رنگروٹ سے آفیسر قسط - 2

عوامی میلہ یا میل
کہتے ہیں گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔نجانے اٖس وقت ہمارے ستارے گردش میں تھے یا علمِ نجوم کے مطابق زہرہ نے مریخ پر ستم ڈھایا ہوا تھا جب ہمارے سر پر پاکستان آرمی میں کمیشن لینے کا بھوت سوار ہوا پہلے تو کئی دن اس بھوت کا تنقیدانہ جائزہ لیتے رہے۔ ارسطو اور افلاطون کے تجربات اور فلسفوں کی روشنی میں اسے پرکھا ِ ارسطو اور افلاطون ہمارے دوستوں کا نام ہے جو ہم سے پہلے فوج میں جانے کی کئی کوششیں کر چکے تھے۔ لیکن ناکام ہوتے ہیں۔ اٖس کی وجہ ممتحن کا اُن کے ذوق کے مطابق نہ ہونا ہے۔ ارسطو تو آخری منزل یعنی کوہاٹ سے لوٹ کر آنے والے تھے اور افلا طون کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے سینے کی پیمائش وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے فوج کے لئے شروع ہو جاتی ہے بلا کے حاضر جواب،جس کی وجہ سے میڈیکل آفیسر بھی بوکھلا گیا ُ اٖس نے پوچھا،”سگریٹ پیتے ہو؟“ تو افلاطون فوراً بولا، ”سر دھواں نکل رہا ہے“۔ یہ اور بات کہ افلاطون کو بعد میں ائرفورس والوں نے اکاونٹ کی اعلیٰ تعلیم کے بعد اکاونٹ آفیسر منتخب کر لیا ِ اور ارسطو الیکٹریکل انجنئیر بن گیا۔

خیر تمام تر مشکلات کو دیکھنے کے باوجود ہم نے پورے غور و خوض کے ساتھ تمام دوستاں و دشمنان کے سامنے فوج میں جانے کا باضابطہ اعلان کر دیا کچھ لوگ مارے حیرت کے گنگ رہ گئے اور اُنہوں نے دانتوں تلے اپنی اگلیاں دبا لیں کچھ جو نکتہ چیں قسم کے تھے اُنہوں نے حسبِ عادت و حسبِ معمول ہماری قابلیت میں کیڑے نکالنے شروع کردئے اور ارسطو و افلاطون سے ہمارا مقابلہ کروا کر ہمیں نامنتخب اور وقت کا ضیاع کرنے والا احمق قرار دے رہے تھے۔اور بعض اس میدان عمل میں ہماری ہمت بڑھانے لگے
َبہرحال ہمارا سر عقل سے خالی نہیں ہے اِس لئے ہم نے تمام مشورہ جات و تنقیدات کو دماغ کے ایک گوشے میں ڈالا اور ایک دن علیٰ صبح گھر سے اپنے اکلوتے بہترین لباس میں والدہ کے ہاتھ کا ترتراتا پراٹھا کھا کر والدہ کی دعاؤں کے ساتھ ریکروٹنگ آفس پہنچے ،جہاں سے اخبار میں دئیے گئے اشتہار کے مطابق مبلغ پانچ روپے کے پوسٹل آرڈر کو دکھا کر فارم ملنا تھا۔ پوسٹل آرڈر ایک دن ہم نے پہلے خرید لیا تھا۔اور کیماڑی سے دس پیسے کا ٹکٹ لے کر براستہ ٹاور صدر پہنچے، ریکروٹنگ آفس میں ایک ہجوم تھا جو پھیلتا ہوا فٹ پاتھ سے آدھی سڑک سے دائیں اور بائیں طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ سب کی نظریں مین گیٹ کی طرف تھیں جہاں سے خوشی میں سرشار کوئی نہ کوئی باہر برآمد ہورہا تھا۔ یقیناً یہ سب اُن مردِ میدان کا دیدار کرنے آئے تھے جو کمیشن کا بھوت سر کرنے نکلے تھے۔

