ہم کیوں مر رہے ہیں

ہم کیوں مر رہے ہیں ؟ کچھ عجیب سی بات ہیکہ اس موضوع پر بات کی جائے،لیکن اب دینا میں تحقیق نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے، سائینسدان اور ڈاکٹر یہ جاننا چاہتے ہیں۔ کہ انسانوں کی موت کے اسباب کیا ہیں۔ بھارت اشوک کمار ایک ایک گاون میں جاکر عجیب و غریب سوالات کرتے ہیں۔وہ گھروں میں جا کر پوچھتے ہیں۔ آپ کے گھر میں گذشتہ چھ مہینوں میں کسی کی موت تو نہیں ہوئی؟ اگر ہوئی تو کن حالات میں؟ مرنے والے کو کیا بیماری تھی؟ علاج کہاں چل رہا تھا؟ بلڈ پریشر، ذیابطیس، یا ایچ آئی وی ایڈز جیسی کوئی بیماری تو نہیں تھی؟ شراب یا سگریٹ کا شوق تھا، اور اگر ہاں تو کس حد تک؟اشوک کمار محکمہ مردم شماری کے ملازم ہیں، سوالات کی فہرست لمبی ہے، لیکن ،، دس لاکھ لوگوں کی موت کے اسباب جاننے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ زبانی پوسٹ مارٹم جی ہا سوالات پر سوالات یہی ’ملین ڈیتھس سٹڈی‘ کا مقصد ہے جس کے تحت ’زبانی پوسٹ مارٹم‘ کے ذریعے بھارتی حکومت اور ایک غیر سرکاری ادارہ ’سینٹر فار گلوبل ہیلتھ ریسرچ‘ یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں لوگ کن بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے مرنے کا سبب کیا ہے؟ اس غیر معمولی پراجیکٹ کے تحت ملک کے کچھ مخصوص علاقوں میں دس لاکھ لوگوں کی موت کی ممکنہ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت میں تو یہ تحقیق اب اپنے آخری مراحل میں ہے۔لیکن پاکستان میں اب تک کوئی ایسی تحقیق نہیں ہورہی ہے کہ جس سے پتی چلایا جاسکے کہ ہمارے لوگ گاؤں دیہاتوں اور شہروں میں کن بیماریوں سے ہلاک ہورہے ہیں۔ اور یہ بیماریاں کیوں بڑھ رہی ہیں۔دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ لوگوں کی موت ہوتی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں اکثر موت کی وجہ معلوم نہیں ہو پاتی۔پاکستان میں ہر سال بانوے ہزار بچے اس مرض کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بیماریوں سے ہلاک ہونے والے اٹھارہ فیصد بچوں کی ہلاکت کی وجہ یہی بیماری ہیپاکستان کے صوبہ سندھ میں خسرہ کی بیماری سے ایک ہفتے کے اندر سو سے زیادہ بچے ہلاک ہوگئے ہیں۔

صوبہ سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ خسرہ کی بیماری سے صوبے کے آٹھ اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ڈاکٹر صغیر احمد کے مطابق جہاں معمول کی ویکسینیشن نہ ہو اور بچے غذائی قلت کا شکار ہوں تو وہاں خسرہ کی بیماری پھیل سکتی ہے۔ پاکستان میں کینسر، امراض قلب،گردے کی بیماریاں تو ہیں ہی لیکن معمولی بیماریوں سے بھی ہلاکتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ امراض قلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ہر سال دو لاکھ پاکستانی دل کی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس مرض سے2030 تک دنیا بھر میں تئیس ملین افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔پاکستان ان 20 ممالک میں شامل ہے۔جہاں یہ خطرات ہیں۔ ملیریا جیسی معمولی بیماری بھی ہمارے یہاں جان لیوا ہے۔ صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کی 2001 سے 2012 تک کے اعداد و شمار پر مشتمل رپورٹ کے مطابق گزشتہ گیارہ سالوں میں ملیریا کی بیماری کے 6 لاکھ سے زائد جبکہ گزشتہ سال 2012 میں ملیریا کے1 لاکھ 74 ہزار افراد مریض رپورٹ ہوئے۔