عمران خان سیاست دان ؟ زبان وبیان پسِ منظر کے عکاس!!!

پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان دھرنون کی شکل میں چند ہزار لوگ اکٹھا کر کے ا پنے آپ کو پاکستان کا وزیر اعظم تصور کرنے لگے ہیں ۔خواب دیکھنا ہر انسان کا حق ہے۔بعض اوقات خوبصورت خواب کی تعبیر نہایت بھیانک بھی ہوا کرتی ہے۔ہماری دعا ہے کہ وہ جلد اس ملک کے وزیر اعظم بن جائیں اور خیبر پختون خواہ کے بجائے پورے پاکستان کی کایا پلٹ دیںکیونکہ خیبر پختون خوامیںتو انقلاب غالباََ آچکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمنے خیبر پختون خوا کے سوئے اس لئے کہا ہے کہ ان کے دور اقتدار میں پہلے ہی وہاں تو دودھ اور شہید کی نہریں بہہ نکلی ہیں اور لوگ جنت کے مزے خیبر پختون خوا میں لوٹ رہے ہونگے۔وہاں کا تو ہر کا م اور پورا نظام جنت کی نوید دے رہا ہے۔ہمارے کئی دوست عمران خان کو بہترین کر کٹر تو مانتے ہیں ۔مگر سیاست دانوں کی صفوں میں ان کو شمار کرنا گناہ کبیرہ اور پرلے درجے کا اُجڈپن ،گنور پن اور احمق پن سمجھتے ہیں۔عمران خان اپنے آپ کو انگلینڈکی آکسفورڈ یورنیورسٹی کاتعلیم یافتہ کہتے ہیں۔مگر ان کی زبان تو یہ بتارہی ہے کہ وہ کسی لیچڑ علاقے سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں جبکہ ہماری معلومات کی مطابق وہ لند کی ایک غیر معروف جگہ کے” کیبل کالج “سے گریجویشن کر کے آئے ہیں۔
کرکٹ کے شوقین ٹین ایجرز میں وہ اس قدر بھیانک کلچر کو پروان چڑھا رہے ہیں جو کل ان کے لئے بھی سوہانِ روح ثابت ہوسکتا ہے ”ہر بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے تم ہی بتاﺅ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے“ ”ا و ئے نواز، اوئے شہباز،اوئے زرداری “ یہ ہےں موصوف کی زبان سے نکلنے والےانگلینڈ کے نام نہاد تعلیم یافتہگریجویٹ کے خوبصورت الفاظ ۔ہر ایک جھوٹی بات پر خوب خوب ذور دینا اور پھر مکر جانا۔جس کے ذریعے موصوف نے دنیا کے جھوٹے ترین لوگوں کو بھی مات دیدی ہے۔کئی لوگ تویہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان دونوں کانام جھوٹوں عمران و قادری کوگنی بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آجانا چاہئے۔

سیاست کے میدان میں یہ تو ہوتا ہے کہ بعض خاص موقعوں پر سیاست دان بھی جھوٹ بول جاتے ہیں ۔مگروہ اپنے جھوٹ پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔گذشتہ چند ماہ سے عمران خان کی تو کوئی بات بھی قابلِ اعتبار نہیں رہی ہے۔شروع شروع میں ان کے نعروں کے فریب میں ہم بھی آگئے تھے ۔مگر ہمارا یہ ” فریب کھودا پہاڑ نکلا چوہا“ کے مصداق ہمیں اپنے فیصلے سے رجوع کرنے پر مختتم ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے نعرے بڑے دل کش دکھائی دیتے ہیں مگر اندر کی حقیقت تو سابق آمر پرویز مشرف ہی بتا سکےں گے۔جنہوں نے انہیں وزیراعظم کا جھانسہ دے کر ایک غیر ملک کے وفادار شوکت عزیز کوپاکستانی کو وزارت عظمیٰ سونپ دی تھی اور و ہ شخص کھا پی کر گلاس بھی توڑ گئے اور ایک آنہ بھی ادا کیئے بغیر ”یہ جا وہ جا “ساری قوم منہ دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی اور عمران خان بے چارے وزارت عظمیٰ کے نا ملنے پرجی مسوس کر رہ گئے۔ ان کے ناقدین نے بار بار سمجھایا کہ سیاست آپ کے بس کا روگ نہیں ہے ۔خیرات اکٹھی کرواور کر کٹ کی کوچنگ شروع کردو کہ یہ ہی تمہاری عاقبت کا راستہ ہے۔کیونکہ آپ کی زبان آپ کے قابو میں نہیں ہے۔سیاست دان کو متحمل مزاج ہونا چاہئے اور یہ خوبی آپ کے اندر نا پید ہے۔ بے صبری عمران خان کا پیدئشی وطیرہ ہے۔

دھرنوں میں نا کامی کے بعد عمران خان نے محسوس کر لیا کہ اب یہ کھیل زیادہ عرصہ چلانا ان کے لئے نا ممکن ہے۔ لہٰذا اپنی خفت کومٹانے کےلئے اور اپنے حامیوں کو لالی پاپ د ینے کی غرض سے انہوں نے نئے ایڈوانچر کا رُخ کیا اور جلسے کرنے کا پروگرام بنا کر ایک نئے گیم کا آغاز کر دیا ہے۔پہلے لاہور،پھر کراچی اور تیسرا جلسہ ملتان میں کیا۔ تجزیہ نگار ایک مدت سے بتا رہے تھے کہ اُن کی ایک مدت سے لاشوں کی تلاش اپنے پروگراموں میں تھی جو پوری ہی نہیں ہو رہی تھی۔کیونکہ لاشوں پر سیاست خوب رنگ جماتی ہے۔لہٰذا اُن کی یہ خواہش قدرت نے ملتا ن کے ان کے جلسے میں پوری کرا دی اور سات بے گناہ عمران خان کی سیاست کی نذر ہو کر 15 موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔جس پر بعد میں شاہ محمود قریشی نے بڑی بڑی باتیں بھی کیںاور حکومت کو موردِ الزام ٹہرانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ مگر پریس کانفرنس میں ان کے رہنما اور خود ان کی زبانیں لڑ کھڑاتی ہوئی صحافیوں نے دیکھیں ۔مگر ان کے لیڈر سے اور خود شاہ محمود قریشی سے جوابات بن نہیں پا رہے تھے۔

