طالبان کے ہاتھوں بچوں کا قتل عام

آج صبح پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے میں کم از کم 123بچوں سمیت 135 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ واقعہ منگل کی صبح ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول میں پیش آیا جب ایف سی کی وردی میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح دہشت گردوں نے سکول کی عمارت میں داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ پاکستان کی تاریخ حادثات اور سانحات سے بھری پڑی ہے مگر اس قوم کے اعصاب شل ہونے کا نام نہیں لیتے - کاش ہم مضبوط اعصاب کے ساتھ ساتھ مضبوط حافظہ بھی رکھتے ۔ جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں اور نئے حادثے کا انتظار کرتے ہیں ۔ لیڈر صرف لفظوں کی جگالی کرکے مذمتی بیان دے کر بڑا احسان عظیم کرتے ہیں - سب سے بڑا تیر جو انکی ترکش میں ہوتا ہے اسے آل پارٹی کانفرنس کہتے ہیں ۔ سارے نااہل سیاستدان مل بیٹھتے ہیں چائے اور بسکٹ اڑا کر پیٹ پر ہاتھ باندھ کر کہتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف ہم سب ایک پیج پر ہیں - مدت ہوئی مجھے کتابوں کی ورق گردانی کرتے آجتک وہ کتاب نہیں مل رہی جسکے پیج پر سب مداری اکٹھے ہیں ۔ پاکستان میں بہت سے الفاظ اپنے کثرت استمعال کیوجہ سے اپنا اثر کھو چکے ہیں انھی میں سے ایک اے پی سی ہے - اے پی سی کی بہت لمبی تاریخ ہے مگر آجتک کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔ ہم اتفاق رآئے اور کنسینسس کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں حالانکہ لیڈر انکا محتاج نہیں ہوتا - لیڈر مشکل فیصلے کرتے ہیں اتفاق رآئے کے پیچھے نہیں چھپتے - دنیا میں کسی بھی مسئلے پر اتفاق رآئے کا ہونا نہ ضروری ہے اور نہ ہی ہوتا ہے اسکے باوجود لیڈر بڑے اور مشکل فیصلے کرتے ہیں - ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جنھیں بہت چھوٹے بونے لیڈر ملے ہیں - اقوام عالم ہم سے بہت بڑے کرائسز اور سانحات سے گذر چکی ہیں مگر دیگر قوموں کے پاس اعلی دماغ لیڈر تھے جنھوں نے اپنی اقوام کو کرائسز سے نکال دیا ۔ ہمارے کوڑھ مغز اتفاق رآئے کے پیچھے خجل خوار خود بھی ہوتے ہیں اور قوم کو بھی کررہے ہیں - ہماری کوئی ایک بدقسمتی ہو تو پھر بھی گذارا ہوجاتا ہمیں تو چہار سمت سے بدقسمتی کی گدھوں نے گھیر رکھا ہے لیڈر ہیں تو وہ کرپٹ دانشور پلے پڑے تو ذہنی بنجر اور ذہنی کرپٹ ۔ دانشور آجتک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ طالبان دہشتگرد ہیں یا نہیں ۔ ؟ طالبان کے نظریات سے اتفاق کرنے والے اور انکی حمایت میں کالموں کے صفحے کالے کرنے والے نام نہاد دانشور اور بعض صحافی ہم میں موجود ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ملاں عبدالعزیز کا انٹرویو ایک معروف اینکر نے کیا اور لال مسجد والے ملاں عبدالعزیز وہ ہیں جو کھلم کھلا طالبان اور داعش کی حمایت کرتے ہیں اور پاکستان کے آئین کی دھجیاں سرعام بکھیرتے ہیں مگر افسوس ریاست پاکستان کے کسی ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ سابق صدر پاکستان مشرف آجتک عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے مگر ملاں عبدالعزیز کو پاکستان کی ساری عدالتیں باعزت بری کردیتی ہیں ۔ کوئی دہشتگرد پکڑا نہیں جاتا اگر پکڑا جائے تو عدالتیں سزا نہیں دے پاتیں جج صاحبان ڈرتے ہیں دہشتگردوں کو سزائیں سناتے - اور میرے ملک کا وزیرآعظم فرماتا ہے جج صاحبان ماسک پہن کر دہشتگردوں کو سزائیں سنائیں - ذہنی بلوغت ملاحظہ فرمائیں اپنے وزیرآعظم صاحب کی - ججوں کو تحفظ فراہم نہیں کرنا جگت اور حجت و ٹچکر کرنی ہے ۔ جناب اگر تحفظ فراہم نہیں کرسکتے جاؤ اپنا کاروبار کرو جاکر اس قوم کی جان چھوڑو کسی اور کو موقع دو - ایک اور بدقسمتی آڑے آجاتی ہے ہمارے ہاں استعفی دینے کا نہ رواج ہے نہ ریت ۔ جو آتا ہے یا مر کر جان چھوڑتا ہے یا دھکے مار کر نکالنا پڑتا ہے ۔ پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جہاں علماء کا ایک خاص طبقہ کھلے عام طالبان کی حمایت بھی کرتا ہے اور وزارتیں بھی انجوائے کرتا ہے یہ وہ کمینے ہیں جو کھاتے پاکستان کا ہیں اور دعا افغانستان کو دیتے ہیں ۔ انھی کے مدارس طالبان کو مالی اور افرادی قوت فراہم کرتے ہیں - فساد فی الارض کو جہاد کا نام دیکر دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں - چھوٹے بچوں کے ناپختہ ذہنوں کو واش کرکے حور و جنت کا لالچ دیکر یہ ملاں انھیں خودکش بمبار بنا رہے ہیں جو کہ دنیا کے امن کے لئیے خطرہ ہیں ۔ حکومت پاکستان کو چاہئیے ان مدارس کے چلانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائے جو بھی دہشتگردوں کی حمایت کرے اس جانور کو زنجیر ڈالی جائے اور عبرت کا نشان بنایا جائے خواہ وہ ملاں ہو یا نیم دانشور یا سیاستدان ۔ جب تک طالبان کی نظریاتی حمایت موجود ہے طالبان پیدا ہوتے رہیں گئے اب مشکل فیصلے کرنا ہوں گئے ورنہ اگلے سو سال بھی ہماری آنے والی نسلیں خوف کے سائے میں پروان چڑیں گی ۔ باہمت اقوام آنے والی نسل کو مسائل ورثے میں نہیں دیتی ۔ آج طالبان نے پاکستانی قوم کو بہت گہرا صدمہ دیا ہے کراچی سے خیبر تک ہر آنکھ نم ہے - الله کرے یہ حادثہ میری بکھری ہوئی قوم کو وحدت کی لڑی میں پرو دے تو پھر سمجھوں گا کہ بچوں کا خون رآئگاں نہیں گیا ۔ اگر ہمارے لچھن وہی رہے تو پھر الله ہی حافظ تمھارا اے بے حس ہجوم ۔ پھر تمھیں قوم کہنا قوم کی توہین ہے ۔
خون جگر سے جو سینچا تھا ہم نے چمن
مسل دیں کلیاں اسکی آج تم نے طالبان

آج قوم مرنے والوں کا سوگ منا رہی ہے۔ کل وہ اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھے گی کہ اب کیا کرنا ہے۔ یہ پاکستانی قیادت کا واضع ردِ عمل ہی ہو گا جو قوم کو اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد بھی زندہ رکھ سکے گا۔
ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئیے ایک لیڈر کی ضرورت ہے جسکی کھوپڑی میں مغز اور سینے میں پر سوز دل ہو ملک و قوم مہینوں میں کھڑی ہوجائے گی مگر معذرت کے ساتھ موجودہ سیاستدانوں کی بھیڑ میں ایک بھی لیڈر جو قد آور ہو مجھے دکھائی نہیں دیتا ۔۔۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 171739 views System analyst, writer. .. View More