شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

وجہ شہرت
قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا

شاہ ولی اللہ سترھویں صدی کے پہلے مسلمان مفکر جنہوں نے مغربی تہذیب کو اسلام کے لیےے خطرہ سمجھا

شاہ ولی اللہ کا دور وہ تھا جب حکمت کے طور پر جانی جانیوالی اسلامی روایت پھل پھول رہی تھی اور فلسفہ ،دینیات اور تصوف کے روایتی مذہبی علوم مےں مصالحت ہو رہی تھی۔ تاہم، ماقبل جدید دور یا کلاسیکی انداز کا نکتہ نظر مختلف فرقہ وارانہ، سیاسی اور سماجی دباؤ کے تحت اپنے ٹوٹنے کی علامتیں دکھا رہا تھا۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اور تصنیفاتی سرگرمیوں کا اصل مقصد اہم اسلامی عقلی قواعد کے نکتہ ہائے نظر کے ذریعہ اسلامی مذہبی علوم کے مطالعہ کو دوبارہ مجتمع کرنا اور اہم بنانا تھا ان عقلی قواعد میں فقہ، تصوف اور خاص طور پر قرآن وحدیث پر غور و خوض شامل تھا۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے تقریباً چالیس کتابیں اور رسائل مرتب کئے اور ایک مذہبی محقق اور روحانی رہنماء کا فریضہ سر انجام دیا۔ شاہ ولی اللہ کا جنم ایک کٹر مذہبی اور مشہور گھرانے میں ہوا۔ ان کے والد شاہ عبدالرحیم مشہور فقیہہ اور محقق تھے جنہوں نے دہلی میں اسلامی تعلیمات کے ادارے مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی انہوں نے اپنے بیٹے کو قرآنی تعلیمات، عربی زبان اور نقشبندی صوفیانہ روایت سیکھنے میں رہنمائی دے کر سترہ برس کی کچی عمر میں اپنا وارث بنا دیا۔ چنانچہ 1719ء میں باپ کی وفات پر شاہ ولی اللہ نے اپنی حیثیت سنبھالی۔ حج کے سفر نے شاہ ولی اللہ کی سوچ پر طاقتور اثرات مرتب کئے۔ انہوں نے مکہ اور مدینہ المنورہ کے مقدس شہروں میں انتہائی سر کردہ اور معزز اساتذہ اور اس دور کے محققین حدیث کے ساتھ سال گزارا جنہوں نے ان کی قابلیت کو تسلیم کیا اور اپنے حلقہ میں شامل کرلیا ۔ انہیں عربی زبان پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ ان کی اہم تصنیفات اسی زبان میں لکھی ہوئی ہیں۔ مزید برآں بہت سی تصانیف فارسی میں بھی ہیں دنیائے اسلام کے فکری مذہبی اور تہذیبی مرکز میں گزارے ہوئے وقت نے اسلامی قانون کے معاملات میں شاہ ولی اللہ کو ایک ہمہ گیر نکتہ نظر عطاء کیا۔ اس لئے ان کی کتابوں میں زیادہ عوامی حلقے کی بجائے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی مخاطب کیا گیا۔ چونکہ مکہ اساتذہ مطالعہ حدیث کی روایت میں ڈوب گئے تھے اس لئے شاہ ولی اللہ نے یہ نقطہ نظر اپنا لیا کہ رسول اللہ کے اقوال کا مطالعہ اور شرح اسلام پر چلنے کے لیے مختلف طریقوں کو متحد کرنا اور نیا بنانا لازمی ہے سعودی عرب سے واپسی کے بعد شاہ ولی اللہ نے دہلی میں اپنی عملی اور صوفیانہ سر گرمیاں جاری رکھیں اپنے والد کے قائم کردہ مدرسہ میں پڑھایا اور راہ تصوف کی پیچیدگیوں میں شاگردوں کی رہنمائی کی۔

