انگریزوں کا براہ راست اور بلواستہ حکمرانی کا فرق

جب انگریز ہم پر قابض ہو کر حکومت کیا کرتے تھے توانہوں نے اپنی حکمرانی کے جواز کو برقرار رکھا ۔ اپنی تیز ترین صنعتی ترقی کے ثمرات کا ایک قلیل حصہ انہوں نے برصغیر کے عوام کو بھیک کے طور پر بخشا ۔ مگر حیرت انگیز طور پر یہ بھیک کا حصہ 67سال کی پلان شدہ ترقیاتی اسکیموں سے کئی گنا زیادہ اور بہتر تھا ۔ انہوں نے ہمیں خیرات میں دنیا کا بہترین نہری نظام ہیڈورکس پاکستان کا آج تک موجود ریلوے ٹریک سڑکوں کا جال اور بحری بندرگاہ تک بنا کر دی وہ جبری قابض تھے اور یہ جانتے تھے کہ انہوں نے ایک دن یہ زمین چھوڑ کر چلے جانا ہے اس خطے کی ترقی نہ کرنے کی شدید خواہش کے باوجود انہیں بنیادی انسانی ضرورتوں کا احساس دامن گیر رہا ۔ انگریز ہم پر کم و بیش ایک صدی قابض رہے یہ وہ دور تھا جب ترقی اس تیزی سے اور فلاح انسانیت کا جذبہ اس قدر عام نہ تھا ۔ مگر انہوں نے یہ کام اس قدر پائیدار ی کے ساتھ کئے کہ سو سالہ پرانا انفراسٹرکچر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن ایک کام انہوں نے غلط کیا کہ لوگوں کو اپنا وفادار بنانے کیلئے بڑی بڑی جاگیریں انہوں نے بے دریغ تقسیم کیں ۔ ان کے وفادار حقیقت میں بڑے زمیندار اور جاگیردار کہلائے اور قیام پاکستان کے بعد انگریز اپنے انہیں وفاداروں کی صورت میں ہم پر کسی حد تک مسلط رہے۔ وفاداروں کے اس ٹولے نے ایک پل کیلئے بھی ہمیں ایک آزادملک کے آزاد شہری ہونے کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ آج بھی آپ اگر پاکستانی زمینوں کی تقسیم کا ریکارڈ دیکھیں تو اپکو واضع نظر آئیگا کہ ملکی اکثریت اور ذراعت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے پاس ان لوگوں کے پاس جن کو مٹی سے محبت اور پیار ہے جن کا مٹی سے دل کا رشتہ ہے انکو ایک انچ زمین بھی ملکیت میں حاصل نہیں ہے ۔ نہ پاکستان بننے سے پہلے نہ بعد البتہ کچھ مہاجرین کو قیام پاکستان کے بعد زمینیں الاٹ ہوئیں مگر جو یہاں کے باشندے تھے انکو آج تک کسی نے یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی کہ اس نئے وطن میں تمہارا بھی کچھ حصہ ہے یا نہیں ۔ زمینی اصلاحات ضرور ہوئی تھیں مگر جن لوگوں کے نام سے زمین اتری تھی وہ انہی کے مضارعین کے نام ہوئی تھیں ایک غریب آدمی کی یہ جرائت کہ وہ اپنے مالک کی زمین ہڑپ کر جائے وہ زمینیں کچھ عرصہ بطور امانت رکھ کر واپس کر دی گئی تھیں اور جو ذرا اڑ گئے ان سے بزور انگوٹھے لگوا کر یا انجانے میں لگوا کر زمین بچوا کر خود خرید لی گئی اور حکومتوں میں بیٹھے کسی شخص کو اپنے یا اپنے آباؤ اجداد کے اس ظلم کا احساس تک نہیں ہوا۔ زمیں سے محبت کرنے والوں ان متوالوں نے زمیں سے اپنا رشتہ آج بھی قائم کر رکھا ہے۔ یہ بھیانک شرائط پروڈیروں کی زمینوں میں اپنا خون پسینا لگاتے ہیں اور جب کچھ ثمر اکٹھا کرنے کی باری آتی ہے تو کھبی سیلاب اور کبھی پانی کی عدم دستیابی ان سے ان کی محنت کا حصہ چھین لیتی ہے ۔ امدادیں ملتی ہیں تو ز مینوں والوں کو راشن تقسیم ہوتے ہیں تو پارٹی کی بنیادوں پر اور حسرت سے تکتے چہرے اپنے دلوں میں حسرت ہی پالتے رہتے ہیں ۔ بڑے حکمران جب دورے کرتے ہیں تو ریلیف کیمپوں میں سدا کے مانگنے والے پیشہ ور بھکاری جن کا نقصان تو کیا ان آفات کے بعد کاروبار چمکتا ہے کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اور یوں عام لوگ بھکاریوں کی قسمت پر رشک کرتے ہیں ۔ ویسے بھی حکومت کی پالیسی میں اچھی کوالٹی کے بھکاری پیدا کرنا ہے اس لیے وہ کھبی بے نظیر انکم سپورٹ لانچ کرتی ہے تو کبھی یوتھ لان اسکیم ۔ جب کاروبار پر آپکا اپنا قبضہ ہے تو قرضہ لینے والا آپ کے مقابلے میں کاروبار کیسے کرے گا اور قرضہ ادا کیسے کرے گا۔ آپ ہر سال سیلاب متاثرین کے جھانسے میں اپنے پارٹی ورکروں کو نوازتے رہتے ہیں سیلاب کی روک تھام کیلئے اقدامات کیوں نہیں کرتے ۔ ڈیم کیوں نہیں بناتے ۔ کیا ڈیموں پر امداد کے نام پر تقسیم کی جانے والی رقوم سے زیادہ اخراجات آئیں گے ۔ کیا کالا باغ ڈیم کے متاثرین اس سال کے سیلاب متاثرین سے بھی زیادہ ہوں گے۔ آپ اپنے اقتدار کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں قومی مفاد کیلئے کیوں ایسا نہیں کرتے ۔ صرف ضلع جھنگ کی اس سال کی امداد کی مد میں بانٹی جانے والی رقوم کا نصف تریموں ہیڈ کی اپ گریڈیشن اور بند کی مضبوطی پر خرچ کر دیا جائے اور ہر سال سردیوں میں ہیڈ کے نزدیک جمع ہونے والی مٹی نکال لی جائے یہ مٹی انتہائی زرخیز ہوتی ہے اسے سیم زدہ علاقوں میں یا باغات والے علاقوں میں ڈال دیا جائے تو کتنا فائدہ ہو گا کتنا پانی ذخیرہ ہو جائے گا جو فصلوں کی ضرورت کے وقت کام آئے گا اور نہ صرف یہی بلکہ لاکھوں افراد کی جمع پونجی کے ساتھ انکی امیدوں کے چراغ گل کرنے والا یہ سیلابی ریلا ہمیشہ کیلئے مقید ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن ہم امداد کیوں بانٹتے ہیں ہم لوگوں کو بھیک منگا کیوں بنانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ آسان کمائی ہے لوگ اس کیلئے اپنا ضمیر گروی رکھ دیتے ہیں اپنے ووٹ کا استعمال بدل دیتے ہیں اور اپنی تقدیر میں غلامی کا ایک نیا دور اپنے ہاتھوں لکھتے ہیں ۔ اگر حکومت کسی کی مدد کرنا ہی چاہتی ہے تو پاکستان ایک زرعی ملک ہے آپ کے پاکستان وسیع مقدار میں زرعی اراضی سرکاری ملکیت میں ہے آپ یہ اراضی لوگوں کو جنکا پیشہ زراعت ہے اور ان کے پاس زمینیں نہیں ہیں انکو دیں زمینوں کو آباد کرنے کیلئے قرضہ دیں مگر کسی کو ہمیشہ کیلئے زمین نہ دیں ورنہ یہ حقداروں کو نہیں بلکہ حق ماروں کہ ہی مل سکے گی۔یہ زمیں آپ پانچ سال یا دس سالکی میعاد کیلئے دیں اس کو آباد کرنے کیلئے اور پانے کے وسائل کیلئے قرضہ دیں جہاں پانی نہیں ہے وہاں پانی مہیا کریں یہ لوگ آپکہ کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ اکٹھا کر کے دیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہو گا اگر ایسا کر دیا جائے تو وڈیرہ سسٹم اپنی موت آپ مر جائے گا انگریزوں کا عوام اور خواص کا کلیہ دفن ہو جائے گا ۔ لوگ اپنی پسند اور نا پسند کا اظہار کرنے لگ جائیں گے ۔ اور ایک یا دو وڈیروں سے پورا گاؤں یا علاقہ کنڑول کرنے والی حکومتی جمہوری جماعتیں کیسے برداشت کر سکتی ہیں ۔ اصل دھاندلی تو انگوٹھا لگانے سے بہت پہلے برپا ہو جاتی ہے آپ کونسی دھاندلی روک لو گے۔ دھاندلی تووہاں شروع ہوتی ہے جب کسی غریب کا پانچ سالہ بچہ ایک سرکاری یا بازاری اسکول میں داخلہ لیتا ہے اور وہ الف ب کا ورد شروع کرتا ہے اور دوسری طرف ایک امیر کا بچہ آکسفورڈ کا سلیبس کھیل کھیل کے انداز میں پڑھ رہا ہوتا ہے اسی دن یہ طے ہو جاتا ہے کہ غریب کا بچہ اگر بہت ہمت کر گیا تو شاید کسی کی شفارش کر کے کلرک بن جائے اور دوسرا انتظامیہ کا کوئی خاص عہدیدار کوئی بزنس مین کوئی ