اسلام کا غیرسودی مالیاتی نظام اورترقی یافتہ دنیاکااعترافِ حقیقت

اسلام محنت کشوں کے حقوق کاضامن ہے۔یہ وہ واحدمذہب ہے جومحنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کاداعی ہے ۔مذہب اسلام چاہتاہے کہ نہ کسی کے ساتھ ظلم ہواورنہ کوئی کسی پرظلم کرے۔سودخواری توحرص وطمع ،بخل اورظلم کامجموعہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سودکاتذکرہ زکوۃ وخیرات کے مقابلہ میں کیاہے۔سودمیں ظلم کاعنصربھی شامل ہے کیونکہ سودخوار سوددرسودکے ذریعہ لوگوں کوان کی محنتوں سے محروم کردیتاہے اسی لئے سودکی ممانعت کے موقعہ پراللہ تعالیٰ نے خاص طورپرارشادفرمایا لاتظلمون ولاتُظلمون۔نہ تم کسی پرظلم کرواورنہ تم پرظلم کیاجائے گا۔ مطلب یہ ہواکہ تم نے جتنادیاہے اس سے زیادہ لینایہ توتمہاراظلم ہے اورجتناتم نے دیاہے اتناتم کونہ ملے۔تویہ تم پرظلم ہے۔

عرب کے سرمایہ داربنیادی طورپریہودی تھے۔ سودکی لعنت عر ب قوم کی گردن میں یہودیوں کے ذریعہ پڑی تھی ۔ اس لئے یہودیوں پرنعمتوں کے دروازے کوبندکرنے کے جواسباب بیان کئے گئے ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔واخذھم الربوٰوقدنھوعنہ واکلھم اموال الناس بالباطل مفہوم: ہم نے حرام کردیاان نعمتو ں کوجوان کے لئے حلال کی گئیں تھیں ان کے سودلینے کے سبب سے حالانکہ وہ اس سے روکے گئے تھے اورلوگوں کے مال کونارواطورپرکھانے کی وجہ سے عرب کی سرزمین پراسلام کاچراغ روشن ہواتواس نے اس لعنت پرروک لگائی۔فرمایاالذین یاکلون الربوٰ لایقومون الاکمایقوم الذی یتخبطہ الشیطٰن من المس۔ذالک بانھم قالواانماالبیع مثل الربوٰ اواحل اللہ البیع وحرم الربوٰ فمن جاء ہٗ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ماسلف وامرہٗ الی اللہ ومن عادفاولٰئک اصحٰب النارھم فیھاخٰلدون۔یمحق اللہ الربوٰویربی الصدقٰت واللہ لایحب کل کفارِِاثیم۔جوسودکھاتے ہیں وہ ایسے اٹھیں گے جیسے وہ شخص جسے شیطان نے لپٹ کرحواس کھودیئے ہوں۔یہ اس لئے کہ انہوں نے کہاکہ خریدوفروخت کامعاملہ سودہی کی طرح ہے اوراللہ نے بیع کوحلال اورسودکوحرام قراردیاہے توجس کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہونچی وہ بازرہاتواس کاہے جوپہلے دیاگیااوراس کامعاملہ خداکے سپردہے اورجوپھرایساکرے تووہ دوزخی ہے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔خداسودکومٹاتااورصدقہ وخیرات کوبڑھاتاہے اوراللہ کسی ناشکرا گنہگارکوپسندنہیں کرتا۔

آیت کریمہ میں قیامت کے دن سودخوارکابدحواس ہوکراٹھنااس کی دنیاوی بدحواسی کی تمثیل ہے۔دنیامیں سودخواروں کاجوحال ہوتاہے کہ وہ یہی ہوتاہے کہ وہ دوسروں کے مال ودولت کوچھیننے اوراپنی دولت کوناجائزطریقہ سے بڑھانے میں ایسے مشغول رہتے ہیں کہ انہیں کسی کارخیرکاخیال ہی نہیں رہتاتوقیامت کے دن بھی وہ ایسے ہی بدحواس اٹھیں گے۔ساتھ ہی قرآن مجیدنے اس نظریہ پربھی مہمیزلگائی ہے کہ سودکی بدولت دولت میں زیادتی ہوجاتی ہے۔اخیرمیں اللہ تعالیٰ نے سودخواروں کوناشکراگنہگارقراردیاہے کیونکہ خدانے جودولت ان کودی تھی اس کاتقاضہ یہ تھاکہ اس سے وہ کارخیرکرتے مگرانہوں نے اس کی بجائے غریبوں کولوٹاہے جونعمت کی ناشکری ہے اوراس کاغلط استعمال ہے۔