انہوں نے اپنی اہم کتاب حجتہ البالغہ حج سے واپسی پر لکھی تھی۔ دو جلدوں پر مشتمل کتاب میں انہوں نے کل علم کائنات کا جائزہ پیش کیا۔ پہلی جلد میں وہ تخلیق کا بنیادی مقصد انسانی نفسیات کی قوت Potentiality انسانی سوچ اور اعمال کی بلند تر اہمیت، لسانی سماجی وسیاسی نظاموں کی ترقی اور سب سے آخر میں مذہبی مکاشفہ اور اس کی شرح پیش کرتے ہیں۔ جلد دوم میں وہ اسلامی قانونی ہدایات کے زیادہ گہرے روحانی پہلوؤں کی تفہیم پیدا کرنے کے لئے اپنا طریقہ کار مخصوص احادیث پر لاگو کرتے ہیں۔ اسلام کی اندرونی اور بیرونی جہتوں کو واضح اور ہم آہنگ کرنے کے اس کارنامے کی وجہ سے عماما عظیم مفکر اور صوفی الغزالی (وفات1111ﺀ) کے ساتھ ان کاموازنہ کیا جاتا ہے۔ ان کا ما بعدالطبیعاتی نظام بھی الغزالی اور ابن عربی (وفات 1940ئ)دونوں کی فلسفیانہ صوفی روایت سے زبردست متاثر ہے ? جنہوں نے معنی کے مثالی درجے کے افلاطونی تصور کو اس دنیا کے وقوعات کے ساتھ جوڑا حقیقت کی خالصتاً مادی جہتوں کے درمیان رابطہ نظر آنے والی ایک مائع سی تہہ اعیان کی دنیا کہلاتا ہے ۔شاہ ولی اﷲ نے اسے وہ تعلیم خیال کیا جس میں مذہبی استعارے مخصوص مذہبی ہدایات میں اپنی جوڑ بندی سے قبل تشکیل دیے گئے تھے۔ ان مخصوص مذہبی ہدایات کی پیروی کرنے کا اصل مطلب ان کی بیرونی وقوعات کی مخصوص مثالوں کی بجائے اس بلند تر سطح پر تلاش کرنا چاہیے۔ اس نکتہ نظر پر عمل کرتے ہوئے شاہ ولی اﷲ نے ایک نظریہ استعاریت اور معنی و اطلاقیت کی ٹھوس تاریخی صورت حال میں اس کے ظہور کی توضیح کی جس کے مطابق استعارے ایک طرف سے اپنی افادیت رکھتے ہیں۔ اخذ کردہ نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون (شرع) پر عوامی سطح پر عملدر آمد کرنا چاہیے تاکہ اس کے اندرونی روحانی مفادات کا حصول ہو سکے۔

اپنے نظریہ مذہبی مکاشفہ میں وہ اسلام کو ایک ہمہ گیر مذہب خیال کرتے ہیں جس نے ساتویں صدی کے عرب میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دوران ٹھوس صورت اختیار کی تھی۔ چنانچہ اس صورت میں دین (جو تمام افراد کے مزاج میں رچا بسا ہے) کہ مثالی تصور اور اسلام کی خصوصی تاریخی صورت کی تمام وقتوں میں اطلاقیت کے دعویٰ کے درمیان کچھ تفاوت موجود ہے۔ ان کے نظام بنی نوع انسان مذہبی قوانین کے محض مجہول تاثر پذیر ہی نہیں۔ اخلاقی اور روحانی ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے کی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل ہیں کیونکہ بعد از موت بھی ان میں بیشتر مزید انسانی سماجی و روحانی نشوونما کی رہنمائی کرنے کے کام میں حصہ لینے کے لئے مجلس اولٰی کے فرشتوں میں شامل ہوں گے۔ اگرچہ عربی سے فارسی میں قرآن پاک کا ترجمہ شاہ ولی اﷲ نے پہلی مرتبہ نہیں کیا تھا (جیسا کے کچھ کہتے ہیں) لیکن یہ اس اعتبار سے تاریخ ساز ہے کہ اس میں شاہ ولی اﷲ نے ایک تو حد سے ادبی اور دوسرے محض کتاب کا لب لباب پیش کرنے والے سابق تراجم کے مابین حیران کن توازن قائم کیا۔ مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں میں قیام کے دوران قانون اور حدیث میں شاہ ولی کی باقاعدہ تربیت نے انہیں مالک ابن انس (وفات 796ﺀ) مکتبہ کے حدیث سے متعلق طریقہ کار اور الشافعی (وفات819ﺀ) قانونی مکتبہ کے نظری آلات کا حمایتی بنا دیا۔ جنوبی ایشیاء کے زیادہ تر مسلمانوں کی طرح انہوں نے خود حنفی قانون کی پیروی کی۔ اس قسم کی انتخابیت تطبیق کہلاتی تھی: یعنی مطابقت میں سے متفاوت عناصر کو عیاں کرنا۔ قانون اور حدیث پر ان کی کچھ تصنیفات نظریہ اور شرح کا تکنیکی معائنہ ہیں جبکہ دیگر میں وہ چار بڑے سنی مکاتب قانون کے درمیان عدم اتفاقات کے تاریخی ماخذوں پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان اختلافات تک لیجانے والے عناصر کو ان کی ترقی کے لحاظ سے سمجھنا چاہیے اسلامی قانون سازی کے بنیادی ماخذوں یعنی قرآن و حدیث کی تفسیر کرنے پر اہل افراد کی قابلیت کے بارے میں ان کا نکتہ نظر مکمل طور پر انقلابی نہیں بلکہ وہ اہل فقیہہ کی جانب سے اجتہاد کی ایک مخصوص حدتک اجازت دیتے ہیں۔