لوگ جوانوں کینیم مردہ اور مردہ لاشیں عمران خان کے سامنے کنٹینر پر اٹھا اٹھا کر چڑھا رہے تھے۔ مگر پی ٹی آئی کا بے حس رہنما عمران خان لہک لہک کر تقریر میں مست دیکھا گیا ، عمران نے اپنی دھواں دھار تقریر جاری رکھی مگر مجال ہے کارکنوں کی لاشیں اُٹھتے دیکھ کر ایک لفظ بھی اس بے حس رہنما کا اپنے کارکنوں کے جنازوں پرتاسب کے نکلا ہو!!! یہ کیسا خود غرض لیڈر ہے سات کارکنوںنے زندگی ہار دی اور ان کارہنما ہے کہ نا کارکنوں کی خبر لی،نہ ہسپتال گیا اور نہ ہی مرنے والوں سے فوری تعزیت کی۔ موصوف کی خود غرضٰی دیکھئے کہ تقریر سے فراغت کے فوراََ کار کنوں کی خیر خبر لئے بغیرہی سیدھے اسلام آباد کے ویران دھرنے میں خالی کرسیوں کے سامنے ٹہلتے ہوئے دیکھے گئے، عمران خان تمہاری بے حسی پر اگر اب بھی کارکن فدا ہیں تو ہم یہ سوچنے ر مجبور ہوں گے کہ شائد یہ بھیڑوں کے ریوڑ ہیں جنہیں عمران خان اپنے مذموم مقاصد کے لئے بھر پور طریقے پر ہنکا رہا ہے اور استعمال کر رہا ہے۔یہ ہیں اس ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے دعویداروں کے کرتوت۔عمران خان جن ملکوں کی بار بار مثال دیتے ہیں یہ اگر وہاں ایسا کرتے تو جیل کی ہوا اور بے ہوش ہونے ا ور مرنے والوں پر بے توجہی کے جرم میں کھا رہے ہوتے ۔ہم تو بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ محترم ادب و تہذیب سیکھو کہ مغرب جس کی آپ دن رات تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ۔وہاں معاشرتی طور پر لوگ ایسے لوگوں کے دکھوں کو بانٹتے ہیں جن کو انہوں نے کبھی دیکھا تک نہیں ہوتا ہے،یہ تو تمہاری ہر غلط بات تک کی پیروی کر رہے تھے۔ایک آپ ہیں کہ اپنے سات کاکنوں کی لاشیں چھوڑ کر اسلام آباد کے دھرنے کی فکر میں ہلکا ن ہوئے جا رہے تھے اور وہاںجاکر بھی آپ کو خالی کر سیوں کے سوائے کچھ بھی تو نا ملا اب ان کارکنوں کے لوحقین کو پیسے بانٹنے سے تو ان کی تسلی نہیں ہوگی۔تم سے بہتر تو کل کا بچہ بلاول زرداری ہے جو عیش و نشاط کی زندگی میں سے نکل کر اپنے کار کنوں کو سینے سے لگا رہا ہے۔ معاف کیجئے گا سیاست میں رعونت کام نہیں آیا کرتی ہےشرافت اور رحم دلی بڑے سے بڑے طوفانوں کو ٹالدیتی ہے۔ شرافت اور کردار ہی کسی رہنما کو بلندیوں پر پہنچاتا ہے،جو عمران خان میں نا پید دکھائی دیتا ہے۔

حکومت نے سانحہِ ملتان پر تحقیقات کےلئے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تو اپنے معاملات کو پسِ پردہ رکھنے کی غرض سے عمران خان نے حکومتی کمیٹی کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے اپنے لوگوں کے گناہوکی پردہ پوشی کی ناکام کوشش کی ہے۔در حقیقت یہ متاثرہ خاندانوں کو انصاف دلانا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں ان کےاپنے پردہ نشین بھی بے پردہ ہوجائیں گے۔اور ان کی مطلوم بننے اور الزامات کی سیاست کوخود بخود دم توڑ دے گی۔

وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات میں کہا ہے کہ جمہوریت اور حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے والے ناکام ہون گے عوام ساتھ ہیں ،کسی سطح پر تنہا نہیں چھوڑیں گے ملک کو بحرانوں سے نجات اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گےعوام سے کیا گیا ہر وعدہ پورا کریں گے۔سانحہ ملتان کی شفاف تحقیقات کر کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔عمران خان اپنی زبان کو قابو میں رکھ کر اگر سیاست کریں گے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ورنہ پیپلز پارٹی کے ذوالفقار مرزا جیسا حشر انہیں دیکھنے کو ملے گا جو زبان اور بیان میں عمران خان سے ذرا پیچھے ہی تھے اور ان کا سیاسی کیریر بربا ہوجائے گا۔کہتے ہیں زبان کی شیرینی سو دشمنوں کو دوست بنا دیتی ہے۔
prof.Dr Shabbir Ahmed Khurshid
About the Author: prof.Dr Shabbir Ahmed Khurshid Read More Articles by prof.Dr Shabbir Ahmed Khurshid: 285 Articles with 189212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.