ٹھیکداری نظام اور قومی خزانہ

ہم کرپشن کانام تولیتے ہیں، قومی خزانہ اور غریب عوام دونوں پر ترس کھاتے ہیں، بے جاسفارش اور رشوت خوری کے بھی خوب تذکرے ہوتے ہیں،صحافیوں کے ہاتھوں لکھتے لکھتے کتابوں کے دفتربن گئے،ٹی وی اینکرزبولتے بولتے تھک گئے، اپنے مطالبات کے حق میں یہاں روز مظاہرے اور احتجاج ہوتے ہیں لیکن نہایت تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ٹھیکداری نظام کے تحت قومی خزانہ لُٹنے کا جو سلسلہ جاری ہے اس پر عوام وخواص سارے ہی خاموش ہیں،’’ذمہ داران نظام‘‘ کی خاموشی کی وجہ تو سمجھ آتی ہے کہ وہ خود اپنے پاؤں کو کلہاڑی مارنے کے لیے تیار نہیں، کون چاہتاہے کہ اس کی پانچوں انگلیاں باہر ہوں، سیاسی ورکرز بھی ’’اپنوں‘‘ کا خیال رکھتے ہیں لیکن ہمارے صحافی اور قلمکار حضرات نے بھی کبھی سنجیدگی اور اہتمام سے اس نظام کے غیر معمولی نقصانات اور ضرررسانیوں پر روشنی نہیں ڈالی اور نہ اس میں اصلاحات کی طرف باربار اور مسلسل توجہ دلائی یعنی اس بات پر غم وغصے یاماتم کا اظہار نہیں کیا کہ کیوں مثلاً پانچ لاکھ روپے کے مناسب منصوبے کے لیے سرکاری خزانہ سے تقریباً پندرہ لاکھ روپے منظور کیے اور کروائے جاتے ہیں، اس کے بجائے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ جو کام جتنی رقم میں ہوسکتاہو صرف اُسی قدر رقم اس کے لیے خزانے سے نکالی جائے۔ ہوسکتاہے کچھ غیرمعمولی پراجیکٹس ایسے ہوں جن کی تکمیل کے لیے بڑی ٹھیکدار کمپنی، انجنئیرز اور دیگر افراد کار کی ضرورت ہو لیکن گلی کوچے کی پختگی، واٹر سپلائی سکیم، لنک روڈ، معلق پل، مختلف دفاتر کے لیے کمپیوٹر، فرنیچر اور دیگر اشیاء خریدنے، واٹرٹینک اور اس قسم کے بہت سارے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کے ٹینڈرنکالنے اور ان کو ٹھیکدار کے حوالے کرنے کی ضرورت آخر کیوں محسوس کی جاتی ہے، صرف ٹھیکدار کو بہت سارا نفع دینے کے بجائے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ رقم متعلقہ منصوبہ والے علاقہ کے چند دیانتدار افراد کے حوالے کرکے یہ کام ان سے کروایاجائے جہاں نہ below کٹے گا اور نہ بولیاں لگیں گی، نہ کمیشن ہوگی اور نہ آدھے سے زیادہ رقم ٹھیکدار کی جیب میں جائے گی، سرکاری رقم کے ضیاع کے لیے یہ پیمائش کا طریقہ کار کیا ختم نہیں کیاجاسکتا یا اس میں اصلاحات نہیں ہوسکتے؟ ایک ٹھیکدار کئی لاکھ روپے رِنگ کے نام سے وصول کرکے ٹھیکہ دوسرے کے حوالے کرتا ہے، آخر کوئی پوچھ سکتاہے کہ کس عوامی فائدہ کے تحت ضائع ہوگئے، کیا اس کے بعد بھی حکومت یہ بہانہ بنائے گی کہ فنڈ کی کمی کے باعث کئی منصوبے آدھے رہ گئے۔ کسی آدھے انچ پائپ والی واٹر سپلائی سکیم کے لیے اگر ایک لاکھ روپے نکل آئے تو ٹھیکداری نظام کے تحت پیمائش کی رو سے ٹھیکدار کے ذمہ صرف چودہ سو بیس فٹ پائپ بچھانا ہوتاہے، اگر یہی رقم ٹینڈر کے بغیرعلاقے کی دینانتدار کمیٹی کے ہاتھ دی جائے تو اس رقم سے دو ہزار آٹھ سو چالیس فٹ سٹیل پائپ خریدی اور بچھائی جاسکتی ہے، ہمارے یہاں تو ایسابھی ہوا کہ لوگوں نے اپنے چندوں سے تیس لاکھ کے عوض اتنی سڑک بنوائی ہے کہ اگر اس کے لیے سرکاری ٹھیکہ لیاجاتا تو کم از کم ایک کروڑ کا ہوتا، اب وہ لوگ اپنے تیس لاکھ روپے حکومت سے وصول کرنا چاہتے ہیں تو یہ اندیشہ ضرور ہے کہ ٹھیکداری نظام اور پیمائش کے طریقہ کار کے تحت سرکاری خزانے سے’’کوئی‘‘ ایک کروڑ ہڑپ نہ کرے،ہمارے اپنے گاؤں میں ایک لنک روڈ کے لیے پانچ لاکھ کی منظوری ہوئی ، بچاس ہزار بلو میں کٹ گئے، باقی میں ٹھیکدار نے تقریبا پندرہ سو فٹ تک پیمائش نکالی لیکن ہم نے منت سماجت کرکے ٹھیکدار سے رقم وصول کرنا چاہی، ٹھیکدار نے نفع کے نام سے پورے ایک لاکھ روپے اپنی جیب میں رکھ کر باقی رقم ہمارے حوالے کی(اگر مذکورہ ٹھیکدار رشتہ دار یا متعلق نہ ہوتے تو دو لاکھ سے کم پہ قطعاً راضی نہ ہوتے)، کچھ رقم حادثاتی طور ہم سے ضائع بھی ہوگئی، پھر ہم نے از خود بلڈوزر اور تیل وغیرہ کا اہتمام کیا اور باقی بچی رقم سے لگ بھگ ساڑھے چار ہزار فٹ سڑک بنوائی، اب کہاں پندرہ سو فٹ اور کہاں ساڑھے چار ہزار فٹ!!! معلوم ہوا کہ کتنی کم رقم میں کتنا زیادہ کام ہوسکتاہے لیکن یہ سب غلط ٹھیکداری نظام کی نذر ہے۔ سکولوں کے بارے میں علم ہوا کہ وہاں صرف ایک کمرہ کی تعمیر کے لیے پندرہ لاکھ تک رقم بھی جاری ہوتی ہے حالانکہ اگر سکول انچارج اور علاقائی کمیٹی کو صرف تین سے چار لاکھ روپے دیے جائیں اور ان کو کمرہ بنانے پر پابند کیاجائے تو اعلیٰ معیار کا کمرہ بن سکتاہے یہ وجہ بوجھ ہے جوسالہا سال سے صبح وشام مفت میں ہمارے خزانے پر پڑ رہا ہے اور ہمیں فکر ہی نہیں، اگرہم کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف ہیں اور سرکاری خزانے کے یوں ہی ضائع ہونا برا سمجھتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ توجہ ٹھیکداری نظام پر دینا ہوگی جو قومی دولت کی بے جا بربادی کی سب سے بڑی بنیاد ہے اور بہت سارا پیسہ عوامی ریلیف اور منصوبوں کے بجائے چند ٹھیکداروں کی جیب میں جاتاہے، ٹھیکدار حضرات تو اس ناقص قانون کے تحت کام کرتے کرواتے ہیں ان کا ہم اتنا برا نہیں منائیں گے لیکن خزانے کے برائے نام ’’مالکان‘‘ سے ضرور پوچھ سکتے ہیں جو اس نظام کی اصلاح میں غفلت سے کام لے رہے ہیں اور غریب عوام کا خزانہ ایسے ہی چند لوگوں کے ہاتھوں میں بہا رہے رہیں، اگر سرکاری خزانے سے جاری شدہ رقم کا درست استعمال ہوجائے تو ہر ایم پی اے کے حلقے میں موجودہ کے مقابلے میں یقیناًدوگنا کام ہوسکتا ہے اورکئی زیادہ ترقیاتی منصوبے مکمل ہوسکتے ہیں۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن عاقل کے لیے صرف اشارہ کافی ہوتاہے، صحافی حضرات کی خدمت میں ایک بار پھر التجا ہے کہ حکومتی توجہ کی خاطر اس مسئلے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔ میں نے کئی صحافی اورقلمکار بھائیوں سے یہ مسئلہ شیئر کیا ہے، دیکھتے ہیں وہ قومی خزانے سے کتنا تعاون کرتے ہیں!!!

Nizam Uddin
About the Author: Nizam Uddin Read More Articles by Nizam Uddin: 14 Articles with 16344 views Columnist / Reasercher / Story Writer.. View More