عہد حاضر اور کربلا کا لا فانی انسانیت ساز پیغام

تاسیس کربلا نہ فقط بھر ماتم است۔۔۔۔۔دانش سرائے مکتب اولاد آدم است

تاریخ اس اعتبار سے نہایت بخیل واقعہ ہوئی ہے کہ یہ اپنے دامن میں شاذ و نادر ہی واقعات کو جگہ دے پاتی ہے ورنہ ہر روز نہ جانے کتنے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کوئی ان کا پرسان حال بھی نہیں ہوتا جبکہ کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا تذکرہ سرسری طور پر ہو جاتا ہے اور بس، لیکن اس کے برعکس کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ تاریخ میں شہ سرخی کے طور پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ ”واقعہ کربلا “بھی ہے جو آج بھی اپنی اسی آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے جتنا کل تھا بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جتنا جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے یہ واقعہ اتنا ہی اپنا رنگ گہرا کرتا جا رہا ہے یعنی جس قدر بشریت کی ترقی و عروج کا سفر آگے بڑھ رہا ہے اسی قدر یہ واقعہ اپنی حقانیت ظاہر کرتا جا رہا ہے۔ تبھی تو جوش ملیح آبادی کہہ گئے ہیں کہ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو۔۔۔۔۔۔ ۔ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینّ

آج دنیا میں ایسے افراد بہت کم ہوں گے جو نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین بن علی ابن ابی طالبّ کے نام سے آشنا نہ ہوں۔ دیندار افراد کی تو بات ہی درکنار لادین و لامذہب اشخاص تک امام حسینّ کی بارگاہ میں آتے ہیں تو سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ مہاتما گاندھی جیسے انسان دوست سے لے کر اڈولف ہٹلر جیسے درندہ صفت انسان تک درسگاہ کربلا میں دو زانو بیٹھے نظر آتے ہیں۔

آخر یہ کیسا واقعہ ہے؟۔۔۔اس واقعہ میں ایسی کونسی خصوصیت پوشیدہ ہے کہ زمانے کی گردوغبار اس کی تابناکی کو بوجھل نہیں کر پا رہی ہے؟۔۔۔ اس واقعے میں ایسی کونسی صفت ہے کہ ساری دنیا کسی مذہب وملت کے تعصب کے بغیر اس واقعہ کی گرویدہ ہے؟

اس کا سادہ اور مختصر سا جواب یہی ہے کہ کربلا اس الہٰی درسگاہ کا نام ہے جس نے سسکتی اور مرتی ہوئی انسانیت کو جینے اور عزت کے ساتھ مرنے کا سلیقہ سکھایا، کربلا ایک ایسے آفاقی مکتب کا نام ہے کہ جہاں آکر انسانیت اپنے کمال وعروج تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان مذہب وملت سے ماوراء ہو کر انسان ہونے کے ناطے اپنے اپنے طور پر اس واقعہ کو اپنے لئے نمونہ عمل بنا لیتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ اس واقعہ کے ذریعہ نواسہ رسول امام حسین کا ہدف اس کے ماسوا اور کچھ نہیں تھا کہ اپنے اور اپنے بعد آنے والے معاشروں کی اصلاح فرمائیں تبھی تو فرمایا تھا ” میں اس لئے مدینہ چھوڑ رہا ہوں کہ اپنے جد کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں“ یعنی امام حسینّ کا مقصد اور ہدف یہی تھا کہ بنی نوع بشر کو اس” مدینہ فاضلہ “ تک لے آئیں کہ جس کی طرف اس نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے سفر شروع کیا تھا لیکن منزل تک آنے سے پہلے ہی منزل گم ہوگئی تھی۔

حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسینّ تھے، تو دوسری طرف ظالم و جابر اور فاسق و فاجر حکمراں یزید پلید تھا۔ حضرت امام حسینّ نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضہ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی برائیوں کو فروغ دیا اور ایک بار پھر دور جاہلیت کی باطل اقدار کو زندہ کر کے دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس کی خاطر پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے 23برس تک اذیت وتکالیف برداشت کی تھیں۔ حضرت امام حسینّ دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہر ہ سے شجر اسلام کی آبیاری کی، اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے”اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔“

نواسہ رسول امام حسینّ یزید پلید کے خلاف اٹھے اور اس طرح اٹھے کہ ایک مختصر عرصہ میں بشریت کو اس مقام پر لا کر کھڑا کردیا کہ جہاں اس کا سر فخر سے بلند تھا اور لبوں پر تبسم نغمہ افشانی کررہا تھا جبکہ دوسری جانب شام کا”سبز محل“ کھنڈروں میں تبدیل ہو کر زمانہ کے لئے درس عبرت بن گیا تھا۔ اس لئے خواجہ معین الدین چشتی کو کہنا پڑ گیا کہ
شاہ است حسینّ،بادشاہ است حسینّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دین است حسینّ دین پنا ہ است حسینّ
سرداد نداد دست دردست یزید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسینّ

یہی واقعہ کربلا کا خاصہ ہے کہ روز عاشور حضرت امام عالی مقام حسین بن علی ابن ابی طالبّ نے اپنے چند ساتھیوں کےساتھ ایک ایسا تاریخی انسان ساز انقلاب برپا کیا کہ بادشاہ وقت کے محل میں اتھل پتھل مچ گئی، وہ معیارات و حقائق جن پر وقت کی تیز رفتار آندھیوں نے پردہ ڈال دیا تھا، یک لخت ہٹ گیا۔

کربلا اس انقلاب کا نام ہے جو اپنے بعد رونما ہونےوالے ہر انقلاب اور تحریک کا سرچشمہ ہے۔ عصر حاضر میں اس کی واضح اور روشن ترین مثال ایران کا اسلامی انقلاب ہے جس کے بانی حضرت امام خمینی نے بارہا اور مختلف مقامات پر اس حقیقت کا برملا اظہار فرمایا کہ ایران کا اسلامی انقلاب واقعہ کربلا کا ایک پر تو ہے، اگر واقعہ کربلا رونما نہ ہوا ہوتا تو ایران میں کبھی بھی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا تھا۔

کربلا کا اہم ترین درس شہادت، ایثار اور فدا کاری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فقط انسانیت کی بقا کی خاطر کربلا کے تپتے ریگزار میں اپنا بھرا گھر حتیٰ کہ اپنا ششماہی فرزند شہزادہ علی اصغرّ بھی قربان کردیا۔ ایثار، فدا کاری، قربانی وغیرہ یہ وہ اعلیٰ انسانی صفات ہیں کہ اگر کسی معاشرہ یا قوم میں پیدا ہو جائیں تو وہ قوم یا معاشرہ کبھی بھی تاریخ کی اندھیری کوٹھریوں میں دفن نہیں ہوسکتا اور یہی وہ صفات ہیں جن کو امام حسین علیہ السلام نے 61ھ میں بشریت کا خاصہ بنا دیا اور آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی واقعہ کربلا کی بازگشت چہار جانب سنائی دے رہی ہے۔

ایران کے اسلامی انقلاب کے علاوہ بوسنیا، فلسطین و کشمیر سمیت آج دنیا بھر میں جتنی بھی آزادی کی تحریکیں جاری ہیں تمام کی تمام نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین بن علی ابن ابی طالبّ کی دی ہوئی فکر کا نتیجہ ہیں کیونکہ (جاءالحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً) ہی روز عاشور امام حسین علیہ السلام کا پیغام تھا۔

