محض نعروں سے تبدیلی نہیں آتی

پاکستان تحریک انصاف کے ملتان جلسے میں جو سانحہ رونما ہوا ، اس کی ذمہ داری سے بچنے کے لئے ’’نئے پاکستان‘‘ بنانے کے خواہش مند پرانے اور روایتی حربے استعمال کررہے ہیں۔اپنی بدانتظامی بلکہ بے حسی کا اعتراف کرنے کی بجائے اس کا ذمہ بھی حکومت اور ضلعی انتظامیہ پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ میڈیا کی آنکھ سے سب نے حقیقت حال کا نظارہ خود کیا۔ تقریریں جاری رہیں، ڈی جے بٹ مخل ہوا کہ پانی اور ایمبولینس منگوائی جائے کہ لوگ گھٹن سے گر رہے ہیں مگر اس فریاد پر ناگواری کا اظہار کیا گیا۔ اسٹیج سجا رہا ، بلند و بانگ دعوؤں اور الزام تراشیوں کے طوفان میں انسانیت بھی دب گئی۔ ملتان سانحہ برپا نہ ہوتا، بہت سے معصوم افراد جاں بحق نہ ہوتے، اگر عمران خان احتجاج کی سیاست شروع ہی نہ کرتے۔عمران قادری گٹھ جوڑ کے پیچھے آزادی و انقلاب مارچ ہی کارفرما نہیں تھے بلکہ ایک ایسا خوفناک پلان موجود تھا جسے لوگ ــ’’لندن پلان‘‘ سے یاد کرتے ہیں۔ گو کہ وہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور اب ڈی چوک کی ویرانی ان کی شکست خوردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم سوال یہی ہے کہ نواز شریف حکومت کو ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اسے ایک ایسی سازش سے ہٹانے کی کوشش کیوں کی گئی کہ جس سے ملک آئینی طور پر بحران کا شکار ہوتا ہی، اسے معاشی، عالمی لحاظ سے بھی متنازعہ بنا دیا جاتا اور یہاں وہ انتشار اور بدامنی پیدا ہوجاتی جس کا فائدہ آج ’’بڑی طاقتیں ــ‘‘ لیبیا، افغانستان اور عراق میں ایسا ہی کھیل رچا کر اٹھا رہی ہیں۔

لندن پلان کا سب سے خوفناک حصہ تو پاکستان تحریک انصاف کے سینئرلیڈر جاوید ہاشمی نے بے نقاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پلان کی بنیاد ہی لاشوں پر رکھی گئی تھی یعنی ایسے حالات پیدا کردئیے جائیں کہ اسلام آباد خوفناک خون ریزی کا منظر پیش کرنے لگے اورپھر حکومت گرانے کا راستہ صاف ہوجاتا۔ اس کی تفصیلات تو اب بچہ بچہ جانتا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ عوامی تحریک دھرنوں سے اٹھ چکی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی رونقیں بھی ڈی چوک میں ماند پڑ چکی ہیں۔ متبادل اور فیس سیونگ کا راستہ یہی بچا ہے کہ دوسری جگہوں پر جلسے جاری رکھے جائیں اور کہیں نہ کہیں ایسا واقعہ آجائے جہاں پھر سے اس سلسلے کو دوبارہ دھرنوں کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام اب دھرنوں ، جلسوں، مارچوں سے اکتا چکے ہیں۔ میڈیا کی ایک تھیوری ہے کہ حد سے زیادہ ایکسپوزر ایک نقطہ پر آکر منفی صورت اور اکتاہٹ پیدا کردیتا ہے۔ یہی حال اب کنٹینر سیاست کا ہے۔ عوام اس سلسلے سے اب اکتا چکے ہیں۔ عمران نعرہ لگاتے ہیں کہ تبدیلی آنہیں رہی،آگئی ہے۔ میں ان کی تائید کرتی ہوں کہ واقعی پاکستان میں تبدیلی آگئی ہے اسی لئے تو یہ سازش ناکام ہوگئی۔ بہت سے سیاستدان جن کے نام سے ہی ان کے کارنامے یاد آنے لگتے ہیں، انہیں دائیں بائیں کھڑا کردیا جائے تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان میں کون سی تبدیلی آرہی ہے۔ بہرحال اتنی خطرناک صورتحال پیدا کرنے کے باوجود حکومت اگر اپنا کام کررہی ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے تو یہ پاکستان میں واقعی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ کیا یہ تبدیلی نہیں کہ دھرنوں اور مارچوں کے باوجود حکومت عوامی خدمت جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا یہ تبدیلی نہیں کہ پاکستان میں شدید سیلاب کی صورتحال میں جہاں لوگ امداد کے منتظر تھے اور عام آدمی بھی ان کے بارے میں فکر مند تھا، بڑے لیڈر ہونے کے دعوے دار متاثرین کی حالت زار کو نظر انداز کرکے اسلام آباد میں میوزک کنسرٹ میں تنقید برائے تنقید میں مصروف تھے۔

یہ بھی تبدیلی ہی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو ایک ایسی سیاست سے روشناس کرانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی گنجائش نہ ہمارے مذہب میں ہے نہ معاشرے میں۔ ہماری تہذیب اور کلچر کے بھی یہ منافی ہے اور جب بات سیاست اور مملکت کی ہو تو تحمل اور برداشت ہی کے ہتھیاروں پر امور اور معاملات حل کئے جاتے ہیں۔ دنیا میں انتشار، بدامنی، اور بے صبری کے ذریعے معصوم جانوں کو تو خطرے میں ڈال کر اپنے مفادات تو حاصل کئے جاسکتے ہیں مگر یہ طریقہ کار اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتا۔ تنقید برائے تنقید کسی بھی معاملے کا حل نہیں ہوتی۔ اس ضمن میں میاں نوازشریف کے صبرو تحمل کو دادنہ دینا زیادتی ہوگی۔ انہوں نے دھرنوں اور جلسوں میں اٹھنے والے طوفان اور ان کے خلاف ہونے والی بدزبانی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ ایک ذمہ دار قومی لیڈر ہیں اوراپنی اس خوبی کو انہوں نے اپنے قول و فعل سے ثابت بھی کیا ہے۔ اسی طرح میاں شہباز شریف نے بھی ہر مرحلے پر اپنے کارکنوں کو صبروتحمل کی تلقین کی اور جہاں کہیں بھی کشیدگی کی فضا محسوس کی وہاں فوری مداخلت کرتے ہوئے حالات کو نارمل کرنے کے احکامات جاری کئے۔ اسی طرح نوجوان قیادت مریم نواز اور حمزہ شہباز نے بھی ثابت کیا کہ وہ کتنے ذمہ دار ہیں۔انہوں نے اپنے نوجوان کارکنوں کو یہی نصیحت کی وہ صبر کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ حمزہ شہبازنے تو خود کو نہ صرف سیاسی بصیرت رکھنے والے نوجوان کے طورپر منوایا بلکہ وہ کافی عرصے سے دوسرے نوجوانوں کوبھی تعمیر ملت کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اسی مشن کے تحت انہوں نے ایسے ٹیلنٹ کو متعارف کروایا کہ انہوں نے مختلف شعبوں میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے۔ آئی ڈی پیز کی فنڈ ریزنگ ہو یا سیلاب زدگان کی امداد انہوں نے نوجوانوں کی قیادت کرتے ہوئے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نوجوانوں میں تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں حکومت اہم کردار ادا کررہی ہے تاہم انہیں روزگار مہیا کرنے کی کوششوں میں بھی تیزی لانے کی اشد ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان تبدیلی اور اپنا حق چاہتا ہے مگر ان کی اس خواہش کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال میں لانا قابل مذمت ہے۔ نوجوان ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔ وہ کسی پارٹی کا حصہ ہیں یا نہیں مگر پہلے انہیں پاکستانی کے طور پر کردار ادا کرنا ہے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ کسی کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنیں اور ہر ایسی طاقت کو مسترد کردیں جو قومی یکجہتی میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح دھرنوں کے ذریعے ملکی ترقی کا پہیہ روکنے کی کوشش کی اوراب سانحہ ملتان نے اس کے انتظامات کی حقیقت کا پردہ چاک بھی کردیا ہے، تو وہ تنقید برائے تنقید اوربیانات سے اپنی غلطیوں پر دبیز تہہ چڑھانے کی بجائے ، اپنی اصلاح پر توجہ دے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ اس کے لئے ایک تجربہ گاہ ہے، جسے وہ ان تمام دعوؤں اور نعروں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مثال بنا سکتے ہیں جواس وقت وہ دھرنوں اور جلسوں میں لگا رہے ہیں۔ اسی طرح صوبے کے انتظامات اور ترقی کے لئے انہیں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے انہی عملی اقدامات سے ان کی کارکردگی سامنے آئے گی تو اصل اور مثبت تبدیلی آئے گی۔ محض تبدیلی کا نعرہ لگانے اور قوم کو سول نافرمانی کی ترغیب دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 67778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.