تصوف پر عمل کرنے سے متعلق شاہ ولی اﷲ کا نکتہ نظر انتخابی اور اصلاحی دونوں طرح کا تھا دیگر اسلامی اصولوں کی طرح صوفی طریقہ کار اور نظریہ سے متعلق ان کا رویہ یہ تھا کہ ہر صوفیانہ سلسلہ اپنی اپنی بے مثال تاریخ اور توانائیاں رکھتا ہے۔ روحانیت کے متمنی کو ایسے صوفیانہ عناصر پر عمل کرنے کی تربیت دینی چاہیے جو اسی کی اپنی خلقی فطرت سے انتہائی ہم آہنگی رکھتے ہوں، چاہے وہ عناصر استغراقی، دین دار انہ یا پھر فکری ہوں۔ شاہ ولی اﷲ نے اپنے دور کے اہم صوفی سلسلوں کی رہنمائی کا دعویٰ کیا اور ان میں سے کسی ایک کے ساتھ منسلک ہونے کی بجائے خود اپنے قسم کا انتخابی طریقہ کار قائم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی، جو پھل پھول نہ سکا۔ تصوف پر اصول کی ایک مختلف شکل کے طور پر اصرار نسل بعد نسل کم ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ان کی کچھ اولادوں نے صوفی عناصر کو تشکیل دینے کی کوشش کی تاکہ اسلامی اعتقاد اور چلن کے بنیادی عناصر کو زیادہ روحانی بنا جا سکے۔ مثلاً اعلیٰ تربیت کے ایک اعلیٰ اسلامی ادارے دیوبند مدرسہ کی بنیاد ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز (وفات 1823ﺀ) کے پیروکاروں نے رکھی ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت میں تبدیلی کے دور میں رہتے اور مغلیہ سلطنت میں انتشار اور اس کے بعد استعاری دور کے نکتہ آغاز پر مدو جزر کا تجربہ کرتے ہوئے شاہ ولی اﷲ پرانی اسلامی اصلاحی تحریکوں کے مخصوص رجحانات کی بطور مثال پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم سعودی عرب کے وہابیوں کے برخلاف انہوں نے محترم مسلمان اولیاء کے طریقہ کار کو رد نہ کیا ور اس بات پر اعتقاد رکھا کہ حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ وہ بھی ایک متواتر روحانی رابطہ رکھتے تھے جو کسی بھی عقیدت مند کے لئے قابل رسائی ہے۔

یہ امر باعث دلچسپی ہے کہ آج مسلمان جنوبی ایشیاء میں اہم مذہبی تحریکیں شاہ ولی اﷲ کو اپنا فکری جد امجد مانتی ہیں۔ زیادہ تر صوفی مخالف نکتہ نظر رکھنے والے دیگر جنوبی ایشیائی مسلمان ۔۔۔۔مثلاً اہلحدیث ۔۔۔اور حتیٰ کہ مولانا مودودی کے پیروکار بھی اسلامی قانون کی بنیاد کی طرف شاہ ولی اﷲ کی رجعت اور خارجی اثرات کی سیاسی تردید کرنے پر انہیں اصلاحی عقائد کا نقیب سمجھتے ہیں۔ اسلامی جدت پسندوں نے شاہ ولی اﷲ میں ایک ایسا مفکر دیکھا جس نے مخالف قانونی اور نظریاتی فرقوں کو قریب لاتے، اجتہاد کی بات کرتے ہوئے اور مذہبی روایت کی کتابی ہدایات میں مخفی جذبہ کی تلاش کرتے ہوئے اپنے دور کے بحران کا جواب دیا۔ انہوں نے 1763میں وفات پائی۔
Pir Muhammad Amir
About the Author: Pir Muhammad Amir Read More Articles by Pir Muhammad Amir: 3 Articles with 9475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.