اگر تاریخ کے اوراق پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو ایسی نہ جانے کتنی مثالیں مل جائیں گی جن کا سرچشمہ اور منبع واقعہ کربلا ہے۔ یہی کربلا کا ہدف بھی تھا کہ انسان بیدار ہو جائے، مظلوم، ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرے، ذلت کی زندگی کے بجائے عزت کے ساتھ مر جانا سیکھے۔ فداکاری، ایثار و قربانی جیسے جذبوں کو اپنے اندر پیدا کرے، پھر فتح اس کی ہوگی جو ان صفات کا حامل ہوگا۔ ظالم یعنی باطل کو ایک نہ ایک دن ماضی کا حصہ بننا ہی ہوتا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو واقعہ کربلا ہمیں دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں برس گزر جانے کے باوجود کربلا آج بھی زندہ ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک اس پیغام کو سننے والے باقی رہیں گے۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیریّ۔۔۔۔۔۔بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کل یوم یومِ عاشورا و کل ارض ارضِ کربلا

مقام حسین بن علی ابن ابی طالبّ اہلسنت مآخذ کی روشنی میں
امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کو ان کے علاوہ دیگر اکابرین اہل سنت من جملہ، ابن ماجہ، ابو بکر سیوطی، ترمذی، ابن حجر، حاکم، ابن عساکر، ابن اثیر، حموینی، نسائی وغیرہ نے بھی مستند حوالوں کے ساتھ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: الحسن ولحسین سیدا شبا ب اہل الجنہ” حسن وحسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اس حدیث کے راویوں میں امیر المومینین حضرت علی ابن ابی طالبّ کے علاوہ اکابر صحابہ کرام جن میں حضرت عمر وابو بکر، ابن مسعود، حذیفہ، جابر بن عبداللہ، عبد اللہ بن عمر، قرہ، مالک بن الحویرث بریدہ، ابو سعید خذری، ابوہریرہ، انس، اسامہ اور براء رضی اللہ عنہم شامل ہیں، قابل ذکر ہیں۔

حضرت امام حسینّ کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اور مشہور حدیث ہے”حسین منی وانا من حسین “(حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں)

اس حدیث میں آپ کے ساتھ امام عالی مقام حسین بن علیّ کے خونی رشتے کے علاوہ دونوں ہستیوں کے روحانی اور معنوی روابط کی صراحت ملتی ہے، جس کی تعبیر یہ ہے کہ دین اسلام جس کی بنیاد رسول خدا نے رکھی تھی اور اس کا تحفظ حضرت امام حسینّ نے کیا۔ اس حدیث کو تواتر کے ساتھ سنی مآخذ میں بیان کیا گیا ہے اور بعض مآخذ میں اس جملے کے ساتھ دیگر جملے بھی نقل کئے گئے ہیں کہ آپ نے فرمایا ”جس نے حسینّ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی “نیز فرمایا ہے خدایا جس نے ان دونوں حسنینّ سے دشمنی کی میں بھی اس کا دشمن ہوں۔

