خطے میں بھارتی بالادستی اور سارک تنظیم

چند روز قبل کھٹمنڈو میں منعقد ہونے والی سارک ملکوں کی اٹھارویں سربراہ کانفرنس کسی قابل ذکر کامیابی کے بغیر اختتام پزیر ہوئی ۔ جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم (South Asian Association For Regional Cooperation) سارک کا پہلا سربراہ اجلاس دسمبر 1985 میں ڈھاکہ میں منعقد ہوا تھا جبکہ کھٹمنڈو میں ہونے والی اٹھارویں سربراہ کانفرنس کے بعد بھی بظاہر صورتحال جوں کی توں ہی نظر آتی ہے ۔ ڈھاکہ سربراہ اجلاس سے قبل فروری 1984 میں سارک سربراہ کانفرنس بلانے کیلئے قائم کی گئی اسٹینڈینگ کمیٹی کا ایک اہم اجلاس نئی دہلی میں ہوا تھا جس میں بھارت ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، نیپال ، بھوٹان اور مالدیپ کے خارجہ امور کے سیکریٹری شریک ہوئے تھے لیکن بھارت میں سکھ خالصہ تحریک کے زور پکڑ جانے کے سبب سربراہی اجلاس کا انعقاد دسمبر 1985 سے قبل نہیں ہو سکا تھا ۔ یہ اَمر بہرحال خوش آئند تھا کہ نئی دہلی میں خالصہ تحریک کے حوالے سے احتجاجی تحریکوں اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے باوجود سارک ڈھاکہ کانفرنس کے امور طے کرنے کیلئے جنوبی ایشیائی ملکوں کے خارجہ امور کے سیکریٹری بشمول پاکستان اِسٹینڈینگ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے جہاں ڈھاکہ میں سارک اجلاس کے انعقاد اور سارک کو باقاعدہ طور پر علاقائی تعاون کی تنظیم کے طور پرایک متحرک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ویسے تو سارک کے تمام ممالک ہی خطے کی سیکیورٹی کے حوالے سے اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن یورپی یونین کے دو ممالک فرانس اور برطانیہ کی طرح سارک کانفرنس کے دو ممالک پاکستان اور بھارت بھی ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ممالک ہیں ۔ بھارت امریکہ کیساتھ دفاعی اتحاد میں شامل ہے جبکہ افغانستان کی موجودہ سیاسی پیچیدگیوں کے باعث پاکستان کو بھی خطے میں امریکی دفاعی حوالے سے اہمیت حاصل ہے ۔ البتہ کھٹمنڈو میں اٹھارویں سربراہ کانفرنس بھی پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ سیاسی ماحول میں منعقد ہوئی ۔ ایک طرف تو بھارت علاقائی ممالک کی تنظیم کو متحرک کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور اِسی حوالے سے بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی جنہیں گجرات احمد آباد کے مسلم کش فسادات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے نے حلف برداری کی تقریب میں خصوصی طور پر سارک ممالک کے سربراہان بشمول وزیراعظم پاکستان کو شرکت کی دعوت دی جس میں میاں نواز شریف نے تحفظات کے باجود شرکت کی چنانچہ نئی بھارتی حکومت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کیلئے خارجہ سیکریٹری لیول پر مذاکرات کیلئے آمادگی بھی ظاہر کی البتہ نریندر مودی سرکار نے خارجہ سیکریٹری لیول مذاکرات شروع ہونے سے چند روز قبل یہ کہتے ہوئے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جسے متنازعہ مسئلہ قرار دینے اور پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیری لیڈروں سے ملاقات کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے بھارت نے دونوں ممالک کے درمیان سیکریٹری لیول مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا جس کا اثر کھٹمنڈو کانفرنس میں بھی محسوس کیا گیا اور اختتامی اجلاس کے بعد جب پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم نے آپس میں مصافہ کیا تو سارک ملکوں کے تمام سربراہوں نے مسرت کا اظہار کیا ۔

درج بالا تناظر میں مودی سرکار کا نیا موقف کہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ کہنا بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے حیران کن ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق ایک متنازع مسئلہ ہے جس کا فیصلہ کشمیریوں کے حقِ خودارادی کیمطابق رائے شماری سے حل ہونا ہے جبکہ دوطرفہ طور پر دونوں ممالک شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کے تحت مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے پابند ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس حکومت کے دور میں بھارت نے بین الاقوامی دباؤ پر کشمیر میں سرحدوں کو نرم کرنے کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے کنٹرول لائین کے دونوں اطراف کشمیری خاندانوں کو ملنے اور محدود تجارتی سہولتیں مہیا کرنے کی پالیسی اپنائی تھی لیکن نریندر مودی سرکار کے آنے کے بعد بھارت نے ایک طرف تو مقبوضہ کشمیر میں فلسطین میں اسرائیلی بستیاں قائم کرنے کی پالیسی کی طرز پر کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کیساتھ RSS کے مسلح رضاکاروں کو بسانے کی غرض سے وادیٔ میں بھاری قیمتوں پر زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ وادی میں نئے سرے سے ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کرنی شروع کی جس پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی توجہ ہٹانے کیلئے بھارت نے کشمیر کنٹرول لائین اور ورکنگ بانڈری کو ایک مرتبہ پھر بلاجواز فائرنگ اور گولہ باری سے گرما دیا ہے۔ بھارتی منافقانہ حکمت عملی اِس اَمر سے ہی ظاہر ہوجاتی ہے کہ بھارت کشمیر کے دریاؤں پر بنائے ہوئے ڈیموں سے حاصل ہونے والی بجلی کو سارک ممالک کے مجوزہ مشترکہ گرڈ سے منسلک کرکے خطے میں مخصوص مفادات کو آگے بڑھانے اور کنڑول لائین پر خو ف و ہراس کی فضا قائم کرکے آزاد کشمیر میں خلفشار پیدا کرنے کی پالیسی پر گامزن نظر آتا ہے ۔

