لائنوں میں لگی قوم اور جمہوریت

جمہوریت کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ایسی حکومت جو عوام کے ذریعے بنائی گئی ہو اور عوام کے لئے بنائی گئی ہو اور ہماری حکومت بھی اس تعریف میں کچھ زیادہ اترتی ہے کہ ایسی حکومت جو قوم کے ذریعے قوم کو لوٹنے کے لئے بنائی گئی ہو۔ہمارے حکمرانوں کے نزدیک جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ جوتے بھی عوام کے ہوں سر بھی عوام کے،ڈنڈے بھی عوام کے اور سر بھی عوام کے جس پر کسی حکمران کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی سب اپنی اپنی باری پوری کر رہے ہیں۔عوام لائینوں میں لگی رہے کسی کا کیا لینا دینا دھکے کھائے یا جوتے کھائے حکمرانوں کو فکر اور پریشانی پڑتی ہے تو شاہ عبداﷲ کی وفات کی جس پر وزیراعظم صاحب بھاگے ہوئے گئے لیکن پاکستانی قوم کے بچے دہشت گردی سے مر جائیں، خشک سالی سے مر جائیں یا بھوک و ننگ سے تو کوئی ایک ٹکے کا کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ایسی جمہوریت پر لعنت ہی بھیجنی چاہیے جس سے جمہور کو صرف جمہوریت کا لالی پاپ دے کر چُپ کرادیا جاتا ہے۔اس میں کوئی شق نہیں کہ شاہ عبداﷲ کے جنازے پر جانا یا تعزیت کرنے جانا کوئی غلط کام ہے بالکل نہیں کیونکہ شاہ عبداﷲ مسلم امہ کے ایک عظیم سربراہ تھے اور پاکستان کے بہترین ہمدرد اور خیر خواہ تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے آپ وہاں جائیں بلکہ پوری کابینہ کیا پوری پارلیمنٹ ساتھ لے جائیں لیکن جہاں پناہ کچھ اس قوم پر تو رحم کریں یہ جو دھکے کھارہی ہے جو آپ کی نا اہل کابینہ کی وجہ سے ایک دوسرے کے دست وگریباں ہے ۔آپ کے وزرا ء جو خود پر کوئی آنچ نہیں آنے دے رہے بلکہ اپنا قصور آگے کی طرف ٹرانسفر کر رہے ہیں تو اس میں عوام کا کیا قصور ہے جو اپنے پیسوں سے ان مصنوعات کو خرید کرتی ہے پھر بھی اسے دھکے ملیں اور لائنوں میں لگنا پڑے لیکن حکمرانوں کے کانوں تک مکھی رینگنا بھی درکنار۔

بدقسمتی اس قوم کی یہ ہے کہ جو قوم ووٹ دینے سے لے کر جمہوری حکومت کے خاتمے تک لائنوں میں لگتی ہے بجلی کے بل لینے اور دینے سے لے کر راشن لینے کے لئے بھی لائنوں میں لگنا پڑتا ہے اب دیکھ لیجیے کہ اس بار سمز کے لئے بائیو میٹرک سسٹم کے تحت عوام کو لائنوں میں لگا دیا گیا ہے اگر ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ان کمپنیوں کو کسی ڈھنگ سے لگام دیتی تو نہ ہی غیر قانونی سمیں بکتیں اور نہ ہیء ملک کے شریف شہریوں کو لائنوں میں دھکے کھانے پڑتے اورپھر بھی یہ قوم توقع رکھ کے انہی خاندانوں کے جانشینوں کو اپنا حاکم منتخب کردیتی ہے تو ایسی قوم کو یہ سزائیں ملنی چاہئیں۔زرداری سے لے کر ابھی تک اس قوم کا جوس اور خون نچوڑا جا رہا ہے، دہشت گرد وں کو اتنی چھوٹ مل چکی ہے کہ وہ سکولوں میں گھسنا شروع ہوچکے ہیں باقی والدین کو دھکے دھوسوں کی نظر کردیا گیا ہے اور سیاستدان سوٹڈ بوٹڈ ہو کر میڈیا پر بونگیاں مارتے رہتے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک چینل ان کا یہ ڈرامہ رات گئے تک چلاتا ہے قوم کو ہر روز نئی امید دے کر سُلا دیا جاتا ہے خیر اب تو حکومتی وزراٗ امیدیں دینا بھی چھوڑ چکے ہیں ۔پٹرول غائب ہوا تو الزامات عوام پر بھی لگائے گئے کہ عوام نے پٹرول سستا ہوتے ہی زیادہ خریدا، اب ایسے نا اہلوں کی چھترول ہونی چاہیے اور ان سے کوئی پوچھے کہ ’’بھائی پاکستانی قوم کے پاس اتنی فرصت تو نہیں کہ وہ اپنے گھر کے چولہے بھی پٹرول سے جلاتی ہوگی‘‘۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کے دعوے اپنی موت آپ مر چکے ہیں کیونکہ موسم سرما میں جو حال ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ چار مرتبہ پورے ملک میں بریک ڈاوٗن ہوا ہے ۔وزراٗ اب کہ رہے ہیں کہ فرنس آئل کا کوٹہ بھی چند دنوں کا رہ چکا ہے تو کیا یہ بھی عوام نے پُورا کرنا ہے اگر عوام سے کچھ ہو سکتا ہے تو یہ بھی بتا دیا جائے۔میرے خیال میں قوم اب گرمیوں کے لئے اچھی امید بھی رکھنا چھوڑ دے کہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

مختصر یہ کہ حکومت ،عوام کے لئے کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی بلکہ اس کے برعکس ان سب سیاستدانوں کا خاموش سمجھوتہ ہے، اگر کوئی ایک دن آواز نکالتا بھی ہے تو سورماوٗں کے ذریعے اسے چُپ کرادیا جاتا ہے۔عمران خان بھی اپنا نیا پاکستان بنا نے کا معرکہ سر انجام دے کر اپنا نیا گھر بنا چُکے ہیں اب انہیں فرصت ملی بھی تو گرمیوں میں ملے گی اور وہ اپنا فلاپ شو کرنے کے لئے فلک شگاف نعرے لگوائیں گے جس سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں نظر آرہا۔ان سب گروہوں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے جال بنائے ہوئے ہیں سب ہی ایک دوسرے کے سنبدھی بنے ہوئے ہیں ان میں سے کسی کو اپنی اولاد کے مستقبل کے علاوہ کسی کی فکر نہیں۔ کوئی دھکلائے انوزراء، مشیران یا کسی اسمبلی ممبر کے بچے کسی سرکاری سکول میں پڑھ رہے ہوں اگر ان کے بچے ان سکولوں کا حصہ ہوتے تو یقینا ان سکولوں کو دہشت گردی کا خطرہ نہیں ہوتا۔اصل میں یہ حکمران یہ اشرافیہ اپنے خاص منصوبہ جات کے تحت اس قوم کو بد سے بد تر حالت میں رکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہی نہیں کہ اس ملک کے عوام کو پُرسکون اور با عزت زندگی نصیب ہو۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.