یہودیوں کی دیکھادیکھی عربوں میں کچھ ایسے سرمایہ دارتھے جوسودکارکاروبارکرنے لگے،حضرت عباس اوربنوعمرواوران کے مقروض وغیرہ مسلمان ہوئے تومسلمان قرض داروں نے مقروض سے جب سودکامطالبہ کیاتویہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔یاایھاالذین آمنوااتقواللہ وذروامابقی من الربوٰ ان کنتم مومنین۔فان لم تفعلوافاذنوبحرب من اللہ ورسولہ وان تبتم فلکم رؤس اموالکم لاتظلمون ولاتظلمون۔وان کان ذوعسرۃِِ فنظرۃ الیٰ مسیرۃ وان تصدقواخیرلکم ان کنتم تعلمون واتقوایوماترجعون فیہ الی اللہ ثم توفیٰ کل نفس ماکسبت وھم لایظلمون۔ ان آیتوں میں یہ بتایاگیاہے کہ ایک دن آئے گاجب سب خداکے سامنے کھڑے کئے جائیں گے ۔اورجس نے کسی کامال ناحق کھایاہوگااس کاحساب ہوگاتواگرتم نے نیکی کی ہوگی اورمقروضوں کومعاف کیاہوگاتوخداکے یہاں پوراپورامل جائے گا۔

حاضرین !عہدجاہلیت میں دوچیزیں نسلاََبعدنسل جاری رہتی تھیں۔ایک قتل کاانتقام اوردوسراسود۔عرب میں اپنے آباؤاجدادکے قتل کے انتقام کاسلسلہ کئی نسلوں تک جاری رہتا۔اسی طرح سودکی لعنت بھی کئی نسلوں تک گلے میں پڑی رہتی۔حجۃ الوداع کے موقع پرجب امت کے ایک عظیم اجتماع کوآپ ﷺنے آخری پیغام دیااوررہنمااصول بتائے ۔اس موقع پرجان کی عظمت اورسودکی مذمت کوواضح طورپربیان فرمایا۔حجۃ الوداع میں زبانِ نبوت سے آخری پیغام سنایاجارہاہے،رہنمااصول بتائے جارہے ہیں،عرب کے باطل رسوم ورواج اورنہ ختم ہونے والی لڑائیوں کاسلسلہ توڑاجارہاہے ۔تعلیم کے ساتھ ساتھ ذاتی نظیراورعملی مثال بھی ہرقدم پرپیش کی جارہی ہے۔اس وقت ارشادہوتاہے۔آج عرب کے تمام انتقامی خون باطل کئے گئے اورسب سے پہلے میں اپنے خاندان کاخون معاف کرتاہوں،ایامِ جاہلیت کے تمام سودی لین دین اورکاروبارآج ختم کئے گئے اورسب سے پہلے میں اپنے چچاعباس بن عبدالمطلب کاسودمعاف کرتاہوں۔

عہدجاہلیت میں رباکی صورت یہ تھی کہ غریب کسان اگلی پیداوارکی ادائیگی کے وعدے پرسرمایہ داروں سے قرض لیتے اورپھروعدے کے مطابق اداکرنہ پاتے تووہ سرمایہ داراپنی مدت بڑھادیتے اوران سے جنس کی مقدارمیں زیادتی کامطالبہ کرتے۔اسی طرح مقداربڑھتی جاتی یہاں تک کہ سود، اصل سے کئی گنازیادہ ہوجاتا۔فرمایایایھاالذین آمنوالاتاکلواالربوٰاضعافاََمضٰعفۃ۔واتقواللہ لعلکم تفلحون۔واتقواالنارالتی اعدت للکٰفرین۔اے ایمان والو!اصل سے دوگناچوگناسودمت کھاؤاورخداسے ڈروتاکہ تم فلاح پاؤاوراس آگ سے بچوجومنکروں کے لئے تیارکی گئی ہے۔اس آیت کریمہ میں تصریح ہے کہ سودخواری کی سزاجہنم ہے اوروہ جہنم جوکافروں کے لئے تیارکی گئی ہے۔