درحقیقت دنیا بھر میں علاقائی ملکوں کی تعاون کی تنظیموں نے جن میں یورپی یونین ، شنگھائی تعاون تنظیم ، افریقی یونین ، ایشیا پیسیفک اقتصادی تعاون وغیرہ نے جس سرعت سے برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے سے اقتصادی روبط کو فروغ دیکر ترقی کی ہے اُس کے مقابلے میں علاقائی تعاون کی تنظیم سارک جس میں اب افغانستان بھی شامل ہے گذشتہ 31 برس میں بات رسمی گفت و شنید سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔دراصل بھارتی رہنما جنوبی ایشیا کو امن کا خطہ بنانے کے بجائے ابھی تک اکھنڈ بھارت کے خواب سے باہر نہیں نکل سکے ہیں اور سارک کی تنظیم کو بھی خطے میں بھارتی بالادستی کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ بھارت ایک جانب تو کشمیر میں سندھ طاس معاہدے کی غلط تشریح کرتے ہوئے کشمیر کے پانیوں پر یکطرفہ طور پر بنائے گئے ڈیموں سے بجلی تیار کر رہا ہے لیکن خطے کے دیرینہ مسائل بل خصوص مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے گریزاں ہے ۔ چنانچہ اِسی منافقانہ پالیسی کے تحت بھارتی بجلی کی کھپت کو سارک ممالک میں ممکن بنانے کیلئے بظاہر بھارتی تجویز پر ہی کھٹمنڈو میں سارک ممالک نے بجلی کے مشترکہ گرڈ میں شراکت کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ دنیا بھر کے سیاسی دانشور کھٹمنڈو سارک سربراہ کانفرنس کے نتائج سے مطمئن نظر نہیں آتے ہیں اور اِسے ایک اور ناکام کانفرنس کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ معروف بھارتی دانشور اور نئی دہلی میں بھارتی سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے صدر پرتاب مہتا جو انڈین ایکپریس کے معاون ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں نے اپنی تازہ ترین تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کھٹمنڈو کانفرنس نتائج کے لحاظ سے قابل ستائش نظر آنے کے بجائے فی الوقت زیرو پائنٹ کے نزدیک کھڑی نظر آتی ہے ۔ مشترکہ انرجی پالیسی نہ صرف جنوبی ایشیاء کے ملکوں کیلئے ترقی کے دروازے کھول سکتی ہے بلکہ خطے میں سیکولرخیالات کے فروغ کا باعث بھی بن سکتی ہے ۔ نریندر مودی کیلئے یہ ایک موقع ہے کہ وہ علاقائی تعاون کو موثر بنانے کیلئے ماضی کے خوف اور بوسیدہ انتظامی حکمت عملی کو خیر باد کہتے ہوئے افہام و تفہیم سے خطے کی معاشی ترقی اور استحکام کیلئے کام کریں ۔

گو کہ سارک کے منشور میں خطے کی معاشی ، سماجی ، ثقافتی، فنی اورسائنسی ترقی کیلئے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور وضاحت سے اِس اَمر کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ خطے میں معاشی نمو اور سماجی و ثقافتی ترقی کی رفتار تیز کرنے کیلئے تمام اقوام کو وقار کیساتھ زندہ رہنے کیلئے باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم سے کام لیا جائیگا لیکن قول و فعل کے حوالے سے بھارتی رویہ قابل ستائش نہیں رہا ہے۔ باہمی کشیدگی کے اِسی تناظر میں سیاسی و سماجی دانشور سارک علاقائی تعاون کی تنظیم سے جو توقعات وابستہ کرتی رہی ہیں وہ اِس لئے بھی پوری نہیں ہو سکی ہیں کہ بھارت خطے کے ممالک کو مساویانہ حقوق دینے کے بجائے خطے میں بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی بالا دستی کو ہر قیمت پر قائم کرنا چاہتا ہے ۔ چنانچہ جن مقاصد کا تعین تیس اکتیس برس قبل کیا گیا تھا اور جنہیں باہمی اعتماد سازی کے مسلمہ طریقوں سے آگے بڑھانے کی ضرورت تھی وہ پورے نہیں ہوئے۔ سارک ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد کے فقدان اور ماضی کے ورثہ میں ملے ہوئے مسائل بل خصوص مسئلہ کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی کے سبب خطے میں جاری کشیدگی نہ صرف سارک تنظیم کے منشور پر عمل درامد کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ امکانی طور پر مستقبل میں بھی اگر ماضی کے مسائل کو بخوبی حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی تو خطے میں جاری باہمی کشیدگی سارک ملکوں کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ کا سبب بنتی رہیگی ۔ ختم شد
Rana Abdul Baqi
About the Author: Rana Abdul Baqi Read More Articles by Rana Abdul Baqi: 4 Articles with 2416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.