زندہ دلان کا فیصلہ

اہلیان لاہور نے عمران خان کی ہڑتال کو مسترد کیا یا نہیں اس پر بہت بحث ہو رہی ہے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ 95 فیصد تاجران نے مارکیٹیں کھولنا چاہتے تھے متعدد مارکیٹیں کھولیں بھی مگر لاہور کی ایک حکومتی یا سرکاری شخصیت نے چونگی امرسدھو کے واقعہ کے بعد دوکانیں بند کروانے میں کردار داداکیا تاکہ کہیں تاجروں کا نقصان نہ ہو،فیصل آباد میں جلاؤ گھیراؤ کے باعث بھی کاروباری لوگوں نے لاہور میں اپنی دوکانیں بند رکھنے میں اپنی اور اپنے کاروبار کی خیریت،آفیت سمجھی ،لاہور بندکرانے کا دعویٰ کہاں تک سچ ہے؟سوچنے کی بات ہے کہ اگر زندہ دلان لاہور واقعی تحریک انصاف کے حامی ہوتے تو دوکانیں نہ کھولتے لاہور میں جہاں کچھ مارکیٹیں بند تھیں وہیں چند کھولی بھی تھیں اس پر فتن ماحول میں مارکیٹیں کھلنا عمران خان کو واضح پیغام ہے کہ ہمارا معاشی قتل نہ کیا جائے میں حیران ہوں کہ اتنے سنگین حالات کے باوجود بھی مارکیٹیں کھلی تھیں جو پی ٹی آئی کے دعوے کی نفی کر رہی تھیں اگر پی ٹی آئی دہشت نہ پھیلاتی تو سارا لاہور کھلا رہتا دوسری طرف تمام پرائیویٹ سکولز،کالجز،یونیورسٹیز معمول کے مطابق کھلی رہیں،پرائیویٹ اداروں کا کھلا رہنا اس بات کی ثبوت ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ہیں سڑکوں پر اپنے حمایتیوں کے دھرنے کرواکر ٹریفک بلاک کردینا ،ایمبولینسز کو راستہ نہ دینا ،پانچ انسانی جانوں کی موت کامیابی کے لئے کافی نہیں ہیں بالفاظ دیگر اگر کہا جائے کہ زندہ دلان لاہور نے تحریک انصاف کے ملک دشمن ایجنڈے کو ناکام بنا دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ لوگ کسی اور کے ساتھ ہیں اس بحث میں جائے بغیرعرض ہے کہ لوگ پرسکون ،پرامن زندگی چاہتے ہیں طاقت کے بل بوتے پر مارکیٹیں بند کرواناسراسر ظلم ہے دوکانیں کھولنے والے تاجروں پر تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے حملے ،پٹائی فسطائیت نہیں تو اور کیاہے؟۔پہلے ہی لوگ مہنگائی بد امنی کے باعث روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں دوسری طرف ہڑتالوں نے ملکی معیشت کا خانہ خراب کردیا ہے دراصل عمران خان اسی ظالمانہ نظام کو قائم رکھنے کی باتیں کر رہے ہیں جس سے نظام نہیں صرف چہرے بدلیں گے جس نے عوام کے منہ سے لقمہ تک چھین لیا ہے اقتدار میں آنے کی ہوس نے عمران خان کو اندھا کردیا بے پردہ،نیم برہنہ لڑکیوں کو سڑکوں پر لاکر بے حیائی بے غیرتی پھیلانے سے انقلاب نہیں آتے بلکہ بے حیائی،بے غیرتی کو فروغ ملتا ہے اس احتجاج میں کس قدر بے غیرتی بے حیائی کا عنصر تھاآئیے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ایک روپرٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے کے جلسوں کی جان متوالیاں ایک بار پھر منچلوں اور بدتہذیب افراد کا شکار بن گئیں نامعلوم لڑکوں کے ٹولے کی جانب سے خواتین کو انتہا سے زیادہ حراساں کیا گیا نامعلام افراد کی جانب سے خواتین کو دھکے دئیے گئے اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔چیئرنگ کراس پر اس وقت خواتین سے انتہائی گھٹیا انداز سے بدتمیزی کی گئی بد نظمی کا مظاہرہ کرنے پر کارکن گتھم گتھا ہوگئے ،چیئرنگ کراس پر جمع خواتین کو دیکھ کر مجمع بے قابو ہوگیا صور ت حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے اسپیکر سے باقاعدہ اعلانات کئے گئے کہ خواتین کا احترام کریں مگر اس پر بھی بس نہ ہوا اور نامعلوم افراد کا ٹولہ خواتین سے بدتمیزی کرنے میں لگا رہا۔متاثرہ خواتین کا کہنا تھا کہ لڑکوں کے ایک ٹولے نے سیکیورٹی حصار توڑا۔ایسے بے ہودہ پرگراموں میں شامل ہونے والی خواتین سے ہماری درد مندانہ درخواست ہے کہ اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے گھروں میں رہیں یا صرف خواتین کے اجتماعات میں اپنا سیاسی کردار ادا کریں تویہ ان کے لئے بہت بہتر ہے جب سے ہماری خواتین نے اسلام کے اصول مردوزن سے الگ الگ باپردہ رہنے سے منہ موڑا تو آپ کی قدر کم ہوتی گئی خواتین کے ساتھ عمران خان سے التماس ہے کہ خواتین کا مردوں کے ساتھ مخلوط پروگرام کرکے اسلامی غیرت وحمیت کا جنازہ نہ نکالا جائے یہ خواتین مسلمانوں کی عزتیں ہیں مگر آج عزتیں اپنوں ہی کے ہاتھوں سے پامال ہو رہی ہیں وجہ اسلامی اصولوں سے راہ فرار ہے عمران خان صاحب ! خدا کے لئے کچھ تو خیال کریں پاکستانی خواتین کی عزتوں کا۔۔۔۔۔