ڈھونڈ ہی لیا

سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس آپ کو آپ کے دوستوں اور جاننے والوں سے تو رابطے میں رکھتی ہی ہیں، لیکن بعض اوقات ان کے ذریعے برسوں کے بچھڑے ہوئے لوگ بھی مل جاتے ہیں۔

ایسا کبھی تو اتفاق سے ہوتا ہے اور کبھی کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے کے لیے جستجو کرنی پڑی ہے۔ ایسی ہی جستجو کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی منیزہ طلعت نے کی اور بڑی کوششوں کے بعد کام یابی سے ہم کنار ہوگئی۔ یوں منیزہ طلعت نے فیس بک کے ذریعے اپنی برسوں کی بچھڑی ہوئی پھوپھی اور ان کے اہل خانہ کو تلاش کرلیا۔

بچھڑنے اور ملنے کی اس کہانی کا آغاز تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے ساتھ ہوا۔ منیزہ طلعت کے والد ولی الحق، اور ان کے دو بھائی رفیع الحق اور شبیہ الحق بھارت کے شہر پٹنہ سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور ان کی دو بہنیں اور دو بھائی ہندوستان ہی میں رہ گئے۔ ایک دوسرے سے بچھڑے ہوئے اس خاندان کے افراد کا 80 کی دہائی تک رابطہ رہا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب منیزہ طلعت دنیا میں نہیں آئی تھیں۔ آخر یہ زندگی کے جھمیلے اور دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کی صورت حال کی وجہ سے ربط کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
منیزہ نے جب ہوش سنبھالا تو وہ گھر میں اپنی پھپھیوں اور بھارت میں مقیم دیگر رشتے داروں کا ذکر سنتی تھیں، لیکن یہ بات انھیں ملول کردیتی تھی کہ پھوپھی جیسا پیارا رشتہ میسر ہونے کے باوجود وہ اس رشتے سے محروم ہیں اور اپنی پھوپھی سے رابطہ نہیں کرسکتیں۔ 2002 میں منیزہ کے بڑے بھائی کا دہلی جانا ہوا۔ تمام اہل خانہ خوش تھے کہ یہ سفر وہ رابطہ بحال کردے گا جو برسوں پہلے ٹوٹ چکا تھا، لیکن ایسا نہ ہوسکا، منیزہ کے بھائی نے اپنی پھوپھی کو بہت تلاش کرنے کی کوشش کی مگر انھیں کام یابی نہ ملی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دور پیچھے رہ گیا جب خط اور ٹیلی فون ہی رابطوں کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ انٹرنیٹ اور ای میل کا سلسلہ شروع ہوا، پھر سوشل میڈیا کا ظہور ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں بھی سوشل ویب سائٹس نے مقبولیت حاصل کرلی، جن میں فیس بک سرفہرست ہے۔

بہت سے دیگر پاکستانی نوجوانوں کی طرح منیزہ نے بھی فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بنایا۔ اس اکاؤنٹ کا مقصد محض وقت گزاری، تفریح اور گپ شپ نہیں تھا، بل کہ ان کے سامنے ایک واضح مشن تھا۔ انھیں اس سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے ذریعے بھارت میں مقیم اپنے رشتے داروں کو تلاش کرنا تھا۔ آخرکار منیزہ نے فیس بک کے ذریعے اپنی ایک پھوپھی کی تلاش شروع کردی۔ انھیں اپنے پھوپھی زاد بھائیوں مشرف عالم اور منور عالم کے نام معلوم تھے، چناں چہ ان ہی ناموں کے سہارے انھوں نے اپنی مہم کا آغاز کیا۔ منیزہ کہتی ہیں،’’ان دنوں فیس بک پر ان ناموں (مشرف عالم اور منور عالم) کے پروفائلز دیکھنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔‘‘ وہ ان ناموں کے تلاش کرتیں، ان کے پیجز پر جاکر تفصیلات کا جائزہ لیتیں، لیکن پھر انھیں مایوس ہونا پڑتا۔

آخر ایک دن انھیں لگا کہ ان کی محنت رنگ لائی ہے اور ان کی مہم کام یابی سے ہم کنار ہونے کو ہے۔ ان کے سامنے مشرف عالم نام کا ایک پروفائل کُھلا، جائزہ لیا تو پتا چلا جس مشرف عالم کا یہ ہے وہ پٹنہ میں مقیم ہے، یعنی اسی شہر میں جہاں سے منیزہ پھوپھی کا تعلق تھا۔ یہ دیکھ کر منیزہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور انھیں پختہ یقین ہوگیا کہ یہی اس کے کزن ہیں۔ انھوں نے فوراً مشرف عالم کو فرینڈریکویسٹ بھیج دی، ساتھ ہی میسیج بھی کردیا، لیکن دو دن تک کوئی جواب نہ آیا اور مکمل خاموشی چھائی رہی۔ اس دوران منیزہ بے کار نہیں بیٹھیں، وہ مشرف عالم کے پیج اور اس پر آنے والی پوسٹس کا جائزہ لیتی رہیں۔

