حالات چاہے کیسے بھی ہوں ہم پاکستان کے ساتھ ہیں!! !

امریکہ کے صدر باراک اوباما بھارت کے تین روزہ دورے پر ہیں تا وقتیکہ یہی کہا جارہا تھا کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہیں مگر در حقیقت امریکہ کو اپنی پراڈکٹ بیچنے کے لیے ایک بڑی منڈی درکار ہے اورانڈیا خود کو عالمی منڈی میں منواناچاہتا ہے ۔جبکہ پاکستان کے موجودہ بحران اور حالات سے بیرونی دنیا خوش ہے کیونکہ حالیہ بحرانوں کی گھمبیرتا میں وہ معاون رہی ہے اور ویسے بھی اگر ہم ماضی پر ایک نگاہ دوڑائیں تو مغربی اقوام ہمیشہ سے ہندوؤں کی دوست رہیں ہیں ،با وجودیکہ پاکستان نے ہمیشہ ہر اقدام میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے چاہے اسے بھاری نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے، مگر امن کی آشا کرنے والے امن کی بھاشا سے ہمیشہ سے ناآشنا رہے ہیں ۔اور اس کی وجہ بلا شبہ’’ اسلام دشمنی‘‘ ہے اورقرین قیاس ہے کہ امریکی صدر کا دورہ بھارت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو کیونکہ امریکی صدر کی آمد سے بھارت اور امریکہ کے درمیان مختلف شعبوں ،سول معاہدوں ،تجارت میں اضافے اور دفاعی امور میں اہم پیش رفعت سامنے آئی ہے ۔امریکی صدر نے بھارت کی سلامتی کونسل میں رکنیت کی حمایت بھی کی ہے لیکن اس بارے تو کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بھارت کو یہ اعزاز حاصل ہوگا یا نہیں مگر دونوں ممالک میں ایٹمی توانائی ،دفاع ،ماحولیاتی تبدیلی اور معیشت سمیت مختلف شعبوں میں تعان بڑھانے پر اتفاق ہو چکا ہے ۔اور دونوں ممالک کے درمیان ۴ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے ۔ ایسے وقت میں جب امریکی صدر بھارت میں موجود ہیں اور پاکستان کو نظر اندازکر دیا گیا ہے،ایسے میں آرمی چیف کا چین میں موجود ہونا ،چین کی طرف سے عالمی طاقتوں کے لیے پیغام ہے کہ پاکستان خطے میں تنہا نہیں ہے اور ویسے بھی چین ہمیشہ سے پاکستان کا مضبوط اور مخلص دوست رہا ہے اورآج ان کشیدہ حالات میں چینی صدر کا یہ باور کروانا کہ’’ حالات چاہے کیسے بھی ہوں وہ پاکستان کے ساتھ ہیں‘‘ ،اور چینی جنر ل کا پاکستان اور چین کو’’ آئرن برادر ‘‘قرار دینا بھی خوش آئیند عمل ہے ۔ کچھ تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت ،معیشت اور سرمایہ کاری سے خائف ہے اورکہا جا رہا ہے کہ امریکہ بھارت تعلقات میں کچھ نہ کچھ ایسے پہلو ضرور ہونگے جن کی کڑیاں پاک چین مخالف حکمت عملیوں سے ملتی ہوں گی ۔ایسے میں جہاں کئی قسم کے سوالات اٹھتے ہیں کہ امریکہ نے بھارت کو پاکستان پر ترجیح کیوں دی ؟ کیا امریکہ ساؤتھ ایشیا میں توازن بگا ڑنا چاہتا ہے یا وہ بھارت کو اس کی مضموم عزائم میں کامیابی کے لیے مضبوط گراؤنڈ فراہم کرنا چاہتا ہے یا اس کو احساس ہو چکا ہے کہ خطے پر امن و امان کے لیے پاکستان اور بھارت کا یکجا ہونا ضروری ہے یا امریکہ خطے کی سربراہی بھارت کو سونپنا چاہتا ہے ؟؟

اگر ہم ہندوستان کی گزشتہ چند ماہ کی کارگزاریوں پر نگاہ دوڑائیں تو وہ مسلسل سرحدوں پر خوف و ہراس پھیلانے میں مشغول ہے اور ایسے میں امریکہ کا اسے دفاعی امور اور نیوکلئیر امور میں تعاون کی یقین دہانی کروانا بلا شبہ غیر ذمہ دارانہ فعل ہے جو کہ امریکہ اور انڈیا کی دو رخی پالیسی کوظاہر کرتا ہے اور یہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کے مترادف ہے ـ‘‘۔کیونکہ صدر باراک اوباما نے بھارت میں بارہا یہ کہا کہ بھارت ہمارا ’’گلوبل پاٹنر‘‘ ہے ۔المختصر یہ مفادات کی ملاقات ہے ،جس کا لب لباب ایسے دوستانہ روابط کو فروغ دینا ہے جو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوں اور عالمی منڈی میں ہی نفع بخش نہ ہو بلکہ کچھ در پردہ مفادات کی راہ بھی ہموار ہو جائے ،کیونکہ امریکہ باخبر ہے کہ بھارت اس وقت LOC پر سیز فائر کی خلاف ورزی کر کے مسلسل افواج پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں توجہ ہٹانے میں مصروف ہے اور مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھی عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے ،اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف جب امریکہ گئے تھے تو انھوں نے صدربارک اوباما کو شواہد بھی فراہم کئے تھے کہ بھارت پاکستان میں کہاں کہاں دہشت گردی کے عناصر کی پشت پناہی میں ملوث ہے، تو ایسے میں قیافے تو یہی کہتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے بھارت پر دباؤ آیا ہوگا مگر فل فور کچھ بھی کہنا ناممکن ہے کیونکہ یوں ظاہر کیا گیا ہے کہ جیسے پاکستان اس خطے پر موجود ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف بھارت اس وقت چین اور امریکہ دونوں سے بیک وقت تعلقات اور تعاون معاہدے کر رہا ہے اور یہ اس وقت دو عالمی طاقتیں ہیں ،ایسے میں یہ کہنا کہ وہ کس کے ساتھ مخلص ہے یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ اس کی ہر پالیسی کا اختتام پاکستان کو گھاؤ دینے پر ختم ہوتا ہے جیسا کہ امریکی صدر کی بھارت آمد کو یوں پیش کیا گیا جیسے یہ پاکستان کے لیے بہت تشویشناک بات ہے اور کچھ ہمارے اکثر ذرائع اطلاعات نے بھی محلہ مکینوں جیسا کردار ادا کیا ۔

ہمارے ہاں ایک عام سی روایت ہے کہ ہم دوسروں کے گھر میں آنے والوں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور آنے والے کی حثیت کا اندازہ اس کی سواری سے لگاتے ہیں ،بعد ازاں ہم اس گھر کے مکینوں کی امارت اور شہرت کے بارے رائے قائم کرتے ہیں ایسی ٹوہ محلہ مکینوں میں زیادہ ہوتی ہے بہ نسبت ڈیویلپڈ سوسائٹی کے۔ کچھ ایسا ہی حالات اورموشگافیاں اسوقت سننے میں آئیں جب امریکی صدر نے بھارت میں قدم رنجہ فرمایا ۔کسی نے ان کی کار کا تذکرہ کیا تو کسی نے ان کے ہیلی کاپٹر کی خصوصیات کوبیان کیا ، کچھ نے 2010 میں ان کی بھارت یاترا پر بھی اظہار خیال کیا کہ اس وقت ان کی ذاتی ٹیم سیکیورٹی کے انتظامات کرنے کے لیے چالیس جہازوں کے بیڑے میں دلی پہنچی تھی جس میں ائیر فورس ون بھی شامل تھی ۔الغرض ہمارے اکثر دانشوران ان سب امور پر تبادلہ خیال تک ہی محدود نہ رہے بلکہ انھیں ضبط تحریر بھی لایا گیا ۔حیرت تو اس پر تھی کہ ہمارے ملک میں مسائل کا انبارہے مگر تمام دن میڈیا ’’بیگانی شادی میں عبداﷲ دیوانہ ‘‘ کے مصداق امریکی صدر کی آمد ،بھارت کی خوشی اور تیاریوں کو یوں پیش کرتا رہا جیسے وہ بھارت نہیں پاکستان میں تشریف لائے ہیں ۔یہ بھی سننے میں آیا کہ نریندر مودی جو کہ امریکہ سے اختلافات رکھتے تھے مگر انھوں نے کمال عیاری کا مظاہرہ کیا ،پرتپاک استقبال کیا اورباراک اوباما کو باغ میں ٹہلاتے رہے ۔