آ پ ﷺنے اپنے ایک خواب میں سودخواروں کوبڑی عبرت ناک اندازمیں دیکھاہے۔بخاری شریف کی روایت ہے کہ فرمایاآپﷺنے کہ میں نے دیکھاکہ خون کی ایک نہرہے اس میں ایک آدمی تیررہاہے اورایک دوسر اہاتھ میں پتھرلئے کنارہ پرکھڑاہے۔پہلاآدمی تھک کرجب کنارہ پرآناچاہتاہے تودوسراشخص اس طرح تاک کرپتھرمارتاہے کہ اس کامنہ کھل جاتاہے اوراوروہ پتھرلقمہ بن کراس کے پیٹ میں چلاجاتاہے۔وہ پتھرکھاکرپھرپیچھے لوٹ جاتاہے جبرئیل نے بتایاکہ یہ پہلاشخص سودخوارہے۔

سزاکی مماثلت ظاہرہے کہ لوگ اپناخون پسینہ ایک کرکے محنت سے جوروزی پیداکرتے ہیں،سودخوارآسانی سے اس پرقبضہ کرلیتاہے تووہ انسان کے خون میں تڑپتاہے جولقمہ بن کراس کے پیٹ میں جاتاہے وہ وہ دولت ہے جس کو سودسے جمع کرتاہے۔ابوداؤشریف کی روایت کے مطابق آپﷺنے سودکھانے والے،کھلانے والے،گواہی دینے والے اوراس کے دستاویزلکھنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سودکارجحان خودامت مسلمہ میں بڑھتاجارہاہے۔جس کے مذہب نے اتنی سخت وعیدیں سنائی ہیں۔آج اس کے ماننے والے اس سودکو الگ الگ نام دے سے اس حرام خوری میں مبتلاہیں۔اتنی سخت تنبیہ کے باوجودحلال وحرام کی تمیزختم ہورہی ہے۔ مختلف طرح کے انشورنس اورالاؤنس وبھتہ کے نام پرالگ الگ اصطلاحوں اورناموں کے ساتھ اس حرام خوری کی لت لگ رہی ہے اوربرائی کونیانام دے کراورنیاعنوان لگاکراس لعنت میں لوگ گرفتارہورہے ہیں۔اس طرح یہ حرام لقمہ ان کے پیٹ میں جاتاہے اورانہیں احساس بھی نہیں ہوتا۔

دوسری طرف قابل اطمینان پہلویہ ہے کہ ترقی یافتہ کہی جانے والی دنیابھی سودی نظام سے تنگ آکراب اسلامی تعلیم کی طرف راغب ہورہی ہے۔اقتصادی بحران کے بعدپوری دنیامیں اسلامی بینک کاری کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔اسلامی بینک کاری سے مرادایسامالیاتی نظام ہے کہ جس میں شریعت کے اصولوں کی پاسداری کی جائے۔ دوسرے الفاظ میں سودسے پاک بینک کاری کانظام ہو۔اگرچہ اسلامی حلقوں میں شرعی اصولوں کی بنیادپربینک کاری کے نظام کی ضرورت توہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے مگرگذشتہ صدی عیسوی کی چھٹی دہائی میں جب مغربی مالیاتی نظام میں خامیاں ظاہرہونی شروع ہوئیں تواس کے متباد ل نظام کی تلا ش شروع کی گئی ۔ چنانچہ اس متبادل نظام یعنی اسلامی بینک کاری کاپہلاتجربہ1966میں مصرکے ایک شہرمیں سوشل بینک کے قیام کی صورت میں ہوامگر1983کاسال بجاطورپردنیابھرمیں اسلامی بینک کاری کے وجودمیں آنے کاسال قراردیاجاسکتاہے۔امریکہ میں جہاں نائن _الیون کے بعداسلامی بینک کاری کے شعبے کوبندکردیاگیاتھامگراب وہاں کے سرمایہ داربھی اس طرف متوجہ ہورہے ہیں چنانچہ2009میں امریکہ میں پندرہ اسلامی مالیاتی ادارے قائم ہوئے تھے اوراب وہاں200سے زائداسلامی بینک کام کررہے ہیں۔خودعیسائی فرقہ کیتھولک کے سابق پوپ بینیڈکٹ کے حوالہ سے مقامی اخبارایل اوسرورومانونے لکھاہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کواسلامی بینکنگ نظام کے ذریعہ حل کیاجاسکتاہے۔ پوپ نے مغربی بینکوں کواسلامی بینکنگ نظام کے اپنانے کامشورہ ایسے وقت میں دیاہے کہ جب پوری دنیااقتصادی بحران سے دوچارہے ۔اخبارلکھتاہے کہ اسلامی بینکنگ نظام کی اساس جن اخلاقی بنیادوں پررکھی گئی ہے اس کوبااختیارکرکے ہی بینک اوراس کے صارفین کے درمیان حائل دوریاں دورکی جاسکتی ہیں نیزمالیاتی اداروں کی کارکردگی کوبھی بہتربنایاجاسکتاہے۔

