کراچی میں پیپلزپارٹی کا جلسہ: کیا کھویا کیا پایا؟

پیپلز پارٹی نے کراچی میں ایک شاندار جلسہ کیا ہے۔ جلسے میں شرکا کی کافی تعداد تھی، اس لیے جلسے کو ناکام نہیں کہا جاسکتا۔ پیپلز پارٹی کے جلسے کی سیکورٹی کے لیے 2 ہزار500 پولیس اہلکار وں کے ساتھ ساتھ خفیہ اداروں کے سادہ لباس میں اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔ جلسہ گاہ کے داخلی راستوں پر 112واک تھرو گیٹ نصب کیے گئے تھے۔ ریپڈ رسپانس فورس کے 300 سے زاید کمانڈوز کو جلسہ گاہ میں تعینات کیا گیا۔ جلسہ گاہ میں نصب 300سے زاید سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول روم نشتر پارک میں قائم کیا گیا تھا۔ جلسے کی سیکورٹی کو مزید فول پروف بنانے کے لیے نیو ایم اے جناح روڈ سمیت کئی شاہراہوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا۔ جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے پیپلزپارٹی نے بھی تحریک انصاف کی طرح اپنے جلسے میں ناچ گانے کا انتظام کیا تھا، جس سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے بھی جلسے میں شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق کراچی میں پیپلز پارٹی کے جلسے کے دوران نوجوان ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے جلسہ گاہ میں داخل ہوئے اور جو خواتین دوردراز سے قافلوں میں آئی تھیں، جب جلسہ گاہ پہنچیں تو انہوں نے وہیں اپنا بناﺅ سنگھار شروع کردیااور خواتین کی بڑی تعداد پارٹی ترانوں پر رقص بھی کر رہی تھیں، جوانوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے اور بوڑھیاں بھی رقص کناں تھیں۔ اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول کی سیکورٹی بھی خواتین پر مشتمل تھی۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کا کہنا تھا کہ دھرنے اور ناچ گانے ملک میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ تحریک انصاف کے جلسوں کے بعد پیپلز پارٹی کے جلسے میں بھی ناچ گانے کو عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ متعدد مذہبی و سیاسی رہنماﺅں نے جلسوں میں ڈانس اور ناچ گانے کو مغربی کلچر کے فروغ کی مذموم کوشش قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دو قومی نظریے پر وجود میں آیا ہے۔ مسلمانوں نے ہندوستان سے آزادی اس لیے حاصل کی تھی کہ یہاں پر قرآن وسنت کا عادلانہ نظام نافذ ہو، اس لیے پاکستان حاصل نہیں کیا تھا کہ یہاں نوجوانوں کو ناچ گانے پر لگایا جائے گا۔ کچھ لیڈر ملک کے نوجوانوں کو گمراہی کی طرف لے جا رہے ہیں، وہ اپنے مفاد اور اپنے جلسوں کی تعداد بڑھانے کی خاطر جلسوں میں ناچ گانے اور مادر پدر آزاد کلچر کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ کچھ سیاست دان جلسوں میں مغربی کلچر کو رواج دے کر پاکستانی نوجوان نسل کو ہماریمعاشرتی ثقافت سے دور لے جانا چاہتے ہیں، وہ سیاست دان ملک میں مغربی تہذیب کو رائج کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے جلسوں میں ناچ گانے اور مغربی کلچر کو روج دیا اور اب پیپلز پارٹی نے بھی اسی کے نقش قدم پر چل کر ملک کی نوجوان نسل کے لیے اچھا نہیں کیا، اس سے نوجوانوں کے اخلاق بگڑ جائیں گے۔