“حسینّ مجھ سے ہے اور میں حسینّ سے ہوں“والی حدیث کو نقل کرنے والے سنی اکابرین میں ابن ماجہ، ترمذی، ابو ہریرہ، نسائی، ابن اثیر، سیوطی، امام احمد بن حنبل اور طبری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت امام حسینّ کی عظمت اور پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ان سے فرط ِمحبت کا اندازہ ابو ہریرہ کی اس روایت سے بھی کر سکتے ہیں۔ ابن عبد البر قرطبی نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا”میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم امام حسینّ کے دونوں ہاتھوں کو تھامے ہوئے تھے اور امام حسینّ کے دونوں پاؤں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں پر تھے، آپ نے فرمایا اوپر آ میرا بیٹا، امام حسینّ اوپر چلے گئے اور آپ نے سینہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر پاؤں رکھا، اس وقت آپ نے فرمایا حسینّ منہ کھولو، اس کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسینّ کو چوما اور فرمایا پروردگار اس سے محبت کر اسلئے کہ میں اس کو چاہتا ہوں، اہل سنت کے مآخذ اور مشہور سنی محدثین ومورخین کی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حسنینّ سے دوستی مومنین پر فرض ہے اوران سے محبت کے بغیر کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہوتا اور ان سے مقابلہ کرنے والا یا بغض رکھنے والا ان مآخذ کی روشنی میں خدا اور رسول خدا کا دشمن قرار پاتا ہے۔ ترمذی، ابن ماجہ، ابن حضر، امام احمد بن حنبل، حاکم، ابوبکر سیوطی، ابو سعید خدری، سبط ان الجوزی، عباسی خلیفہ ہارون الرشید، مؤرخ طبری حضرات وغیرہ نے عبداللہ بن عمر، یعلی بن مرہ، سلمان فارسی ودیگر اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے ایسی احادیث نقل کی ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں سے محبت و دوستی کا اظہار فرمایا ہے جو حسنین کریمینّ سے محبت و دوستی رکھتے ہیں اور ان لوگوںکے ساتھ نفرت و عناد کا اعلان فرمایا ہے جو امام حسنّ و امام حسینّ سے دشمنی رکھتے اور بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ نیز ان احادیث میں ان لوگوں کے لئے جنت نعیم کی بشارت دی گئی ہے جو حسنینّ سے محبت کرتے ہیں اور ان لوگوں کے جہنم واصل ہونے کی خبر دی گئی ہے جو ان دونوں سے بغض وعناد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے بعض حوالوں میں حضرت امام حسینّ کے ماں باپ کا بھی ذکر ہے اور یہ ارشاد نبوی نقل کیا گیا ہے کہ ”جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں (حسنینّ)اور ان کے ماں باپّ سے محبت کی، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے برابر مقام پائے گا۔ “ان مفاہیم کی حامل احادیث میں یہ حدیث بھی شامل ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر ہیں اور اس کو ابن عبد البر، ابو حاتم اور محب طبری نے روایت کی ہے۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسنّ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا”من احبنی فلیحب ہذین“۔۔ترجمعہ ۔۔۔جس نے مجھ سے محبت کی اسکو چاہئے کہ ان دونوں(حسنینّ) سے بھی محبت کرے۔

مذکورہ احادیث نبوی کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اہل بیت رسول کے ساتھ دشمنی رسول خدا کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے اور ان سے محبت کا مطلب خدا و رسول سے چاہت کا اظہار ہے۔ ان احادیث کے مفاہیم کو ایمان کے اصول و شرائط کے تحت پرکھنا چاہئے کیونکہ تکمیل ایمان کی شرط عشق رسول ہے جس کے بغیر مسلمان اخروی فلاح نہیں پا سکتا۔ چنانچہ شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے کہا ہے کہ
اسلام کے دامن میں بس دو ہی تو چیزیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اک ضربِ یدالہیّ اک سجدہ شبیریّ
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

اسی طرح آل محمد سے عشق ومحبت کے بغیر عشق رسول ادھورا ہے جس کا مطلب ایمان میں نقص ہے لیکن کربلا میں یزید لعین نے ہزاروں افراد کا لشکر بھیج کر نہ صرف اہل بیت رسول کی توہین کی بلکہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کو بے دردی سے شہید کیا اور رسول زادیوں کو کوفہ و شام کے بازاروں میں سر برہنہ پھرایا، درباروں میں کئی کئی گھنٹوں ٹھہرایا اور پابند سلاسل کیا جن کی محبت کو پیغمبر اسلام نے امت پر فرض قرار دیا تھا۔

عہد حاضر میں اسوہ شبیریّ پر عمل پیرا رہتے ہوئے انسانیت کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانا اور حسینیتّ کے پیغام کو عام کرنا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ ہم محرم الحرام اور عزاداری حسینّ کے ساتھ ان ایام میں مسلمان عالم کے علاوہ حق وحقیقت اور حریت و آزادی کے علمبرداروں کو تسلیت پیش کرتے ہیں۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 111820 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More