دوسروں کے کندھوں کی ضرورت کیوں؟

ہمارے ملک میں بسنے والے لوگ عجیب روش کا شکار ہیں۔ تنقید برائے تنقید کرتے ہوئے کسی اخلاقی حد کو محلوظ نہیں رکھا جاتا۔ ہر کوئی اپنے آپ کو عقل قُل سمجھتا ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشور موقع کی مناسبت سے الفاظ کے ہیر پھیر کو اعلٰی دانش کا ممبہ سمجھتے ہیں ۔ ہر شخص کو وزیر اعظم یا وزراء کے عہدیکی خواہش ہے۔ گزشتہ دور میں موجودہ حکمران یہی دعویٰ کرتے نظر آتے تھے کہ اگر ہمیں موقع ملا ،تو ہم پاکستان کو تمام مسائل سے نکال کر دودھ کی نہریں بہا دیں گے لیکن جب موقع ملا ،تو کیا ہوا ……؟ ایسے ناقص قسم کے بحران جسے کوئی بھی باشعور انسان پہلے سے محسوس کرلیتا ہے، کیا ان لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا……؟ جو کئی دفعہ حکومت کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی۔ بہت سے ایسے ہیں جن کے آباؤاجداد نے ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھی۔ انہیں مسائل کا کیونکر اندازہ نہیں ہے ۔ اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ حال ہی میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوا۔ وزارتِ پیٹرولیم،وزارت پانی وبجلی اور وزارت خزانہ کی صف بندی ہوگئی۔ وزیر اعظم کو اپنا غیر ملکی دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ اب اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس بحران کے متعلق ان تمام عہدیداروں کو پہلے سے اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے یہ بحران آجائے گا؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ تمام لوگ نہایت تجربہ کار ہیں۔ اہلیت کی بھی کمی نہیں،مگر ان میں ذمہ داری کا فقدان ہے۔ سازشوں کا جال ختم نہیں ہوتا۔ اگر وزیر اعظم سخت رویہ اپناتے ہیں تو ٹیم کے تحفظات بڑھ جاتے ہیں اور اگر نرم گوشہ رکھتے ہیں تو غیر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ایک سسٹم رائج ہوتا ہے۔ جو سالہا سال سے چل رہا ہے۔ اس کو وقت کے ساتھ بہترکردیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی سسٹم موجود ہے۔ اس پر صرف عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بیوروکریسی نے ہمیشہ سے سیاستدانوں اور عوام کو نقصان پہنچایا ہے، ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ماضی میں تمام سیاسی حکومتوں کو کمزور کرنے میں بیوروکریسی کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ اب جب حکومت نے ان سے بازپرس کرنا چاہی، تو ان کے ہمدرد لکھنے والے حضرات نے حکمرانوں پر صرف اس لئے تنقید کرنا شروع کردی کہ انہوں نے اپنی کوتاہیوں کو بیوروکریسی کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے اپنے فرائضکو ہمیشہ پوری قابلیت اور ایمانداری سے سر انجام نہیں دیا، مگر یہ بھی درست ہے کہ 70فیصد مسائل کی وجہ یہ بیوروکریسی کی نااہلی اور کرپشن ہے۔ سیاستدانوں کی طاقت عوام ہے۔ عوام نے ہمیشہ اپنے سیاسی نمائندوں اور قائدین کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ جب بھی انہیں ضرورت پڑی عوام نے ان کی تمام زیادتیوں کو پس پشت رکھ کر اتحاد اور اتفاق کا مثالی مظاہرہ کیا ہے،

لیکن ان سیاسی نمائندوں اور قائدین نے ہمیشہ عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی ذاتی مفادات اور اقتدار کو ہمیشہ ترجیح دی۔ جس کی وجہ سے دوسرے ادارے طاقتور اور عوامی نمائندے کمزور ہوئے،اور اگر ایسا ہی رہا تو وہ دن دورنہیں جب ان کی لنکا کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔

ملک میں جنگ برپا ہے۔ ہم بیک وقت کئی محاذوں پر نبردآزما ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم سمیت تمام سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریسی،فوج اور عدالت پر خصوصی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔جتنی ذمہ داری سے کام کرنے کی اب ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔اس لئے کہ ہمیں مستقبل میں پشاور جیسے حادثہ اور پیٹرول کے بحران جیسے مسائل کا سامنا نہ ہو۔

