دو ارب ڈالر کی روسی منڈی

خبر بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یوکرائین کے مسلے میں بے جا ٹانگ اڑانے کی سعی امریکہ ،آسٹریلیا، کنیڈا،ناروے اور یورپین یونین کو مہنگی پڑ گئی …… ان ممالک کے لیے دو ارب ڈالر کی برآمدات کی روسی منڈی کے دروازے بند کردئیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب ہوا کہ پاکستانی برآمد کندگان کے لیے پاکستان کے لیے دو ارب ڈالر کی درآمدات کے لیے روشن امکانات ہیں۔خبر تو یہ بھی ہے کہ پاکستانی برآمدکندگان نے روسی منڈی تک رسائی کے لیے روس کا رخ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر روس کی جانب سے امریکہ ،آسٹریلیا، کنیڈا ، ناروے اور یورپین یونین پر درآمدات کی پابندی لگنے سے پیدا ہونے والے خلا ء سے بھرپور فائدہ اٹھا یا تو پاکستانی کی مشکلات میں گھری معیشت کے لیے ایک بڑا بریک تھرو ہو سکتا ہے۔

پاکستان کو اس وقت اقتصادی،تجارت اور سماجی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے علاقائی تجارتی منڈیوں ، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان لانے اور ان کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کی بہت ضرورت ہے۔ پاکستانی تاجر پھل فروٹ کے ساتھ ساتھ سبزیاں ،گوشت، ڈیری فارم ، گوشت اور پولٹری کی مصنوعات کے ذریعے روس کے دو ارب ڈالر کے خلاء کو اپنے نام کر سکتے ہیں۔جس سے ملکی معیشت کو نہ صرف سنبھالا مل سکتا ہے بلکہ اسے پاؤں پر کھڑا بھی کیا جا سکے گا ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس سنہری موقع سے بھرپور فائد اٹھانے کی غرض سے حکومت پاکستانی برآمد کندگان کے ساتھ تعاون کرے اور انہیں اس ضمن میں ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے میں مستعدی دکھائے۔

گذشتہ سال دسمبر کے مقابلے میں اس سال مہنگائی میں کئی گناہ اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔جبکہ بجلی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے نے بھی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بجلی اور گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام تو اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، اورکاروبار بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ بجلی کی بے رحمانہ لوڈ شیڈنگ زراعت پر بھی اپنے گہریاثرات مرتب کر رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ صنعتیں عضو معطل بن کر رہ گئی ہیں۔ جس سے بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔

اس ساری رام کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت ملکی معیشت کی بحالی کے عظیم کام کو محض بیوروکریسی کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے اور نہ ہی کسی اور سے ایسی توقعات باندھے کہ آسمان سے بنی بنائی پالیسیاں اتر آئیں گی، ایسا ہر گز نہیں ہوگا ……یہ کام حکومت کے اپنے کرنے کا ہے، اس میں ذرا سی کوتاہی یا دیر سویر کی گنجائش باقی نہیں۔کیونکہ بقول حکومت کے معاشی اور اقتصادی مینجروں کے پچھلے تین مہینوں میں دھرنا سیاست کے باعث ملکی معیشت کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔ اس دھرنا پالٹیکس سے ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا جھٹکا لگا ہے۔جس سے ملک کئی سال سے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔

اور ابھی عمران خاں اسی ماہ کی تیس نومبر کو ایکبار پھر اسلام آباد پر دھرنا یلغار کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔اس بار تحریک انصا ف نے ملک بھر سے عوام کو دھرنے میں شریک ہونے کی کال دی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ تیس نومبر کو دھرنا ہو یا اسے روکنے پر مزاخمت کے نتیجے میں ملکی معیشت کو مذید جھٹکا لگنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے فرماں بردار و برادر خورد شہباز شریف کے مضبوظ کندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تیس نومبر کا انتظار کرنے کی بجائے ابھی سے ایسے ٹھوس فیصلے اور اقدامات کریں کہ عوام اور اس ملک عزیز کودرپیش مسائل حل ہوتے نظر آئیں……عوام حکومت خود کو حکومت کا حصہ تصور کریں…… عوام کو دو وقت کی نہیں تین وقت کی روٹی ملتی دکھائی دے……سرکاری محکموں کے باہر ،شہروں اور قصبات کے چوکوں میں بے روزگاروں کی لگی لمبی لمبی قطاریں ختم ہو جائیں تو پھر عوام اور نوجوان دھرنوں کی اپیلوں پر کان ہی نہ دھریں گے۔

اطلاعات کے مطابق پاور سیکٹر کے پرائیویٹ ونگ یعنی آئی پی پیز ( انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے حکومت کے ذمے ساڑھے تین سو ارب روپے سے زائدسہو چکے ہیں اور وہ ان کی فوری ادا ئیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔آئی پی پیز کا کہنا ہے کہ انہیں فوری ادائیگی نہ کی گئی تو آئی پی پیز کا حکومت کو بجلی فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ بجلی پیدا کرنا ناممکن مشکل ہوجائیگا…… اس وقت گردشی قرضے کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو پی ایس او نے تیل اور گیس کی سپلائی بند کردی ہوئی ہے ۔جس سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ شہروں میں آٹھ اور دیہات میں چودہ گھنٹے کی جا رہی ہے ۔حکومت کے لیے ملکی معیشت اور اقتصادی کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے بہترین موقع اور وقت ہے کہ وہ تدبر اور نتیجہ خیز اقدامات کرے کیونکہ عوام کو جواب دہ جمہوری حکومت ہے نہ کہ اس ملک کے وسائل سے فیوض و برکات سمیٹنے والے بیوروکریٹ ہیں۔

ماہرین معاشیات اور اقتصادیات کہتے ہیں کہ روس کی منڈیوں سے امریکہ ،آسٹریلیا،کنیڈا، یورپین یونین اور ناروے کی چھٹی پاکستان کے برآمدکندگان کے لیے ابر رحمت سے کم نہیں ……اگر پاکستان اس سنہری وقت سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتا ہے تو پھر خدا سے گلے وشکوے کرنا بے سود ہوگا …… اگر ایسا ہی ہوا تو یہ حکومت اور اسکے وزرا کی ناکامی نہیں نالائقی تصور کی جائیگی۔ کیونکہ دو ارب ڈالر کی تجارت سے فائدہ نہ اٹھانا حکمرانوں کی بے حسی نہیں تو کیا ہوگی۔ حکومت کو چاہییے کہ وہ دیگر امور میں اپنی دل چسپی کو برقرار رکھتے ہوئے روس کے ساتھ تجارتی روابط کو فروغ دینے میں برق رفتاری سے کام کرے تاکہ دو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پاکستان میں لاکر اپنی اور ملکی مسائل کو مکمل کم کرنے کی جانب پیش رفت کی جا سکے ورنہ وقت تو انکے پیش رو ’’ آصف علی زرداری‘‘ بھی گذار کر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔اسی طرح آپ کا پانچ سالہ دور حکومت وقت کے ساتھ ساتھ گزر جائیگا لیکن پاکستان کے عوام کے قلوب و اذہان پر جو نقوش ثبت ہو ں گے وہ کیسے ہوں گے وہ آپ خود ہی سوچ لیں۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144112 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.