ہم دروازے کی طرف بڑھے تو کئی ہاتھوں نے ہمیں ایسے پیچھے کھینچا جیسے سینما کی ٹکٹ لینے والوں کو پیچھے گھسیٹا جاتا ہے۔
”اَبے لائن میں کھڑا ہو ،لائن میں ،ہم کیا یہاں جھک مارنے آئے ہیں"
اور ہمیں لائن کے آخری سرے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی , جبکہ ہم پیچھے جانے کو تھے کہ ایک زبردست موج نے ہمیں دھکا دیا اور ہم مین گیٹ کے چھوٹے دروازے سے لٹکے ہوئے تھے ،اُسی موج کی تموج نے ہمیں بغلی درواز ے سے اندر پھینک دیا ،ہم کپڑے جھانکتے اُٹھے تو ہمیں دو مضبوط ہاتھوں نے اندر بنی ہوئی لائن میں کھڑا کر دیا۔ مڑ کر دیکھا تو گیٹ کے بغلی دروازے کے سامنے دو چھ فٹ اونچے پاک فوج کے جوان سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے کھڑے تھے۔ لیکن یہ دیوار کبھی کبھی لڑکھڑا جاتی اور پانچ چھ مشتاقانِ کمیشن
ہماری طرح لڑکھڑاتے اندر آ گرتے۔ لائن آگے بڑھتی رہی اور ہم نے آخر وہ فارم حاصل کر لیا۔ جس کو مکمل کرنے کے بعد کمیشن آفیسر بننے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جاتا۔
گھر پہنچے تو , ہماری حالتِ زار دیکھ کر سب تقریباً دوڑتے ہوئے ہمارے ارد گرد جمع ہوئے ،
والدہ , ”ہائے اللہ! کیا ہوا میرے لعل کو“ کہتی ہوئی دوڑتی آئیں۔
”یہ کس نے حالت بنائی تیری“ کیا جھگڑا ہوا ہے؟ کس نے مارا ہے؟“
ہم نے کہا، ”ذرا سانس تو لینے دیں اور پانی پلوائیں“
اتنا کہنا تھا کہ ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے مجمع میں بھگدڑ مچ گئی، ہر کوئی پانی لینے دوڑا۔ پانی پینے کے بعد ہم ذرا تجسس بڑھانے کے لئے خاموش رہے۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی سب کے کان ہماری طرف لگے ہوئے تھے۔ والدہ صاحبہ کی آواز نے سکوت توڑا
”اے لڑکے! اب بتا آخر کیا ہوا“
ہم نے گردن گھما کر سب کی طرف دیکھا سب کا چہرہ سوالیا نشان بنا ہوا تھا۔ آخر کار ہم نے اپنی حالت پر غور کئے بغیر اپنا دائیاں ہاتھ بلند کیا جس میں وہ قیمتی فارم تھا۔ جو ہم نے اپنا کوٹ اور قمیص اُدھڑوانے کے بعد حاصل کیا تھا۔
”یہ کیا ہے؟“ سب چلائے۔
ہم نے گردن کو اکڑاتے ہوئے فاتحاہ انداز میں کہا،”کمیشن کا فارم“
یہ سننا تھا کہ سب کے چہرے خوشی سے گلنار ہوگئے، والدہ، خالہ اور دیگر خواتین ہم جیسے لائق فرزند کی بلائیں لینے لگیں۔
