بے ثمر قوانین…………کیوں بنائے جاتے ہیں!!!

لو جی سن لو ہمارے 212عزماب پارلیمنٹرین نے اپنے اثاثے جمع کرانے میں کوتاہی کردی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جو بوڑھے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے لیے جنت بنا ہوا ہے، نے ان پارلیمنٹرین کی رکنیت معطل کردی ہے۔ معطلی اور بحالی کی یہ آنکھ مچولی چنددن جاری رہے گی پھر بس…… اثاثے جمع ہوتے ہیں لیکن انکی جانچ پڑتال جس سطح پر ہونی چاہیے ویسے نہیں ہوتی……قانون سازی کرنے والے ہی قانون شکنی پر اتر آئیں تو عام شہری کیونکر قانون کی پاسداری کرنے کا سوچیں گئے؟ باہر کے ممالک میں پارلیمنٹرینز آئین سازی اور قانون سازی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں پارلیمنٹرینز انتخابات میں حصہ ہی اس لیے لیتے ہیں کہ باقی بزنس سے کہیں زیاد ہ یہ منافع بخش بزنس ہے۔ ایک دو کروڑ لگاؤ پھر اربوں کماو اور علاقے میں رعب دبدبہ الگ……اپنی حلقہ انتخاب میں سرکاری افسروں کی تعیناتی اور تبادلے مفت میں۔
کہتے ہیں کہ برطانوی حکمرانوں نے ہندوستان پر سو سال سے زائد حکمرانی کی ہے۔ مگرتاج برطانیہ کے وارث انگریز حکمرانوں نے پورے سو سال میں بمشکل بیس سے کم ’’ حکم نامے‘‘ جاری کیے ہوں گے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ تاج برطانیہ کے نمائیدے اس امر سے آگاہ تھے کہ ایک حکم نامہ جاری کرنے کے بعد اسے واپس لینے سے کیا نقصانات ہوتے ہیں……لیکن اس بات کو ہم نہ سمجھ پائے ،حالانکہ بقول میاں الہی بخش سومرو ’’ ہم خود کو آج بھی تاج برطانیہ کے وفادار سمجھتے ہیں‘‘ہمارا لمیہ یہ ہے کہ ہم نے انگریزوں کی ہر نامناسب بات کو تو قبول کر رکھا ہے مگر اچھی باتوں کو اپنانے سے مکمل پرہیز اختیار کر رکھا ہے۔ ہم نے نہ جانے کیسے کیسے قوانین ایجاد اور نافذ کر رکھے ہیں جن پر عمل درآمد کرنے کی بجائے ان کی مٹی پلید کر رہے ہیں۔

1993 میں عدالت عظمی سے اپنی حکومت کی بحالی پر قو م سے خطاب میں نواز شریف نے اعلان کیا کہ شادی بیاہ میں ون ڈش پیش کی جائیگی ، اور پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی کی ممانعت ہوگی…… ابھی تیسری بار وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے پر نواز شریف نے نہ صرف پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی بلکہ نابالغ بچوں کو سگریٹ کی فروخت بھی ممنوع قرار دے دی گئی ہے……لیکن ہم سرعام ان قوانین کی مٹی پلید ہوتے دیکھتے ہیں۔ دوکاندار پانچ سے چھ سال تک کے کمسن بچوں کو سگریٹ فروخت کرتے ہیں۔ لاری اڈے تو کنجاہ بسوں ،ویگنوں، ٹرینوں ،میں ڈرائیور اور کنڈکٹر ہی سگریٹ نوشی کر کے امتناع تمباکو نوشی قانون کی دھجیاں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ہسپتالوں میں ڈاکٹرز حضرات اور مریض سبھی امتناع سگریٹ نوشی کے قوانین کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ عوامی پارکس ہوں،کھیل کے میدان ہوں بازر ہوں ،یاپھر پولیس اسٹیشنز ہوں ،ہر جگہ سگریٹ نوشی کرکے پاکستان کا سر جھکانے کا مشغلہ جاری و ساری ہے۔

پارلیمنٹ کی راہداریاں ہوں یا کیفے ٹیریا کی رونقیں ہوں ……سگریٹ کے دھواں کی صورت میں قومی دولت کا ضیاع الگ خود ان پارلیمنٹرین کے بنائے ہوئے قوانین کا تمسخر اڑتا ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ شادی بیاہ کے مواقع پر ون ڈش کے قانون کا بھی ایسا ہی حال ہوا ہے اور ابھی تک ہو رہا ہے ۔ یہاں بھی اعلی مراعات یافتہ طبقے کی دیکھا دیکھی غریب اور متوسط طبقے نے بھی ون ڈش قانون کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اسے ’’لیرولیر‘‘ کرکے پارلیمنٹ کے باہر سوکھانے کے لیے لٹکانا مناسب خیال کیا…… ہمارے حکمران قانون سازی کر کے ان کا احترام نہیں کرتے انکی پابندی نہیں کرتے تو عوام کیونکر احترام اور پابندی کریں گے؟اس لیے میں کہتا ہوں کہ قانون سازی کرتے وقت زمینی حقائق کا ادراک کیے بنا بے تکی قانون سازی کا کوئی فائدہ نہیں ۔

ایسی بے شمار کہانیاں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن میرا مقصد تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے۔وہ بھی اگر کوئی حاصل کرنے کا خواہشمند ہے تو ورنہ میں کسی کی زبردستی تو اصلاح نہیں کر سکتا اور نہ ہی میں کالم نگاروں ،دانشوروں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں ،اپنی رائے کو تمام رائے دہندگان سے افضل سمجھتے ہیں اور اسکا اظہار بھی بڑے متکبر انہ انداز میں کرتے ہیں۔لیکن یہ عقل کل کے مالک کالم نگار ،دانشور حضرات نظام کی تبدیلی کے لیے انتخابی میدان سے دور بھاگتے ہیں……شائد انہیں اپنی اوقات کا علم ہے ۔

لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا اور اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟ ٹریفک کے قوانین سرعام رسوا ہوتے ہیں۔ اشیا ء خرد نوش کی قیمتیں بے قابو…… ملاوٹ ہر شے میں ڈنکے کی چوٹ پر کی جاتی ہے۔ رشوت خوری ہماری رگ و پے میں رچ بس چکی ہے……

کس کس قانون شکنی کا رونا رویا جائے مجھے تو اپنی بات سمیٹنے میں دشواری پیش آ رہی ہے کہ بات کو کہاں ختم کروں…… وی آئی پی کلچر ہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا ہم دن بہ دن رسوائی کی کھائی میں گرتے جائیں گے اور دنیا ہمارا تماشا دیکھتی رہے گی اور ہم پر ہنستی بھی رہے گی۔ ارباب اقتدار اور اختیار کو اپنی اداؤں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144101 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.