یہ پاکستان کے نوجوانوں کو راہ راست سے ہٹانے کی ایک مذموم کوشش ہے، جس کی ہر لحاظ سے مذمت کی جانی چاہیے اور مشرق میں مغربی کلچر کو روکنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ حالانکہ پیپلز پارٹی کے شرجیل انعام میمن نے عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں میں ناچ گانے کی مذمت کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا تھاکہ سڑکوں پر ناچ گانے والوں کا پاکستان ہم نہیں چاہتے۔ جبکہ پاکستان تحرےک انصاف کے چیئرمےن عمران خان نے بھی سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ کی صوبائی حکومت کلچر کے فروغ کے نام پر ناچ گانے مےں مصروف ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر تو دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید کر رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب مشترکی طور پر پاکستان میں ناچ گانے کے کلچر کو رواج دے کر ملک میں مغربی کلچر کو عام کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ملک میں ناچ گانے کو فروغ دے کر نوجوان نسل کو برباد نہ کریں۔جبکہ یہ بات بھی واضح ہے کہ انقلاب کا نعرہ لگانے والے لیڈر اپنے جلسوں میں کوئی بہتر انتظام نہیں کر پاتے ہیں ۔ان کے جلسوں میں انتظامات ناقص ہوتے ہیں، جو لوگ اپنے جلسوں میں بہتر انتظامات نہ کرسکیں وہ انقلاب کیا لائیں گے۔
دوسری جانب کراچی جلسے میں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف کو کس نے اجازت دی کہ وہ وفاقی حکومت کے تمام وسائل دھرنا ختم کرنے میں لگا دیں ان کے اوپر 20 کروڑ عوام کی بھی ذمہ داری ہے، پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں بھی دھرنے دیکھے مگر اپنی ذمہ داری نہ بھولی۔ آج ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہورہی ہے، شیر امریکا میں بھیگی بلی بن گیا، شہید بھٹو نے چین کو ہمارا دوست بنایا، لیکن وزیر خارجہ اور کٹھ پتلیوں کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا۔ آج لوگ کہتے ہیں ایک طرف پنجاب میں ترقی ہے اور دوسری طرف چھوٹے صوبوں میں ترقی نام کی کوئی چیز نہیں، لیکن لوگ سندھ کی بات کرنے سے پہلے بھول جاتے ہیں کہ پی پی کے دور کے علاوہ 68 سالہ تاریخ میں سندھ کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا گیا، پنجاب میں قیام پاکستان کے پہلے سے خوشحالی تھی، سندھ کو کچھ کہنے سے پہلے صوبے کو دیکھیں کہ بھٹو کے نظام نے پاکستان کو کیا کیا دیا ہے، ہم نے غریبوں کو روزگار دیا، ہسپتال بنوائے اور تعلیم کا انتظام کیا، ہم نے سندھ میں جو کام کیا وہ دیکھنے والوں کو نظر نہیں آیا، کیونکہ چند طاقتیں اسے دکھانا نہیں چاہتیں، عوام صرف شوبازی اسکیم کو گڈ گورننس نہیں مانتے، گڈ گورننس صرف عوام کی خدمت کرنے سے آتی ہے، ہم نے عام بس کو میٹرو بنا کر عوام کو بے وقوف نہیں بنایا، کل ایک بس کو جہاز کا نام دے کر بھی عوام کو بے وقوف بنایا جائے گا۔ مبصرین کے مطابق بلاول کی ترقی کے حوالے سے حکومت پر تنقید بالکل بجا، لیکن خود سندھ حکومت نے بھی تو کچھ نہیں کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کب تک بھٹو صاحب، بی بی بے نظیر اور دیگر کی اموات کے سانحات اور جذباتی نعروں سے زندہ رہ سکتی ہے۔ پی پی ایک عرصے سے جذباتی نعروں پر حکومت کر رہی ہے، لیکن عوام کے لیے کچھ بھی نہ کر پائی ہے۔ سندھ میں ایک طویل عرصے سے پیپلزپارٹی برسراقتدار ہے، لیکن ابھی تک عوام کو کوئی سہولت میسر نہ آئی۔ خود لاڑکانہ میں ہی دیکھ لیا جائے تو وہاں کی پسیماندگی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہاں کوئی حکومت ہے ہی نہیں، جبکہ اس کے علاوہ سندھ کے دوسرے علاقوں کی حالت تو اس سے بھی زیادہ قابل رحم ہے۔ سندھ کے لوگ آج بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں، لیکن طویل عرصے سے سندھ پر برسراقتدار پیپلز پارٹی نے ان کے لیے کچھ نہیں اور سندھ میں ترقی نام کی تو کوئی چیز دکھائی ہی نہیں دیتی۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 43 سالوں میں سندھ کے لیے کیا کیا ہے؟۔ سندھ کے غریب عوام آج بھی ٹوٹی ہوئی جھونپڑیوں میں بھوک و پیاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔

مبصرین کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے کراچی میں شاندار جلسہ کیا ہے،لیکن ، بڑے جلسے کرنے کی صلاحیت رکھنے والی پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل انتہائی خطرے میں ہے۔ اس کی سیاسی عملداری کسی زوال پذیر سلطنت کی طرح سکڑتی جارہی ہے۔ الیکشن 2008 میں ایک کروڑ 6 لاکھ سے زاید ووٹ لے کر 119 جنرل نشستیں حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہنے والی پیپلز پارٹی 2013 کے الیکشن میں صرف 69 لاکھ ووٹ لے کر 45 جنرل نشستیں ہی لے سکی۔ مقبولیت کے اعتبار سے وہ تیسرے نمبر پر آئی۔ زوال کا سفر ضمنی الیکشن میں بھی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب، خیبر پی کے اور بلوچستان میں تیزی سے سکڑتی ہوئی پیپلز پارٹی کی سیاست کو کراچی کا جلسہ کتنا سہارا دے سکے گا، تو بغیر زیادہ سوچ بچار کے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زیادہ سہارا نہیں دے سکے گا، بلکہ اس کا اثر سیاست میں ”ویک اینڈ گیٹ ٹو گیدر“ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو جس اہم نکتے کی طرف توجہ بذول کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ”عرب سپرنگ“ اور اردگرد کے ملکوں میں مضبوط ہوتی ہوئی جمہوریتوں نے پاکستانی عوام بالعموم اور نوجوانوں کے ذہنوں پر بالخصوص اثر ڈالا ہے۔ انہیں بنیادی حقوق حاصل نہ ہونے کا غصہ ہے، انہیں مشکل سے مشکل تر ہوتی ہوئی معیشت پر غصہ ہے اور اس سب سے بڑھ کر انہیں حکمرانوں کے ”شاہانہ طرزِ زندگی“ پر غصہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ روایتی جلسے، جلوسوں اور جذباتی تقاریر کا دور گزر رہا ہے۔ اگرچہ عمران خان بھی کوئی حقیقی سیاسی تبدیلی اور نئی بات سیاست میں متعارف نہیں کرسکے، بلکہ اپنے اردگرد تیزی سے دوسری پارٹیوں سے آنے والے ”سٹیٹس کو“ کے نمائندوں کا رش بڑھاتے جارہے ہیں، لیکن چونکہ ایک تو وہ ابھی تک حکومت میں نہیں آسکے، (خیبر پی کے میں ان کی 15 ماہ کی کارکردگی کی بحث کو زیادہ اہمیت نہیں مل سکی) ۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ کو ان کے طرزِ حکمرانی میں انقلابی تبدیلیاں ہی بچا سکتی ہیں۔ عوامی فلاح کے پروگرام لانا ہوں گے، تھانے، کچہریوں میں لوگوں کو انصاف مہیا کرنا ہوگا، صحت اور تعلیم کی سہولتیں دینا ہوں گی اور اپنے طرزِِ زندگی میں تیزی سے سادگی لانا ہوگی۔ ملکی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنا ہوگا، بلدیاتی الیکشن کرادینے میں بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ انہیں ہی نہیں ان کے مخالفین کو بھی ایکسپوز کریں گے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632172 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.