فارم لینے کے بعد دوسرا بڑا مرحلہ تصویر کھنچوانے کا تھا۔ بن ٹھن کر فوٹو گرافر کے پاس پہنچے، پہلے تو پوز بانے میں بڑی دقت پیش آئی، فوٹو گرافر ہمیں جس انداز یں بٹھاتا اُس کے مطابق کھنیچی ہوئی فوٹو ہم نے صرف تھانے کے بورڈ پر لگی دیکھیں تھیں لہذا ہم وہ پوز منسوخ کر دیتے۔
ہم نے پوچھا کہ”شیشہ ہے آپ کے پاس؟“۔
”ہاں ہے، وہ دیوار پر لگا ہے" اُس نے جواب دیا
”اچھا ایسا ہے کہ ہم یوں بیٹھ کر پوز بناتے ہیں۔ جب ہم کہیں تو ہمارا منہ کیمرے کی طرف کر دینا“ ہم نے اُسے ہدایت دی۔
دراصل ہمیں اِس قسم کا پوز چاہئیے تھا کہ جی ایچ کیو والے دیکھتے ہی پھڑک جائیں، کہ واہ اِس برخوردار کے چہرے سے کتنی ذھانت ٹپکتی ہے۔ ہم تیار ہوگئے تو فوٹو گرافر نے ہمیں پھرکی کی طرح گھما کر کیمرے کی آنکھ ے سامنے کیا اور فوٹو کھنچ لی،
”کل آکر لے لینا“ وہ بولا۔
ہم رسید لے کر گھر واپس آگئے۔ دوسرے دن واپس آئے تو اُس ناہنجار نے رسید لے کر فوٹو دیتے پوچھا،
”کس فلم میں بچوں کو ڈرانے کا کردار ملا ہے“
ہم نے تصویر دیکھی۔دوبارہ دیکھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ فوٹو گرافر نے اپنی مہارت و خباثت دکھائی۔ یوں ہمیں تین روپے مزید خرچ کرکے تصویر کھنچوانی پڑی اور اُسے فارم پر چسپاں کرکے، فارم کو راولپنڈی روانہ کر دیا۔
مہینے بعدہمیں لیٹر ملا کہ دوسرے مرحلے کے، تحریری امتحان کے لئے، فلاں تاریخ کو کینٹ بورڈ سکول صدر کراچی پہنچ جائیں۔مطلوبہ تاریخ کو اپنے دوست افتخار کے ساتھ سکول پہنچ گئے، وہ سکول کے پارک میں بنچ پر بیٹھ گیا اور ہم کمرہ امتحان میں داخل ہو گئے۔ شاندار طریقے سے امتحان دیا اور امتحان کے بعد افخار کے ساتھ اُس کے بڑے بھائی کے آفس پہنچے۔ انہوں نے چائے پلوائی اور ہم سے پیپر لے کر دیکھا،
”مضمون کس پر لکھا؟“ اُنہوں نے پوچھا،
”بھائی! عوامی میل پر“۔ ہم نے سموسہ کھاتے کھاتے رک کر جواب دیا۔
”عوامی میل؟“ انہوں نے استسفار کیا
”یہاں عوامی میل تو نہیں عوامی میلہ لکھا ہے!“ وہ شک آمیز لہجے میں بولے،
”نہیں بھائی عوامی میل ہے“ ہم نے وثوق سے کہا۔
انہوں نے پرچہ ہمیں دیتے ہوئے کہا،”چلو کوئی بات نہیں، اگلی دفعہ پرچہ غور سے پڑھنا“۔
ہم نے پرچہ دیکھا وہاں عوامی میل کے بجائے عوامی میلہ لکھا ہوا تھا۔
ہم نے جھینپ مٹاتے ہوئے کہا،”بھائی اگر کوئی صاحب ذوق ہوا تو ہمیں بیس نہیں تو دس نمبر ضرور دے گا۔ کیوں کہ ہم نے کینٹ ریلوے سٹیشن سے راولپنڈی تک، عوامی میل کا ایسا سفر نامہ لکھا ہے۔ کہ وہ پاکستانی انگریزی ادب کا حصہ بننے کے قابل شاہکار ہے“۔