آخر کب تک اقتدار کی ہوس کے باعث ہم مسلمان خواتین کو اس طرح ذلیل کرواتے ہیں گے ؟خان تو بہت غیرت مند ہوتے ہیں عمران خان صاحب عورتوں کے معاملے میں آپ کی غیرت کہا ں چلی گئی ؟کیا آپ عورتوں کے اجتماعات لگ سے نہیں کرسکتے؟آخر کیوں ؟اس میں حرج بھی کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں آپ اور آپ کی جماعت عورتوں کو جلسوں میں منچلوں کی تعداد بڑھانے کے لئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر رہے ہوں؟کروڑوں لوگ آپ سے صرف اس لئے نالاں ہیں کہ آپ کے جلسوں میں خواتین کے ساتھ انتہائی گھٹیا قسم کی حرکتیں ہوتی ہیں ، جس سے پاکستان کا اسلامی تشخص مجروح ہو رہا ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کیسا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں ؟بے غیرتی،بے حیائی،عریانی،فحاشی،مردوزن کے اختلاط پر مبنی نیا پاکستان قوم کو ہرگز ہر گز ہرگزنہیں چاہیے۔لاہور میں میڈیا کے رپوٹرز اور ایک قومی ٹی وی کی نمائندہ خاتون کے ساتھ جلسے میں تشدداور ناروا سلوک کیا گیاجس پر ایک عالمی شہرت یافتہ پاکستانی صحافی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ حضرت علی ؓکا فرمان ہے کہ جس کے ساتھ نیکی کرو اس کے شر سے بھی ڈرو ،میڈیا نے عمران خان کے پروگرامز کو حد سے زیادہ لائیو کوریج دی جس کا شر اب صحافیوں پر تشدد اور توہین کی صورت میں برآمد ہورہا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد میڈیا کو اب تو شرم کر لینی چاہیے کہ عمران خان کے حیاء سے عاری پروگراموں کو پریس کوریج نہ دیں، ساری غیرت مند باحیاء قوم کے ساتھ اہلیان لاہور نے بھی تبدیلی اور سونامی کے نام پر نئے کے سیکولر ایجنڈے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے پاکستان میں اسلامی ازم کے علاوہ کسی دوسرے ازم کی ضرورت نہیں نوجوان کسی غیراسلامی ،غیراخلاقی تحریک کا حصہ نہ بنیں،ہرمسلمان اور نوجوانوں کی منزل درحقیقت ملک میں اسلامی نظام خلافت کا احیاء ہے ، ملک میں سیکولر نظریات پھیلانے والوں کا محاسبہ حکومتی سطح پر نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے ایسے نظریات کا فروغ نظریہ پاکستان کا قتل ہے حکومت کی مجرمانہ خاموشی اب ختم ہوجانی چاہیے،حکومت نے فیصل آباد کے واقعہ سے سبق سیکھ کر تحریک انصاف کو فری ہینڈ دیا اگر حکومت فیصل آباد میں بھی ایسے ہی کرتی تو تحریک انصاف فیصل آباد میں بھی ناکام ہوجاتی۔پندرہ دسمبر کے روز حکومتی نمائندوں کی طرف سے تحریک انصاف کو دہشت گرد جماعت اورعمران خان کے کارکنوں کو غلط حرکات اور انسانوں کی جانیں ضائع ہو جانے کے باعث بھیڑ ئیے کہا گیا اگرتحریک انصاف دہشت گرد ہے اور عمران خان کے کارکن بھیڑئیے ہیں تواس پر پابندی اور ان کو لگام ڈالنا حکومت کا کام ہے حکومت کیا کر رہی ہے ؟اس پر پابندی کیوں نہیں لگاتی؟

قارئین کرام! زندہ دلان لاہور نے تو اپنا فیصلہ دے دیا کہ تشدد،بربریت،جلاؤ،گھیراؤ،مارو،ماردو کی سیاست ہمیں قبول نہیں ،لیکن اس کے ساتھ حکومت پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ اس شدت کو کم کرنے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنا دے اور اپنے بیانات پر بھی نظر ثانی کریں تحریک انصاف کے غلط کاموں کی نشاندہی اصلاح کی غرض سے کرنے کی اشد ضرورت ہے تنقید برائے تنقید سے حالات مزید خراب ہوں گے جس کا نقصان ملک وملت کو پہنچ سکتا ہے اگر میاں نواز شریف کو چندوزراء کی قربانی امن قائم کرنے کے لئے دینی پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے اور پولیٹیکل سسٹم کو اسلامی بنیادوں پر تشکیل دینے کی ضرورت ہے آج اسلامی بنیادوں پر سسٹم موجود نہیں تو ہر سیاستدان کے مفادات ذاتی ہیں خود غرضی نے ہمارے سیاست دانوں کو مکمل طور پر اندھا کردیا ہے اس غیر ا خلاقی ،غیر اسلامی رویے کے خاتمہ کب ہوگا ؟اگر یہی سلسلہ رہا تو قوم اجتماعی خود کشی کا شکار ہوجائے گی کیونکہ اب سرعام ایسی حرکتیں قومی قائدین کی قیادت میں ہورہی ہیں جس کا پیغام اسلام دشمنوں کو بھی مل رہا ہے کہ پاکستان کے مسلمان اس قدر اخلاقی ،معاشرتی طور پر گر گئے ہیں کہ بے حیائی،بے غیرتی،فحاشی عریانی،ہر غیر اخلاقی حرکت میں یورپ ومغرب کومات دینا چاہتے ہیں یہی کچھ پاکستان کے دشمن چاہتے تھے قومی قیادت کیوں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے؟
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245001 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.