18ویں سارک کانفرنس....پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں!

جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کی دو روزہ اٹھارویں کانفرنس نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں جاری ہے، جس میں پاکستان، بھارت، نیپال، بھوٹان، مالدیب، افغانستان اور سری لنکا کے سربراہان شریک ہیں۔ حسب سابق کانفرنس میں سارک ممالک سے بھوک، غربت، افلاس، جہالت ختم کرنے اور آپس میں تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا۔ سارک سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دنیا کی آبای کا ایک چوتھائی سارک ممالک میں بستی ہے، جب کہ سارک ممالک کو بھوک، غربت، افلاس اور جہالت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ سارک کو رکن ممالک میں اعتماد کی فضا قائم اور مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ سارک رکن ممالک کو تعلیم، صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایک دوسر ے سے تعاون کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم ”سارک“ جنوبی ایشیا کے 8 ممالک کی ایک اقتصادی اور سیاسی تنظیم ہے، جس کے قیام کا مقصد علاقائی تعاون کو مؤثر اور ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا اور اس خطے کو ایک غیر سیاسی ادارے کے دائرہ کار میں لانا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے، جو تقریباً 1 اعشاریہ 47 ارب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ 1970 کی دہائی کے اواخر میں بنگلا دیش کے صدر ضیاءالرحمٰن نے جنوبی ایشیائی ممالک پر مشتمل ایک تجارتی بلاک کا خیال پیش کیا۔ 1981 میں کولمبو میں ہونے والے ایک اجلاس میں بھارت، پاکستان اور سری لنکا نے بنگلا دیشی تجویز کو تسلیم کیا۔ اگست 1983 میں نئی دہلی میں منعقدہ ایک اجلاس میں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کے معاہدے کا اعلان کیا گیا۔ 7 ایشیائی ممالک نے زراعت و دیہی ترقی، مواصلات، سائنس، ٹیکنالوجی، موسمیات، صحت و بہبود آبادی، ذرائع نقل و حمل، انسانی ذرائع کی ترقی میں تعاون کا اظہار کیا۔ یہ تنظیم 8 دسمبر 1985 کو بھارت، پاکستان، بنگلا دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ اور بھوٹان نے قائم کی تھی۔ سارک تنظیم ابتدائی طور پر سات ممالک پر مشتمل تھی، لیکن 3 اپریل 2007 کو نئی دہلی میں تنظیم کے 14 ویں اجلاس میں افغانستان کو آٹھویں رکن کی حیثیت سے تنظیم میں شامل کیا گیا۔ اس طرح افغانستان کی شمولیت سے تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد بڑھ کر 8 ہوگئی۔ اپریل 2006 میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور جنوبی کوریا نے مبصر کی حیثیت سے تنظیم میں شمولیت کی باقاعدہ درخواست دی۔ یورپی یونین نے بھی مبصر کی حیثیت سے شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی اور جولائی 2006 میں سارک وزراءکونسل میں اس حیثیت کے لیے باقاعدہ درخواست دی۔ 2 اگست 2006 کو سارک وزرائے خارجہ کے اجلاس میں امریکا، جنوبی کوریا اور یورپی یونین کو مبصر کی حیثیت دی گئی۔ 4 مارچ 2007 کو ایران نے بھی مبصر کی حیثیت کے لیے درخواست دی۔

بھوٹان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں پاک بھارت تعلقات کافی اہمیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت اس علاقائی تنظیم کے دو ایسے بڑے رکن ملک ہیں جو روایتی طور پر ایک دوسرے کے حریف ہیں اور آپس میں جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ دونوں کے درمیان سرحدی کشیدگی کی وجہ سے ایک بار پھر اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین کشیدگی کی فضا قائم ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں،بلکہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر بھارت کی جانب سے فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دوری اور تلخی موجود ہے۔ کانفرس کے پہلے روز وزیر اعظم نوازشریف یہ کہہ چکے ہیں کہ پاک بھارت مسائل سارک کو موثر بنانے میں رکاوٹ ہیں، پاک بھارت مذاکرات میں بھارت کو پہل کرنا ہوگی۔ جبکہ میزبان نیپالی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ڈیڈ لاک دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس پس منظر میں سارک کانفرنس کے دوران پاک بھارت تعلقات مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سارک کانفرنس کے باوجود بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری آتی دکھائی نہیں دے رہی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ مودی حکومت کا انتہا پسندانہ رویہ ہے۔ حالانکہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ جب تک پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آتی، اس وقت تک خطے کے حالات میں بہتری نہیں آسکتی۔ ماہرین سیاسیات کے مطابق سارک کے رکن ممالک کے درمیان تجارتی روابط دیگر ممالک کے ساتھ ان کے روابط کے محض پانچ فی صد ہیں، جبکہ آسیان کے ممبر ملکوں کی تجارتی سرگرمیوں میں علاقائی تجارت کو ایک چوتھائی حصہ حاصل ہے اور سارک میں شامل ممالک کے درمیان تعاون کو صرف اس صورت میں تقویت پہنچ سکتی ہے، جب پاک بھارت تعلقات معمول پر آجائیں۔ جنوبی ایشیا کی ترقی میں سارک کا کردار مو ¿ثر نہ ہونے کی بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری سیاسی اور عسکری کشیدگی کو سمجھا جاتا ہے۔ جس کا اظہار وزیر اعظم میاں نوازشریف کر بھی چکے ہیں۔ انہی اقتصادی، سیاسی اور علاقائی کشیدگیوں کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک مشترکہ معیشت کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ بیشتر ماہرین کے خیال میں سارک کی ”ناکامی“ کی سب سے بڑی وجہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے۔ فوجی اور سیاسی اعتبار سے ان دو روایتی حریفوں کے درمیان کشمیر اور سیاچین سمیت کئی دیگر متنازعہ معاملات ہیں، جو خطے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔

آٹھ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون، سارک کو قائم ہوئے30 برس ہو گئے۔ سارک تنظیم کا اٹھارواں اجلاس جاری ہے، جبکہ اس سے پہلے سترہ اجلاس ہوچکے ہیں۔ سارک ممالک کا پہلا سربرہ اجلاس 8 دسمبر 1985 کو ڈھاکا میں ہوا، دوسرا 1986 کو بنگلور میں ہوا، تیسرا 1987 کو کھٹمنڈو میں ہوا، چوتھا 1988 کو اسلام آباد میں ہوا، پانچواں 1990 کو مالی میں ہوا، چھٹا 1991 کو کولمبو میں ہوا، ساتواں 1993 کو ڈھاکا میں ہوا، آٹھواں 1995 کو نئی دہلی میں ہوا، نواں1997 کو مالی میں ہوا، دسواں 1998 کو کولمبو میں ہوا، گیارہواں 2002 کو کھٹمنڈو میں ہوا، بارہواں 2004 کو اسلام آباد میں ہوا، تیرہواں 2005 کو ڈھاکا میں ہوا، چودھواں 2007 کو دہلی میں ہوا، پندرہواں 2008 میں ہوا، سولہواں سربراہ اجلاس2010 کو بھوٹان کے دارلحکومت ”تھم پھو“ میں ہوا اور سترہواں اجلاس 2011 میں مالدیپ میں ہوا۔ ناقدین کا کہناہے کہ اس تنظیم کے قیام سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ ابھی تک پوری نہیں ہوسکیں۔ اپنے قیام سے آج تک یہ تنظیم ”نشستند، گفتند، برخاستند“ کی مثال بنی ہوئی ہے۔ سیاسی معاملات سارک کے مختلف اجلاسوں میں زیر بحث رہے، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اگرچہ اس تنظیم نے بہت سے مثبت فیصلے کیے، لیکن فیصلوں پر عمل درآمد کی رفتار نہایت غیر حوصلہ افزا رہی ہے، جبکہ بہت سی دیگر علاقائی تنظیموں نے دیکھتے ہی دیکھتے بہت ترقی کی ہے اور عالمی سطح پر ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔ ان میں یورپی یونین، شنگھائی تعاون تنظیم اور آسیان قابل ذکر ہیں۔ سارک تنظیم جو ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی پر مشتمل ملکوں کی تنظیم ہے، آج تک پاکستان اور بھارت کے مابین موجود تنازعات کی وجہ سے قابل ذکر پیشرفت نہیں کر سکی۔ بھارت اور پاکستان پر دیگر ممالک یہ تنقید کرتے رہے ہیں کہ علاقے کی ان دو ایٹمی طاقتوں کے تنازعات نے تنظیم کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بھارت سمیت سارک ممالک اپنی جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ دفاع کی مد میں خرچ کرتے ہیں، جبکہ اس خطے کے عوام غربت، پسماندگی، ناقص خوراک اور صحت کے مسائل سمیت بہت سی دیگر مشکلات کی دلدل میں گرفتار ہیں۔ خطے میں 26 کروڑ عوام صحت کی مناسب سہولتوں، 33 کروڑ 70 لاکھ افراد پینے کے صاف پانی اور 40 کروڑ افراد خوراک سے محروم ہیں۔اگر سارک ممالک باہمی اعتماد پیدا کر کے دفاع کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم کا کچھ حصہ بچا سکیں تو یقینی طور پر اس خطے کی محروم آبادی کے حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی کشمیر اور پانی کے مسئلے پر ہمیشہ چپقلش رہی ہے اور آیندہ بھی پڑوسی ممالک سے اس کے اتفاق واتحاد کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارت خطے میں بالا دستی کا خواب چھوڑ کر اپنا رویہ تبدیل کرے۔ اگر بھارت اپنے رویے میں مثبت تبدیلیاں نہیں لا تا تو پھر اس خطے کے حالات کشیدہ ہی رہیں گے اور اس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی امن و سلامتی کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ بر قرار رہے گا۔ پاکستان اور بھارت دو ایسی ایٹمی طاقتیں ہیں جو اپنے سائنس دانوں کی بدولت جدید ترین ایٹمی اسلحہ، میزائل سسٹم اور مواصلاتی میدان میں بھی عالمی سطح پر اپنا ایک مقام رکھتی ہیں ، ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پورے خطے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا،اس وقت تک دیگر مسائل پر کماحقہ اتفاق رائے ہونا بظاہر ناممکن ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سارک کے رکن ممالک پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر اور پانی جیسے بنیادی تنازعات کے حل میں مو ¿ثر کردار ادا کریں۔ اس کے ما سوا علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.