اسلامی انقلاب کب آئے گا؟

اسوقت ملک پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے ہر پارٹی میں جاگیردار،سرمایہ دار،طاقت ور سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے اس طبقہ کی تعداد صرف پانچ فیصد ہے پچانوے فیصد عام عوام الیکشن کے دنوں ان حکمرانوں ،سیاستدانوں کا دیدار کرتے ہیں جب الیکشن ہوجاتے ہیں تو یہ اپنے محلات میں محسور ہوجاتے ہیں ان تک عام عوام کی رسائی ناممکن ہوجاتی ہے پاکستان کے عوام ہر مرتبہ ان کے جھوٹے دعووں پر یقین کرکے ان کو منتخب کروا دیتے ہیں تاکہ ان کو ریلیف مل سکے مگر ہر دفعہ ان کے ساتھ دھوکا ہوتا ہے ان کی امیدوں کا قتل عام اب بھی جاری و ساری ہے پچانوے فیصد کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے والے سیاست دان غریب عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہوگئے ہیں کیونکہ یہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوتے ہیں انھیں عوام کے مسائل کادراک ہی نہیں ہو پاتا اسمبلیوں میں جاکر یہ ریڈ زون بنا لیتے ہیں کہ اس علاقے میں ہمیں ووٹ دینے والے غریب،مفلوک الحال لوگ نہیں آسکتے ان کا ادھر آنا منع ہے یہ معاملہ پاکستان کی کسی ایک پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ ساری پارٹیوں کے ساتھ ہے سوال یہ ہے کہ اسمبلیوں میں غریب کی نمائندگی کتنی ہے ؟ کیا کبھی کسی غریب کو انکی اکثریت کے مطابق بڑی سیاسی پارٹیوں نے حصہ دیا جواب نفی میں ملے گا آخر کیوں ؟ اکثریت غریب کی ہے مگر اسمبلی جسے شوریٰ کہا جاتا ہے وہاں غریب طبقہ نہ ہونے کے برابر کیوں ؟ ن لیگ اس وقت برسر اقتدار ہے اس کا جائزہ لیا جائے کہ اس پارٹی نے کتنے غریب لوگ اسمبلی میں بھیجے ہیں ؟ جن حضرات سے میں واقف ہوں انکی کی زندگیاں گزر گئیں اپنے علاقے میں ن لیگ کی وکالت کرتے ہوئے مگر ان غریبوں کو ن لیگ نے ٹکٹ نہیں دئیے ،اہم عہدوں پر وہی سرمایہ دار نظر آرہے ہیں ہمارے لاہورکی معروف غریب شخصیات مشتاق مغل ،ملک محمود الحسن ،ملک شوکت علی،سردار نسیم ،عثمان تنویر بٹ کے علاوہ ہزاروں ایسے لوگ ہیں جوہمیشہ ن لیگ کے ورکر رہے جیلوں ہتھکڑیوں سے نہیں گھبرائے مگر انھیں صوبائی یا قومی اسمبلی کے لئے پرپوز نہیں کیا گیا اسی طرح پی پی پی میں بھٹو نے اپنی سیاست کو چار چاند لگوانے کیلئے شروع میں ایک دو غریبوں کو ٹکٹ دئیے بعد میں ختم ۔۔۔ ان کا غریب کارکن بھی ان سے مایوس نظر آرہا ہے پی ایس ایف کے گذشتہ سابق چیف آرگنائزیشن سید راحیل شاہ جماعت کی طرف سے ا ہمیت نہ ملنے کی وجہ سے کنارہ کش ہوگے ہیں نئی ابھرتی پارٹیاں تحریک انصاف ،عوامی تحریک ہیں ان کے ارد گرد بھی تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہاں بھی غریب کو نعرے لگانے،جلوس نکالنے کیلئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جارہا ہے جبکہ اسٹیج پر غریب کارکن نظر نہیں آتیگر کوئی اسٹیج پر چڑھ جائے تو اسے اچھوت سمجھ کراتار دیا جاتا ہے انکی جگہ وہ سرمایہ دار،جاگیردار نظر آرہے ہیں جو اپنے مقاصد کے لئے ہمیشہ تیور بدلتے رہے ہیں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے قائدین ان طاقت ور سرمایہ داروں جاگیرداروں کے مفادات کو کیسے پس پشت ڈال سکیں گے ؟ جو ہر روز لاکھوں روپے بطور invester لگا رہے ہیں جب ان دھرنا برادری کی حکومت آئے گی تو ان جماعتوں کے قائدین کس طرح انکی خواہشات کے پلوں کے سامنے بند باندھ سکیں گے؟ ہر ذی شعور اس حقیقت سے با خبر ہے کہ سابقہ پارٹیوں کی طرح مذکورہ بالا نومولود پارٹیاں بھی سابقہ روش کو ختم نہیں کر سکیں گئیں کیونکہ جمہوریت کی فطرت ہی جاگیردارنہ،سرمایہ دارنہ ہے یہاں تو اسکی کی گاڑی چلے گی جو سرمایہ دار ،طاقت ور ہے غریب تو بس نعرے لگا نے کے لئے ہی ان پارٹیوں میں شامل ہوتا ہے تاکہ میرے بیٹے ،بھائی،بیٹی کو سرکاری نوکری ہی مل جائے اس ظالم نظام کی فطرت تو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا آپ دنیا بھر میں قائم اس نظام کے کرتے دھرت دیکھیں سرمایہ دار ہی نظر آئیں گے اس نظام میں میرٹ، صلاحیت، تقویٰ، اخلاص،انسانی ہمدردی کے اوصاف کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا چلتا ہے تو سرمایہ۔۔۔۔۔ اوصاف تو اسلام کے لاریب نظام خلافت نے متعین کئے ہیں جس میں غریب باصلاحیت ،تقویٰ، اخلاص کا حامل نیک سیرت مسلمان انسانوں کا خلیفہ بنا دیا جاتا ہے یہاں تو کوئی امیدوار نہیں ہوتا کوئی بالغ رائے دہندگی کا دہندہ نہیں ہوتابلکہ سربراہ مملکت کو تو اہل الرائے ،صالح لوگ مقرر کرتے ہیں جمہوریت میں تو میرے مسلمان بھائیو! حریص لوگ اقتدار کے امیدوار ہوتے ہیں جنھیں اکثریت منتخب کرتی ہے جبکہ قرآن اپنے نبی ﷺ کو اکثریت کی بات ماننے سے منع کر رہا ہے کہ اے نبی ﷺ اگر آپ اکثریت کی بات مانیں گے تو یہ آپ کو گمراہ کردیں گے(القرآن ) اہل جمہوریت عہدے جاہ و جلال رعب دبدبے کے لئے حاصل کرتے ہیں جبکہ اسلام کے عادلانہ نظام میں حکمران خلیفہ کی ذمہ داری بہت بھاری ہوتی ہے ایک ڈیوٹی ہوتی ہے اسی لئے با صلاحیت لوگ بھی اسے سرانجام دینے سے گھبراتے ہیں جس کو مسلمان ی ذمہ داری سونپ دیں وہ عوام کا خادم ہوتا ہے ،مخلص ہوتا ہے اپنی عوام کے ساتھ،اﷲ تعالیٰ کوبھی جواب دہ ہوتا ہے اپنے ہر عمل کا۔۔۔۔۔۔ فضول خرچی نہیں ہوتی عوام کے پیسے سے۔۔۔۔ کیونکہ عوام کا پیسہ ایک امانت ہوتا ہے انکے پاس۔۔۔۔ جسے وہ امانت سمجھتے ہیں۔ اسوقت مسلمانوں کو وہ نظام چاہیے جو اﷲ کا نظام ہے جس میں غریب کو اہمیت بنیادی طور پر دی جاتی ہے جب یہ نظام قائم ہوجائے گا تو عوام سمجھے گی کہ انقلاب اب آگیا ۔۔۔۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عوام ہر ایک سے پوچھتی رہے گی کہ انقلاب کب آئے گا؟عوام کے لئے پیغام ہے کہ خدارا ! اس نظام کی طرف پلٹو جو تمہارا حقیقی نظام ہے اس کے بغیر تمہارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.