امریکی صدر پاکستان کیوں نہیں آئے تو اس سے پہلے کہ ہم اسے خارجہ پالیسی یا اعلیٰ قیادت کی کوتاہی سے تعبیر کریں مجھے خیال آرہا ہے کہ اکثر کابینہ کے اراکین اور بیوروکریسی کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں ۔ان کی مرضی کے بنا پتہ بھی نہیں ہلتا ،تو اس میں بھی میاں صاحب کی تجربہ کار ٹیم نے شاید ہوم ورک مکمل نہیں کیا تھا جو امریکی صدر ہمارے پاس سے ہو کر گزر گئے ۔ا مریکی صدر کا دورہ جہاں امید کی جارہی ہے کہ امن کی راہ کو ہموار کرے گا وہاں یہ بھی پریشان کن ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی ،جس سے اس وقت تمام دنیا کو خدشات ہیں ایسے میں بھارت میں ان کی منتقلی کے پیش نظر کیا اہداف ہیں ؟کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت پاکستان کا ازلی اورگھٹیا دشمن ہے اور نریندر مودی کے ابتک کے تمام لائحہ عمل اور پالیسیوں کا جائزہ لیں تو ان کا ہر فعل پاکستان کے خلاف ہے اور صریحاً اس کا عملی نمونہ آئے دن بلا اشتعال فائرنگ کی شکل یا ان کے بیانات کی شکل میں ملتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے قائدین ایک فعال حکومت چلانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ان کی غیر موئثرسیاسی اور اقتصادی پالیسیوں نے ملک میں عدم اعتماد کا ماحول پیدا کر دیا ہے،وہ مشکل فیصلے نہیں کرتے وہ مشکل سے فیصلے کر رہے ہیں اور اس نے تمام دنیا کو یہ مجموعی تاثر دیا ہے کہ پاکستان کا شمار آج بھی دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے ۔اس لیے بھی بیرونی دنیا کی توجہ پاکستان سے ہٹ رہی ہے اور یہ ہمارے لیے قابل تشویش ہونا چاہیئے اور اس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر پالیسیوں کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت کے عالمی حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور وزارت خارجہ کسی بھی قسم کا فعال کردار ادا کرنے میں کافی حد تک ناکام ہے ۔آخر اس میں کیا مصلحت ہے کہ وزارت خارجہ مسلسل یتیمی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔اب حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے اور اس کے لیے قابل اور غیر متنازعہ وزیر خارجہ متعین کرے تاکہ پاکستان عالمی برادری میں اپنا امتیاز برقرار رکھ سکے اگر آج ہم اقوام عالم میں اٹھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا ،ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا ورنہ یہ دورے اور تعاون کے معاہدے یونہی ہمارے لیے لمحہ فکریہ بنتے رہیں گے ۔ اور اقوام عالم کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہمیں گرانا اور ہرانا ممکن نہیں اس لیے کہ ہم وہ قوم ہیں کہ جب بھی وقت پڑا ہم نے جان کی پرواہ کئے بغیراپنے لہو سے اپنی کامیابی تاریخ کے قراطیس پر رقم کی ہے ۔
Ruqqaya Ghazal
About the Author: Ruqqaya Ghazal Read More Articles by Ruqqaya Ghazal: 50 Articles with 33948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.