تھرپارکر:سسکتے باسی مسیحا کے منتظر....!

سانحہ پشاور میں سفاکانہ، بیہمانہ اور ظالمانہ طریقے سے دہشتگردوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس دلفگار سانحے سے پوری قوم کی آنکھیں پرنم ، دل غمگین ہے۔ پشاور میں بچوں کی شہادت سے ہر پاکستانی انتہائی اداس اور پریشان ہے۔ بچے چونکہ سب کے لیے قابل رحم ہے ہوتے ہیں، اس لیے ان پر ہونے والے ظلم سے دل بھی سب کے دکھے ہیں، کیونکہ بچے قوموں کا مستقبل ہوتے ہیں اور قوم کے مستقبل کی حفاظت پوری قوم پر لازم ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایک عرصے سے تھر میں بھی معصوم بچے حکومت سندھ کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، لیکن ان کے بچاﺅ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے۔ حکومتی نا اہلی کے باعث غذائی قلت تھر میں انسانی زندگیوں کو نگلنے میں مصروف ہے۔ بھوک سے بلکتی اور سسکتی زندگی مسلسل موت کو خراج ادا کر رہی ہے۔ تھر کے صحرا میں خشک سالی کے عفریت نے پہلے علاقہ مکینوں کی خوشیاں نگلیں اور ایک عرصے سے جینے کی امید بھی نگلتے جا رہی ہے۔ حکومت سندھ کی لاپروائی اور عدم توجہ کے باعث ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت کے شکار کمسن بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ نہ تھم سکا اور گزشتہ روز مزید کئی بچے موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ رواں ماہ کے دوران حکومتی لاپرواہی اور غذائی قلت کی وجہ سے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کرنے والوں کی تعداد 90 بچوں سمیت تقریباً 105 ہوگئی۔ جبکہ گزشتہ تین ماہ سے غذائی قلت کے باعث ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 600 سے تجاوز کرگئی ہے۔ سول ہسپتال مٹھی میں 44 ، چھاچھرو تحصیل ہسپتال میں 21 اور کینسر ہسپتال میں 12 بچے ابھی بھی زیر علاج ہیں۔ سردی شروع ہونے کے بعد سے تھر میں غذائی قلت کا شکار بچے تیزی سے نمونیا، بخار اور دیگر وبائی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، جس سے بچوں کی اموات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تھر میں قحط کی وجہ سے موت کا رقص ابھی تک جاری ہے، لیکن حکومت ٹال مٹول اور کاہلی و سستی سے کام لے رہی ہے۔ غذائی قلت کی وجہ سے مسلسل اموات کے باوجود تھر میں متاثرین تک امداد نہیں پہنچ پائی ہے اور سندھ حکومت کے جانب سے پانچویں فیز میں امدادی گندم کی تقسیم ایک ماہ کی تاخیر سے گزشتہ روز ہی شروع کی گئی ہے اور جو امداد اس سے پہلے تقسیم ہوئی بھی ہے، وہ غیر منصفانہ طریقے سے ہوئی ہے۔ پہلے تقسیم کی گئی امداد ان افراد کو تقسیم کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جو متاثرین نہیں تھے۔ غیر متعلقہ افراد( پی پی کے جیالوں) میں امداد کی تقسیم کا انکشاف تھر پارکر میں امدادی مرکز پر ریلیف انسپیکٹنگ جج کے چھاپے کے دوران ہوا۔ذرائع کے مطابق گزشتہ دنوں تھرپارکر میں حاملہ خواتین اور غذائی قلت کے شکار بچوں کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے بھیجے گئے کمبل اور کھجور کے پیکٹوں کی تقسیم انتظامیہ کی جانب سے جیالوں کے حوالے کرنے کی خبروں کا ریلیف انسپیکٹنگ جج نے نوٹس لیتے ہوئے مٹھی شہر میں قائم سینٹر کا دورہ کیا۔ ریلیف جج سینٹر پہنچے تو وہاں سرکاری افسران کی بجائے پیپلز پارٹی کے جیالے اور صرف ایک پٹواری موجود تھا، جبکہ بڑی تعداد میں ایسی خواتین اپنے ہاتھوںمیں شناختی کارڈ لیے وہاں موجود تھیں جن کے نام لسٹ میں شامل نہیں تھے، جبکہ لسٹ میں شامل خواتین کو اطلاع ہی نہیں دی گئی کہ اس سینٹر پرامداد تقسیم ہو رہی ہے۔ امدادی اشیا جیالوں کے حوالے کرنے، سرکاری افسران کی عدم موجودگی اور امدادی سامان کی تقسیم میں سست رفتاری پرسخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریلیف جج کا کہنا تھا کہ جب بھی ڈی سی تھر کو کسی وضاحت کے لیے عدالت میں طلب کیا جا تا ہے تو وہ لکھ دیتے ہیں کہ ڈی سی او اور ان کے دیگر افسران امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہونے کے باعث عدالت میں حاضر نہیں ہوسکتے، جبکہ ریلیف سینٹر پر کوئی افسر موجود ہی نہیں، جبکہ امداد بھی بہت سست رفتاری سے تقسیم کی جا رہی ہے۔ اس رفتار سے تقسیم کرتے رہے تو سردی گزر جائے گی یہ کمبل اور کھجور کے پیکٹ تقسیم نہیں ہوسکیں گے۔