ڈیڑھ ماہ بعد ہمیں یہ مژدہ پڑھنے کو ملا کہ۔ میڈیکل بورڈ کے سامنے سی ایم ایچ ملیر کینٹ میں پیش ہوں۔ اِس کا مطلب تھا کہ ہم تحریری امتحان میں پاس ہوگئے ہیں۔ بس کیا تھا ہم تیسرے مرحلے کے لئے تیار ہونا شروع ہوئے۔ ارسطو اور افلاطون نے ہمیں ایک کام کی بات بتائی کہ،
”کھانسنے کے بعد ڈاکٹر یک دم امیدوار کا پیٹ پکڑ کر زور سے دباتا ہے اور اُس کے بعد ٹونٹی لگا کر دل کی دھڑکنیں گنتا ہے۔ بس وہاں تیار رہنا وہ سب سے خوفناک مرحلہ ہوتا ہے“
ہم میڈیکل کے لئے پہنچے وہاں بھانت بھانت کے لوگ آئے تھے اُن میں سے ایک بالکل عجیب ہیئت نما امیدوار تھا، دبلا پتلا، بڑا سر، لمبے بال، لٹکتی ہوئی مونچھیں، سرخ رنگ کی بیل باٹم پیلے شوخ رنگوں کی بڑے پھولوں کی نیلے رنگ کی قمیض جوآفیسر بننے کا امیدوار۔ خیر اُس سمیت ہم بھی میڈیکل میں کامیاب ہوگئےاور آئی ایس ایس بی ،کے آخری مرحلے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ تیاری کیا تھی بس اپنی انگریزی کو انگلش میں تبدیل کرنا تھا۔
پھر ایک دن ہمیں لیٹر ملا اور ہم عازم کوہاٹ ہوئے۔ ریل سے راولپنڈی اور وہاں سے بس پر کوہاٹ پہنچے۔ بس اڈے سے آئی ایس ایس بی کی بس میں بیٹھ کر میس پہنچ گئے۔ جہاں ہمیں بریفنگ اور چیسٹ نمبر دئیے گئے۔ فارم بھروائے گئے اور اگلے دن ہمیں ٹیسٹوں کے رولر میں سے گذارا جانے لگا اور یوں چوتھا دن آگیا جس دن ہمیں نامہ اعمال ملنا تھا۔ہم سب ایک دوسرے سے اپنی پرفارمنس کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی پرفارمنس کے بارے میں پر امید تھا۔
سوائے ہمارے وہ یوں کہ جب ڈپٹی نے اپنے انٹرویو میں پوچھا،”اخبار پڑھتے ہو؟“
ہم نے جواب دیا،”نہیں“ ۔
”کیوں؟“ اُنہوں نے پوچھا۔
”سر میں بی اے فائینل ائر کے امتحان دے رہا ہوں، وقت نہیں ملتا“ ہم نے جواب دیا۔
”آج اینٹی روم میں اخبار تو دیکھا ہوگا؟“ سوال ہوا۔
”جی سر!“ ہم نے جواب دیا۔
”اُس میں سے کیا پڑھا؟“ انہوں نے پھر پوچھا۔
”سر جو صفحہ میرے ہاتھ آیا اُس میں سے صرف ٹارزن کی کہانی پڑی“ میں نے جواب دیا۔
”ہوں ں ں ں، کیا تھا اُس میں؟“ انہوں نے پوچھا۔
میں وہ قسط سنا دی جو اخبار میں تھی۔
”تمھیں ٹارزن کی کیا بات پسند ہے؟“ پھر سوال ہوا ۔
”سر، ٹارزن مضبوط کردار کا ایک ہمدرد انسان ہے جو مصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد کرتا ہے“۔ہم نے جواب دیا ۔
اُنہوں نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھا،”اور اُس کی بیوی جین تمھیں کیسی لگتی ہے؟“۔
”سرو ہ بھی ٹارزن کی طرح ایک بہادر اور ہمدرد عورت ہے“ ہم نے جواب دیا ۔
”اچھا اگر تم نہ سلیکٹ ہوئے تو آئیندہ کیا کروگے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”سر میں اکنامکس میں ماسٹر کرنے کے بعد ایجوکیشن کور کے لئے ایپلائی کروں گا“ میں نے جواب دیا
”گڈ ٹھیک ہے۔ ایجو کیشن آفیسر، تم جاسکتے ہو، وش یو گڈ لک“ انہوں نے مستقبل بعید کی امید دلائی ۔
میں اُن کے آفس سے کشتیاں جلا کر باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک سٹاف آیا اور بولا،
”جن صاحب کے میں نام پکاروں وہ سب پریذیٹنٹ صاحب کے انٹرویو کے لئے رک جائیں گے اور باقی تمام صاحب کھانا کھا کر اپنی کلیرینس کروا کر گھر جائیں۔ لیٹر اُن کے گھر آجائیں گے"۔
کوئی پندرہ امیدواروں کے نام پکارے گئے۔ اُن میں سے ایک ہمارا بھی تھا۔ وقار، ذوالفقار، فاروق،طغرل وغیرہ کے نام یاد ہیں ۔ کیوں کہ ہم سب ساتھ پی ایم اے گئے تھے۔ ہم سب کو سلیکشن کا مژدہ سنایا گیا اور کچھ فارم بھروائے گئے اورعصر کے بعد ہم نے آئی ایس ایس بی سے واپسی کے لئے رختِ سفر باندھا۔
 

Khalid.Naeemuddin
About the Author: Khalid.Naeemuddin Read More Articles by Khalid.Naeemuddin: 92 Articles with 113224 views My Blog:
http://ufaq-kay-par.blogspot.com/

My Face Book Link:
https://www.facebook.com/groups/tadabbar/

" أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ
.. View More