․ایک ساتھی سپاہی نے ایک دو بار کھانے کے لئے پو چھا ․․میں نے انکار کیا․․․․․․․․․بھوک کوسوں دور جا چکی تھی․․․․ دل میں طرح طرح کے وسوسے اٹھ رہے تھے․․․․کوٹھی کسی فوجی افسر کی تھی․․․․

میں سوچتا، کسی فوجی افسر کی بیٹی․․․ اور․․․میں ایک ادنیٰ درجے کا سپاہی․․․․مگر اس سوچ کے ساتھ غیر ارادی طور پر یہ خیال بھی آتا کہ یہ لڑکی جس کے پاؤں اتنے سفید اور ملائم تھے․․․․کتنی خوب صورت ہو گی․․․قریب سے کیسی لگتی ہو گی․․․اس کے خد و خال کیسے ہو ں گے․․؟

دوسرے روز اس راستے سے جاتے ہو ئے میں نے اس کو ٹھی پر کرنل فصیح ا لدین نام کی تختی پڑھی․․․․․․․․․․․․․․میں ایک سپاہی اور دوسری طرف ایک کرنل کی بیٹی․․․․یہ خیال بار بار ذ ہن میں کود آتا تھا کہ یہ طبقاتی خلیج کیو نکر پا ٹی جا سکتی ہے․․․․․رات کے گیارہ بج گئے-

میں نے تمام شکوک و شبہات کے دفتر بند کر کے اسے خط لکھا ۔لیکن اس خط میں محبت کااقرار نہیں تھا․․․ انکار بھی نہیں تھا․․میں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اسے قریب سے دیکھنا چا ہتا ہوں ․․․․․․․․اگلی صبح ڈپو کی طرف روانہ ہوا ، رات کا لکھا ہوا خط پتلون کی جیب میں تھا، کوٹھی کے سامنے پہنچا تو برآمدے میں چک کے پیچھے وہی دودھیا رنگ کے پاؤں نظر آ گئے․․․میں نے پتلون کی جیب سے خط نکال کر ایک اینٹ کے نیچے رکھ دیا۔․․․․آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتا رہا مگر نظر اینٹ کے نیچے دبے خط کی طرف تھی․․․․․․․دیکھا․․․برآمدے سے سفید شلوار اور سبز کوٹ پہنے ہو ئے ایک لڑکی نکل آئی اور بے نیازی سے ٹہلتی ہو ئی اینٹ کے نیچھے سے خط اٹھاتی ہو ئی اندر چلی گئی ۔․․․․․میری تسلی ہو ئی مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ دل ڈوب ڈوب کر ابھر رہا تھا اور ابھر ابھر کر ڈوب رہا تھا ․․․․․․․․․․․․․․․․․․

دو بجے چھٹی ہو ئی اور میں ڈپو سے بیرک کی طرف روانہ ہوا۔۔کوٹھی کی قریب پہنچ کر اس کا جائزہ لینے لگا تو لڑکی کوٹھی سے نکلی اور کو ٹھی کے قریب شیشم کے درخت کے ساتھ ایک اینٹ کے نیچے خط رکھ کر واپس چلی گئی․․․․․میں جلدی سے وہ خط اٹھایا ۔۔․․ خط پڑھنے کے لئے بے تاب تھا۔۔ بیرک پہنچنے سے پہلے سڑک کے کنا رے کھڑے ہو کر خط کھولا․․․․․․لکھا تھا․․․․․․․․․․

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روشن خٹک کے زیرِ تحریر ناول سے ماخوذ․․․․․․․․․․․(جاری ہے)
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285379 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More