چین جودنیاکی سب سے تیزی سے ترقی یافتہ معیشت ہے وہ مغربی مالیاتی نظام کے بحران کودیکھتے ہوئے اوربلاسودبینک کاری کی افادیت کومحسوس کرتے ہوئے اسلامی فائننس سسٹم میں داخل ہونے کی کوشش کررہاہے۔اس مقصدکیلئے اس نے اسلامی بینک کولائسنس جاری کئے ہیں۔دنیاکے75سے زائدممالک میں اب 1500کے قریب اسلامی بینکوں اورمالیاتی اداروں کانیٹ ورک ہے جوتین اعشاریہ ایک بلین ڈالرسے زائداثاثے رکھتے ہیں۔مغربی ممالک میں خودلندن اسلامی فائننس کاایک بڑامرکزبنتاجارہاہے۔

ہندوستان بھی بلاسودی بینک کاری کی کوششوں میں مصروف ہے۔چندسال پہلے ہی ریزروبینک آف انڈیانے اس حوالہ سے حکومت کوایک رپورٹ پیش کی تھی۔جس کی طرف اسٹیٹ بینک نے قدم اٹھایاہے ۔یہ بینک ابتدائی طورپراس اسلامک فنڈمیں ایک بلین روپئے کی سرمایہ کاری کرے گا۔ہندوستان میں مسلم آبادی کاایک بڑاحصہ موجودہ بینک کاری کے نظام سے دورہے جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اسلامی بینک کاری میں سودکی گنجائش نہیں ہے۔حکام نے بتایاہے کہ اس اسلامک فنڈمیں ایسی کمپنیوں کے حصص کے منافع نہیں ڈالے جائیں گے جوجوئے کے اڈوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں اور جن کانظام سودپرچلتاہے۔

کہتے ہیں کہ الفضل ماشھدت بہ الاعداء،حقیقی فضیلت یہی ہے کہ دشمن بھی جس کی گواہی دیں۔ یہ تفصیلات اس لئے بیان کی گئیں تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ اسلامی غیرسودی نظام کتنامفیدہے ۔یہ اسلامی تعلیمات کااعجازہی ہے کہ سودکے بڑھتے رجحان کے بعدآخردنیانے اس حقیقت کوکس طرح تسلیم کرلیاہے کہ ابدی مذہب نے جس لعنت کوچودہ سوبرس قبل ہی مستردکیاتھا،ترقی یافتہ ممالک آج اس کے اعتراف پر مجبوراوراس سودی نظام سے چھٹکاراپانے کے لئے بے تاب ہیں۔اقتصادی بحران کے بعددنیاکوعافیت اسی اسلامی تعلیم کی پناہ گاہ میں نظرآتی ہے۔اورپوری دنیااسلامی تعلیم کے سامنے سرنگوں ہے-
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 33319 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.