بلوچستان:دہشت گردی میں مسلسل اضافہ....حکومت کہاں ہے؟

 بلوچستان میں دن بدن بدامنی و دہشتگردی میں بڑھوتری ہورہی ہے۔ ہر نکلتے سورج کے ساتھ خوف و ہراس میں اضافہ ہورہا ہے۔ تواتر اور تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں موت و خون کا کھیل مزید بھیانک ہورہا ہے۔ یوں تو بلوچستان میں غیرملکی مداخلت کی وجہ سے امن و سکون ایک عرصے سے خواب بنا ہوا ہے، لیکن گزشتہ چند دنوں سے بلوچستان میں عوام پر موت کے منڈلاتے سائے مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ پہلے رواں ہفتے اتوار کے روز بلوچستان کے صنعتی شہر حب کے نواحی علاقے ساکران میں 7 افراد نے گن پوائنٹ کے زور پر پنجاب سے مزدوری کرنے کے لیے آئے ہوئے 11 مزدوروں کو اغوا کرکے انہیںگولیاں مار کر قتل کردیاتھا۔ جبکہ جمعرات کے روز صوبہ بلوچستان کے دارا لحکومت کوئٹہ کے علاقے ہزارگنجی میں سبزی فروشوں پر حملوں اور آرچر روڈ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے کے قریب خودکش حملے کے نتیجے میں کم از کم 16 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ 50 سے زاید زخمی ہو ئے ہیں۔ حکام کے مطابق اس حملے میں خودکش حملہ آور جے یو آئی ف کے سربراہ مولا نا فضل الرحمن کو نشنا نہ بنانا چاہتا تھا، مگر مولانا فضل الرحمن اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔ دھماکے میں جے یو آئی کے درجنوں کار کن بھی زخمی ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن بلٹ پروف گاڑی میں ہونے کی وجہ سے محفوظ رہے، جبکہ گاڑی کو شدید نقصان پہنچا اور اس کے ٹائرپھٹ گئے۔ چار گاڑیاں اور 6 دکانیں تباہ ہوگئیں۔ جبکہ کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزارہ گنجی میں آٹھ سبزی فروشوںکو شدت پسندوں نے جمعرات کی صبح ایک بس میں اس وقت نشانہ بنایا ،جب وہ سبزی منڈی سے خریداری کے بعد شہر واپس جا رہے تھے۔ ایس ایس پی کوئٹہ اعتزاز احمد کے بقول دو موٹر سائیکلوں پر سوار چارمسلح افراد نے بس میں سوار 8 افراد کو سروں پر گولیاں مار کر قتل کیا۔ اس واقعے کے بعد کوئٹہ کے ایک اور علاقے کرانی روڈ پر بھی فائرنگ کے نتیجے میں مزید ایک شخص کے قتل کی اطلاعات ہیں، جبکہ کچھ ہی دیر بعد نواحی علاقے قمبرانی روڈ پر نامعلوم افراد نے سیکورٹی فورسز کی ایک گاڑی کو بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 3 افراد قتل اور 20 افراد زخمی ہوئے۔ وزیراعظم نواز شریف ، صدر ممنون حسین ، قائد متحدہ الطاف حسین ، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی، آفتاب شیرپاﺅ و دیگر رہنماﺅں نے مولانا فضل الرحمٰن پر خودکش حملے اور ہزار گنجی اور قمبرانی میں فائرنگ اور دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے ہلاکتوں پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ جبکہ متعدد مذہبی رہنماﺅں نے مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کرواکر پس پردہ حقائق سے قوم کو آگاہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملہ کسی بڑے گیم پلان کا حصہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن پر حملے کی تحقیقات کرواکر واقعے میں ملوث عناصر کو سخت ترین سزا دی جائے۔ ملک دشمن عناصر پاکستان میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں اور پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملے اور مزدوروں و سبزی فروشوں کی کلنگ ناقص حکومتی انتظامات کی چغلی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جمہوری سسٹم میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک ہی گاڑی کے دو پہیے سمجھے جاتے ہیں اور ہر دو کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ملک میں گڈگورننس قائم کی جائے، امن و امان کی صورتحال بہتر سے بہتر بنائی جائے ،تاکہ عوام سکون کی نیند سو سکیں، لیکن بدقسمتی سے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردی نے امن و امان کی صورتحال کو انتہائی مخدوش کر دیا ہے۔ آئے روز دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن اس کے سد باب کے لیے حکومت نے کوئی مستقل پلان تک نہیں بنایا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے سب سے زیادہ واقعات کوئٹہ اور سریاب روڈ پر پیش آتے ہیںاور ایک عرصے سے پیش آرہے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان بہت زیادہ آبادی والا شہر نہیں ہے اور نہ ہی سریاب روڈ اس قدر طویل ہے کہ وہاں کی سیکورٹی انتظامات میں بہتری نہ لائی جاسکے، لیکن اس کے باوجود کوئٹہ میں دہشتگردی کے ہر واقعہ کے بعد حکومت دہشتگردوں کو پکڑنے کے اعلانات تو کرتی ہے، لیکن سیکورٹی کے انتظامات نہیں کر پاتی، حالانکہ کم آبادی والے شہر میں سیکورٹی کے انتظامات کرنا قدرے آسان ہے، لیکن حکومت اس کے باوجود ناکام ہے۔ اگر حکومت چاہے تو کوئٹہ شہر میں بلاتفریق آپریشن کر کے دہشتگردوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کو یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں غیر ملکی عناصر ملوث ہیں، کئی بار اس کے شواہد سامنے آچکے ہیں اور سیکورٹی ادارے بھی اس بات کا اقرار کر چکے ہیں، حکومت خود بھی کئی بار اس بات کو میڈیا کے سامنے لاچکی ہے۔ دو سال قبل آئی جی ایف سی میجر جنر ل عبیداللہ خان نے کہا تھا کہ بلوچستان میں 20 دیگر ممالک کی ایجنسیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہیں، جن کی حرکتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سرگرداں ہیں۔ ایسی کارروائیوں میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بیٹھے ہوئے عناصر ملوث ہیں۔ جب اس قسم کے حقائق سامنے آچکے ہیں تو اس کے بعد بلوچستان میں سیکورٹی کو مزید متحرک و فعال کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔ ان حالات میں تو سیکورٹی کے انتظامات مزید بہتر کیے جانے چاہیے، لیکن حکومت تمام غیر ملکی سازشوں کے باوجود سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ وطن عزیز چاروں طرف سے دشمنوں کے گھیراﺅ اور حصار میں ہے۔ یہ حساس صورت حال ملک کی بقا، استحکام اورسا لمیت کو لاحق خطرات وخدشات میں مسلسل اضافے کی نشان دہی کرتی دکھائی دے رہی ہے، لیکن ان پر خطر حالات وواقعات کے باوجودملک کے اندر عمومی طور پر احساس وبیداری، یکجہتی ویکسوئی اور اجتماعیت واتفاق کی وہ فضا قائم نہیں ہو پارہی، جو وقت کا تقاضا ہے۔ اس کے برعکس یہاں ہر سطح پر انتشار، خلفشار، نفرت، مخاصمت، تعصب اور ذہنی وفکری تضاد و ٹکراﺅ کا افسوس ناک منظر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عالمی قوتوں کے خطے سے وابستہ دیرینہ مفادات کی تکمیل کے راستے میں مملکت خداداد پاکستان کا وجود ایک بڑی رکاوٹ ہے، جسے دور کرنے کے لیے بیرونی طاقتیں مل جل کر زور لگا رہی ہیں اور اس مذموم ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یکبارگی وطن عزیز کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر شدید مشکلات ،بحرانوں اور پریشانیوں میں الجھایاجارہا ہے۔ بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن پر حملہ اور دہشت گردی کے دیگر واقعات ملک کے خلاف کھیلے جانے والے عالمی اور طاغوتی کھیل کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان دشمن ایجنسیاں یہاں کبھی فرقہ واریت کے عنوان سے قتل وغارت برپا کردیتی ہےں تو کبھی صوبائی اور لسانی منافرت پھیلانے کے لیے مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور طبقات کو نشانہ بناتی ہیں، جس کے نتیجے میں ملک کا امن و سکون تہہ وبالا ہوتا ہے اور پس پردہ عالمی طاقتیں مقامی آلہ کار عناصر کے ذریعے مذموم عزائم کو یقینی بنانے کے لیے راستہ ہموار کرتی ہیں۔ بلوچستان خاص طورپر ایک طویل عرصے سے ملک دشمن قوتوں کا ہدف بنا ہوا ہے، جہاں فرقہ وارانہ قتل وغارت ،بم دھماکوں اور تخریب کاری کے الم ناک واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں ملکی سلامتی کے حوالے سے حکومت کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کہ بلوچستان میں متحرک دہشتگردوں کی بلاتفریق بیخ کنی کر کے بلوچستان میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 624296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.