ملک کی ترقی اور خوشحالی کا براہ راست تعلق قیام امن سے جڑا ہوا ہے۔ امن ہوگا تو سرمایہ کاری ہوگی۔ معشیت ترقی کرے گی۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ عوام معاشی طور پر مستحکم ہوں گے، تو بہت سے مسائل خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ عدل وانصاف کو ہر صورت میں یقینی بنانا ہو گا۔ ملک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ موجودہ حکومت کو ملک سنبھالے ہوئے تقریبا دوسال کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن ان کی ناقص کارکردگی نے عوام کے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

عوام کو بھی اپنے کردار پرغور کرنا ہوگاکہ ہم اخلاقی وثقافتی فرائض کو یکسر بھول چکے ہیں۔ہم کسی بھی بحران سے سیکھ کر اپنے آپ کو درست نہیں کرتے بلکہ تمام مسائل کو کسی دوسرے کے کندھے پر ڈال دیتے ہیں۔ پیٹرول کے بحران میں عوام کا کردار دیکھ سکتے ہیں کہ ایک جانب حکمرانوں اور بیوروکریسی کی غلطیوں یا سازشوں کی وجہ سے ایک مشکل بحران پیدا ہوا تو لوگوں نے اپنے تمام خاندان کو پیٹرول کی بوتلوں کے ساتھ لائینوں میں لگا دیا۔ بھکاریوں نے بھیک مانگنا چھوڑ کر پیٹرول حاصل کرکے تین سو روپے تک بیچنا شروع کردیا۔ کئی لوگ بحران کی نوعیت سے لاعلم بیان بازی کے ذریعے حکومتی ٹیم کو زیر کرنے کے در پر لگ گئے۔ حالانکہ یہ بحران وزارت پانی وبجلی کے پی ایس او کو 170ارب روپے ادا کرنے کی وجہ سے آیا۔ اوگرا کو پیٹرول کو 20 دن کا سٹوریج کرنا ضروری ہوتا ہے۔جسے غیر ذمہ داری سے سٹور نہ کیا گیا ۔پیٹرول بحران کی وجوہات جاننے کے لئے سینٹ کی تین قائمہ کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس ہوا تو عجیب منظر تھا کہ ہر کوئی دوسرے کندھے کا سہارا لے رہا تھا۔ سیاسی لوگ ایک دوسرے پر فقرے کس رہے تھے،کسی کے چہرے پر اپنی نااہلی ،غیر ذمہ داری کی کوئی شکن نہیں تھی۔ ایسے ہی ایک موقع پر سینٹرصابر بلوچ نے چیئرمین اوگرا سعیدخان کو کہا کہ اس بحران کی وجہ سے آپ کی چھٹی ہوسکتی ہے۔ تو چیئرمین اوگرا نے بڑی ڈھٹائی سے کسی شرمندگی کے بغیر کہا کہ ہاں اتوار کو تو ویسے ہی چھٹی ہوتی ہے۔

جب ایسا حال حکمرانوں،بیوروکریسی اور عوام کا ہوگا تو ملکی و عوامی مسائل تو ایسے ہی رہیں گے۔ صورتحال ایسی ہوچکی ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ اب ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانا نہیں چاہیے۔ہمارے دانشواروں کو زیب نہیں دیتا کہ ملک کے منتخب وزیراعظم اور ان کی حکومت سے اس طرح کا رویعہ رکھے۔ تنقید ضرورکریں مگر آرمی چیف کی کارکردگی سے یہ تصویر کشی نہ کی جائے کہ وزیر اعظم صفر ہیں اور آرمی چیف سو فیصد درست ہیں۔ سیاسی نمائندے انتہائی نااہل ہیں ۔ اسی وجہ سے مسائل بڑھتے ہوئے بحران کی صورت اختیار کرلیتے ہیں، لیکن اگر ہم اس وجہ سے یہ باور کروائیں کہ صرف فوج ہی ہمارے مسائل کا حل ہے تو یہ بالکل غلط ہے ۔فوج ایک منظم ادارہ ہے لیکن حکمرانی کا حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔ باقی تمام ادارے ان کے ماتحت ہیں۔جب تک اس ڈسپلن کو پوری طرح لاگو نہ کیا گیا تو عوام ایسے ہی پستی میں رہے گی۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.