مائیں تو ایسی ہی ہوتی ہیں

اگرچہ برِصغیر کی روایتی فلموں نےہر ماں،خصوصاََ ہیرو کی ماں کو''مدر ٹریسا'' بنا کر پیش کیا ہے، جواخلاق اورشائستگی کا بے عیب مجسمہ ہوتی ہے، لیکن در حقیقت ایسا نہیں۔ممتا کا روپ اور جزبہ یک رنگا اور آسانی سےسمجه میں آجانے والا نہیں، بلکہ بڑا رنگ دار، کٹها میٹها اور نمکین ہے۔ اس جذبہ کا لمس بالوں اور پیشانی پرپهوار بن کر گرتا ہے تو لوری میں ڈهل کرسماعت پر برستا ہے،لیکن یہ جذبہ اسی شدت کے ساته دہکتا ہوا گالوں پرجڑ اورڈانٹ ڈپٹ بن کےکانوں میں ُاتر بهی جاتا ہے۔

دراصل جب کوئی عورت پہلی بار تخلیق کے مرحلے سے گزرتی ہے تو وہ خود بهی ایک نیا جنم لیتی ہے ۔ادهر ایک ننها فرشتہ یا ننهی پری روتی چیختی اپنی آمد کا اعلان کرتی ہے ، ُادهراس نومولود ہی کی طرح کا ایک معصوم ،مگر غیر مرئی وجود تخلیق کے عمل سے گزرنے والی کے جسم میں ُاتر جاتا اور روح میں بس جاتا ہے ۔یہ وجود اسے ایک نئی شخصیت بنا دیتا ہے جس کے رویے جداگانہ ، عمل اور ردِ عمل مختلف اور احساسات دیگر ہوتے ہیں ۔ ممتا احساسات ، جذبات اور رویوں کی اسی رنگا رنگ دنیا کا نام ہے ۔

پاکستانی فلم کی تاریخ میں شاید اداکار رنگیلے کو صورت کے معاملے میں سب سے ذیادہ مذاق اور تضحیق کا سامنا کرنا پڑا ایک موقع پر اس نے کہا تها ،''میری ماں سے پوچهو میں کتنا خوبصورت ہوں'' ۔ یقینََا اپنی ماں کی نظروں میں وہ ''سب توں سوہنیاں '' ہوگا ،کیوں کہ ممتا کی دنیا میں سب اولاد ہی آباد ہوتی ہے ، چناچہ حسن کا پیمانہ وہی قرار پاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مائیں بڑے پیار سے اپنے سیاہ فام نومولود کو گل فام یا ماہ رخ جیسے نام دیتی ہیں

ماؤں کو اولاد کی سیرت پر جتنا یقین ہوتا ہے ، ان کی عقل پر اتنی ہی بے یقینی ۔ گلی محلے اور خاندان کے سارے بچے ہوشیار بلکہ عیار اور مکار ہیں ، مگر ان کے منے میاں سیدهے ، بهولے ، معصوم اور بے وقوف ، چناںچہ اگر وہ اپنا کهلونا کہیں کهو بیٹهیں تو اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہوگی کہ وہ پڑوسن کی چالاک بچی نے ان کے بهولے کو بےوقوف بنا کے ہتهیا لیا ہے یا کسی اور محلے دار ننهے فریب کار نے چرالیا ہے ، ورنہ سامنے والوں کے بدمعاش نے چهین لیا ہے اور ان کا معصوم ننها اپنی شرافت اور حماقت کے باعث اس کا نام نہیں لے رہا ۔

ممتا کی یہ ادائیں ہمیں بهائیں نہ بهائیں اور ہماری عقل میں سماعیں یا نہ سماعیں ، لیکن ممتا کا سارا حسن انہی رویوں سے ہے اور انہی کے حصار میں ہم زندگی کے کتنے ہی دن آسودگی اور تحفظ کے سائے تلے گزار دیتے ہیں ۔ اور جب یہ حصار ٹوٹتا ہے تو زندگی منطق اور عقل کے تمام ہهتیار لئے ہمیں آگهیرتی ہے اور ایک انتباہ ہماری سماعت میں گونج ُاٹهتی ہے ، ''موسی ! سنبهل کے ، اب تمهاری ماں نہیں ۔''
M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 26644 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.