واضح رہے کہ تھر ایک ریگستانی علاقہ ہے، جہاں عموماً بارشوں کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کی صورتحال رہتی ہے، لیکن رواں برس خشک سالی کے علاوہ یہاں غذائی قلت کے مسئلے نے بھی سر اٹھایا، جس کے باعث اب تک انسانی جانوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں مویشی بھی مر چکے ہیں۔ صوبائی حکام یہ کہتے آ رہے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں علاقے میں گندم سمیت دیگر اشیائے ضروری کی فراہمی بھی شامل ہے، لیکن یہاں کے لوگوں کی پریشانی فی الحال جوں کی توں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے علاقے میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم بانہہ بیلی کے ایک عہدیدار یونس بندھانی کے مطابق تھر میں صحت عامہ کی ناکافی سہولت سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں پر تقریباً 90 فیصد بچوں کی پیدائش غیر تربیت یافتہ اور ناخواندہ دائیوں کے ذریعے ہوتی ہے اور یونین کونسل میں جو بنیادی صحت کے مراکز ہیں، وہاں پرجو پیرا میڈیکل اسٹاف ہے، اس میں خواتین نہیں ہیں، قحط کی صورت حال کی وجہ سے وہاں جانوروں کے لیے چارہ نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے دودھ نہیں میسر ہوتا، جو بچوں کے لیے چاہیے ہوتا ہے اور جانوروں کی چارے کی کمی کی وجہ سے غذا میں کمی واقع ہوتی ہے۔ علاقے میں خاص طور پر پانی اور صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنا کر آنے والے برسوں میں ایسے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ خیرات نہیں، بلکہ ترقیاتی کام ہوں۔ اسی لیے لوگوں نے اپنے نمائندوں سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ عارضی حل دینے کی بجائے کوئی مستقل حل ہو، پہلی ترجیح پانی کی فراہمی ہے، اگر پانی ہو گا تو اسکول موجود رہیں گے اور اگر پانی نہیں ہو گا تو لوگ دوسری جگہوں پر منتقل ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اسکول کی عمارتیں خالی ہو جاتی ہیں اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کا حال بھی یہی ہے۔ جبکہ اسی غیر سرکاری تنظیم بانہہ بیلی کے روح رواں اور سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کے مطابق اموات خشک سالی کی وجہ سے نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے بقول یہاں غذائی کمی خصوصاً حاملہ خواتین اور پھر ان سے پیدا ہونے والے بچوں کو جب سہی وقت پر سہی امداد نہیں ملتی تو یہ ہلاکتوں کا باعث بنتا ہے۔ تھر کی ابتر صورتحال کی ایک وجہ یہاں مقامی حکومت کا نہ ہونا بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بحران کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ انتظامی اعتبار سے ایک بہت بڑا خلا اور غیر موجودگی ہے۔ مقامی سطح پر حکومتوں کی منتخب حکومتیں جن کو ہم لوکل گورنمنٹ کہتے ہیں، اگر یہ لوکل گورنمنٹ سسٹم موجود ہوتا تو یہاں ایسا نہ ہوتا۔

تھر میں حکومتی کاہلی کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، لیکن حکومت سندھ ابھی تک تھر میں مکمل طبی و غذائی امداد فراہم کر کے ان اموات کی روک تھام کا کوئی انتظام نہیں کر سکی ہے۔ ہر روز تھر کے مختلف علاقوں میں کئی بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں، میڈیا میں اس کی پوری تفصیل بھی پیش کی جاتی ہے۔ ساری صورتحال میڈیا پر آنے کے باوجود بھی تھر کی المناک اموات کے حوالے سے حکومت سندھ انتہائی غیر ذمے داری کا ثبوت دے رہی ہے۔ حکومت قحط کی تحقیقات کے لیے پانچویں کمیٹی تشکیل دے چکی ہے۔ اس سے پہلے حکومت پولیس افسران، سرکاری افسران اور غیر سرکاری نمائندگان، ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیٹیاں بنا چکی ہے۔ ان تمام کمیٹیوں نے تھر میں قحط کی صورتحال کو شدید قرار دیا اور حکومتی اقدامات کو ناکافی اور انتظامیہ کی نااہلی کو ذمہ دار قرار دیا۔ ایک کمیٹی صوبائی وزیر منظور وسان کی سربراہی میں بھی بنائی گئی تھی، لیکن حکومت نے اس کمیٹی کی رپورٹ بھی تسلیم نہیں کی۔ حکومت اپنی مرضی کی رپورٹ چاہتی ہے جو کہ زمینی حقائق کو دیکھ کر کوئی بھی کمیٹی نہیں دے پائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں پانچ بار پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور 2008 سے اب تک پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے ، اس عرصے میں حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔اگرچہ حکومت سندھ آئے روز تھر میں امدادی کاموں کے حوالے سے بلندوبانگ دعوے کرتی رہتی ہے، لیکن ان دعوﺅں کی حقیقت تھر میں روز ہونے والی اموات سے واضح ہوجاتی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.