ملیریا بیماری کے بارے میں کراچی میں قائم انڈس اسپتال کی ڈاکٹر فزوِیہ فاروقکہتی ہیں کہ "ملیریا کے وائرس سے سب سے زیادہ 5 سال تک کے بچے اور حاملہ خواتین متاثر ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں ہر سیکنڈ میں ایک بچہ ملیریا کی بیماری کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔‘‘انھوں نے کہا کہ گزشتہ سال صرف انڈس اسپتال میں 960 ملیریا کے مریض آئے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مرض ڈینگی بخار سے زیادہ پھیل رہا ہے۔ملیریا عام بیماری ہونیکے باوجود لوگوں میں اب تک مکمل آگاہی موجود نہیں جسکے باعث بیشتر افراد زیادہ دیر رہنے والے بخار ، یرقان اور ٹائیفائید کو بھی ملیریا سمجھنے لگتے ہیں اور گھریلو ادویات سے علاج کرتے رہتے ہیں جس سے ملیریا شدت اختیار کرجاتا ہے۔ دس لاکھ لوگوں کی موت کے اسباب جمع کرنے کا خیال کیسے آیا اس بارے میں سینٹر فار گلوبل ہیلتھ ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر پربھات جھا کہتے ہیں کہ انڈیا جیسے ملکوں میں زیادہ تر اموات گھر پر ہی ہوتی ہیں اور موت کا سبب کبھی معلوم نہیں ہو پاتا۔’میرے دادا کا انتقال چوّن سال کی عمر میں اچانک گھر پر ہی ہوا تھا۔ بیس سال کے بعد جب میں نے اپنی دادی سے ان کی موت کے بارے میں پوچھا تو انھیں سب کچھ یاد تھا۔ انھوں نے بتایا کہ دادا غصل خانے میں تھے، اچانک چیخے اور وہیں گر گئے۔ ان کے جسم کا دایاں حصہ کام نہیں کر رہا تھا۔ کہانی سن کر میں نے فوراً کہا کہ انھیں شاید سٹروک ہوا تھا۔‘’تب میرے ذہن میں زبانی پوسٹ مارٹم کا خیال آیا اور میں نے حکومت سے رابطہ کیا۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگ کن بیماریوں کی وجہ سے مر رہے ہیں تو حکومت کی پالیسیوں اور حفظان صحت کے نظام میں ان بیماریوں پر زیادہ توجہ دی جاسکتی ہے۔‘ڈاکٹر جھا کا خیال ہے کہ تحقیق اس سال مکمل ہوجائے گی اور اس کے نتائج یکجا کرنے میں ایک دو سال کا وقت اور لگے گا۔ لیکن تحقیق کے دوران ہی بہت سے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک میں ملیریا سے مرنے والے لوگوں کی تعداد ڈبلو ایچ او کے تخمینوں سے تیرہ گنا زیادہ ہیں!
لیکن عالمی ادارہ صحت ان اعداد و شمار سے متفق نہیں ہے۔ انڈیا میں ادارے کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ تعداد غیرمعمولی طور پر زیادہ اور جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں ان کی مزید تفتیش کی جانی چاہیے۔ ’ کیونکہ بخار صرف ملیریا کی وجہ سے ہی نہیں ہوتا۔‘

تحقیق سے وابستہ ڈاکٹر سریش راٹھی کہتے ہیں کہ سانپ کے کاٹنے سے مرنے والوں کی تعداد نے بھی انھیں حیرت میں ڈال دیا۔ ’ڈبلیو ایچ او کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال پچاس ہزار لوگ سانپ کے کاٹنے سے مرتے ہیں، ہماری ریسرچ کے مطابق صرف ہندوستان میں ہی مرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔‘اشوک کمار اور ان کے تقریباً ایک ہزار دیگر تربیت یافتہ ساتھی جو معلومات اکٹھی کرتے ہیں وہ دو مختلف ڈاکٹروں کو بھیجی جاتی ہیں اور ان معلومات کی بنیاد پر وہ موت کی ممکنہ وجہ کا تعین کرتے ہیں۔ اگر وہ اتفاق نہیں کر پاتے تو ایک سینیئر ڈاکٹر کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔موت کا سبب معلوم ہونے سے وسائل کے بہتر استعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے، اور الگ الگ علاقوں میں جن بیماریوں کا زیادہ زور ہے وہاں انھیں کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔پروفیسر جھا کہتے ہیں کہ ’مرنے والے کی زندگی کا جائزہ لینے سے آپ کو موت کی وجہ بھی معلوم ہوتی ہے اور لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔وہ سگریٹ نوشی کی مثال دیتے ہیں جسے کنٹرول کرنے کے لیے اب حکومت نے سخت اقدامات کیے ہیں۔ ہندوستانی فلموں میں سگریٹ نوشی کے مناظر پر پہلے سے ہی پابندی ہے اور حالیہ بجٹ میں حکومت نے سگریٹ پرڈیوٹی میں بھاری اضافہ کیا ہے۔پروفیسر جھا کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی عمر اوسطاً دس سال کم ہوجاتی ہے۔اگرچہ بہت سے ماہرین مانتے ہیں کہ ’زبانی پوسٹ مارٹم‘ میں غلطی کی گنجائش رہتی ہے لیکن لندن سکول آف ہائیجین سے وابستہ ڈاکٹر سنجے کنرا، جن کا اس تحقیق سے کوئی تعلق نہیں ہے، کہتے ہیں کہ ملین ڈیتھس سٹڈی سے ہندوستان کو فائدہ ہوگا۔’یہ ایک اچھی کوشش ہے۔۔۔ لیکن حکومت کو ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جس میں ہر موت کا رجسٹریشن لازمی ہو۔۔۔ صرف کچھ مخصوص علاقوں میں نہیں۔پروفیسر جھا کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں لوگ کھل کر بات کرتے ہیں، چاہے موت خود کشی سے ہوئی ہو یا ایڈز جیسی کسی بیماری سے۔ اور موت چونکہ ذہن پر گہرا نقش چھوڑتی ہے اس لیے لوگوں کو تفصیلات برسوں تک یاد رہتی ہیں۔تو کیا ہر وقت موت کے ذکر سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی؟ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا اصول یہ ہے کہ جو گزر گئے ہیں ان کی زندگی کا مطالعہ کرو تاکہ جو زندہ ہیں ان کی مدد کی جاسکے۔پاکستان میں حکومت کا سارا زور پولیو کے قطروں کی وکسین پلانے پر ہے، لیکن بچے جن دوسری بیماریوں سے ہلاک ہورہے ہیں، ان پر کوئی توجہ نہیں ساری دنیا میں ایبولا سے ہونے والی ہلاکتوں کا شور ہے۔ عالمی اداروں نے پاکستان میں بھی وارننگ جاری کی ہے۔ ایبولا کے نتیجے میں ہلاکتیں 4000 سے تجاوز کر چکی ہیں۔ اس سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں لائبیریا، گنی اور سیئیرالیون شامل ہیں۔اس کے علاوہ اخراجِ خون کی بیماری کے نتیجے میں سینیگال میں آٹھ جبکہ امریکہ میں ایک ہلاکت واقع ہو چکی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ہوئی اڈوں پر ایبولا کے مریضوں کی سکریننگ شروع کی جا رہی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے جس ملک میں سگریٹ ، پان گٹکے پر پابندی نہ لگائی جائے، جہاں زھریلی شراب نوشی سے لوگوں کی ہلاکت ہوتی ہوں۔ وہاں بیماریوں کی روک تھام کی کسے پروا ہوگی۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہر جگہ سرعام شراب کی غیر قانونی فروخت جاری ہے اور انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے ہمیں چھوٹے بڑے شہروں میں منشیات خاص طور پر گٹکا ، مین پڑی سرعام دکانوں پر سجے ہوئے اور بکتے ہوئے نظر اتے ہیں ، جبکہ قانونی طور پر ان اشیا پر بندش ہے ایسے میں جب لوگوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں انتظامیہ کو مثبت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے صحت کے مسائل روز بروز بگڑتے جارہے ہیں مگر انتظامیہ کہیں نظر نہیں آتی ۔ سندہ میں صحت کی سہولیات سب سے زیادہ خراب ہیں ایسے میں منشیات کا سرعام فروخت مزید پیچیدگیوں کا سبب بن رہا ہے اور ان میں سب سے ذیادہ نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کیوں مر رہے ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386628 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More