اس دوران انھیں مشرف عالم کے پیج پر سب سے زیادہ کمنٹس محمد انیس نامی ایک صاحب کے نظر آئے جو اسلام آباد میں رہتے تھے۔ منیزہ نے محمد انیس کو فرینڈریکویسٹ اور ’’ہیلو‘‘ کا پیغام بھیج دیا۔ محمدانیس نے منیزہ کی فرینڈریکویسٹ قبول کرلی اور ان کے پیغام کا جواب دیا، اس کے ساتھ ہی دونوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ منیزہ نے اپنی تلاش کا ذکر محمد انیس سے کیا۔ انھوں نے منیزہ سے ان کے والد کے موبائل فون کا نمبر لیا، جس پر اسی رات منیزہ کو منور عالم کا میسیج ملا۔ میسیجز کے ذریعے پتا چلا کہ یہ منور عالم منیزہ کے کزن نہیں ہیں۔ منیزہ کو دکھ ضرور ہوا مگر وہ مایوس نہیں ہوئیں اور اپنی مہم جاری رکھی۔ ناکامی تو ہوئی، مگر اس بہانے منیزہ کو محمد انیس کی صورت میں ایک اچھے دوست مل گئے، جن کے بارے میں وہ کہتی ہیں،’’بالکل میرے ابو کی طرح، بہت شفیق۔‘‘

منیزہ کے والدین اور محمد انیس اور ان کی اہلیہ کے درمیان رابطوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ منیزہ کے والد نے انھیں بھارت میں مقیم اپنے رشتے داروں کے بارے میں بتایا۔ محمد انیس کو ان سب میں مشرف عالم تک رسائی آسان لگی، کیوں کہ منیزہ کے اہل خانہ کو یہ معلومات کسی طرح حاصل ہوچکی تھیں کہ مشرف عالم بھارت کے سرکاری ٹی وی چینل دوردرشن سے وابستہ ہیں، ادیب ہیں اور ان کا قیام دہلی میں ہے۔ محمد انیس نے بھارت میں مقیم اپنے رشتے داروں کو یہ ذمے داری سونپی کہ وہ مشرف عالم سے رابطہ کریں۔ یہ سلسلہ شروع ہونے کے تقریباً چار ماہ بعد اتوار کی صبح منیزہ سورہی تھیں کہ ان کا موبائل فون بجنے لگا۔ منیزہ نے کال ریسیو کی۔

دوسری طرف محمد انیس تھے۔ انھوں نے کہا،’’تمھارے لیے خوش خبری ہے۔ تمھارے کزن مشرف عالم سے میری بات ہوئی ہے۔ ان کا نمبر لکھو۔ بے پناہ مسرت کے ساتھ منیزہ کے دل میں یہ خوف بھی تھا کہ اگر یہ بھی اس کے کزن نہ نکلے تو امید کا دیپ ایک بار پھر بجھ جائے گا۔ اس دن مصروفیات کے باعث فون کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ اگلے روز صبح منیزہ جب فیس بک پر لاگ آن ہوئیں تو وہاں ان کے لیے ذوقی عالم کے نام سے فرینڈ ریکویسٹ آئی ہوئی تھی، جن کے پروفائل پر شہر کے خانے میں دہلی لکھا ہوا تھا۔ منیزہ نے ریکویسٹ قبول کرلی۔ اس کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد منیزہ کے پاس ذوقی عالم کا میسیج آیا۔ چند جملوں کا تبادلہ ہوا، اور پھر یہ جان کر منیزہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ وہ اپنے پھوپھی زاد بھائی مشرف عالم سے گفتگو کر رہی ہیں۔ پھر کیا تھا۔ یادوں اور باتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو دراز ہوتا گیا۔

اب یہ سنیے کہ مشرف عالم نے منیزہ کو کیسے تلاش کیا۔ ہوا یوں کہ جب محمد انیس نے مشرف عالم کی کھوج لگا کر انھیں کال کی تو اس وقت مشرف عالم شدید پریشانی سے دوچار تھے، کیوں کہ ان کا ڈینگی کے مرض میں مبتلا بیٹا اسپتال میں زیرعلاج تھا۔ محمد انیس نے انھیں بتایا کہ آپ کو آپ کی ایک عزیزہ تلاش کر رہی ہیں، جن کا نام منیزہ طلعت ہے۔ محمد انیس انھیں منیزہ کے والد کا نام بتانا بھول گئے، اسی اثناء میں لائن کٹ گئی۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو کال کرنے کی کوشش کی گئی مگر کال نہ لگی۔

مشرف عالم کو منیزہ کا نام یاد تھا۔ اسپتال سے گھر جاکر وہ فیس بک پر لاگ آن ہوئے اور ’’منیزہ طلعت‘‘ کی تلاش شروع کردی۔ فیس بک پر اس نام کے کے کتنے ہی پروفائل موجود تھے۔ آخر ایک پروفائل پر آکر مشرف عالم کو اپنائیت محسوس ہوئی۔ جب انھوں نے فرینڈ لسٹ پر نظر دوڑائی تو وہاں منیزہ کے بھائیوں رضوان الحق، فرحان الحق اور اظفرالحق کے نام موجود تھے، انھیں لگا کہ یہ وہی منیزہ ہے جس کی انھیں تلاش ہے، کیوں کہ ان کے دادا کا نام بشیرالحق تھا۔ انھوں نے فوری طور پر منیزہ کو فرینڈریکویسٹ بھیج دی۔
یوں آخر کب کے بچھڑے ہوئے فیس بک کے توسط سے برسوں بعد مل گئے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282055 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.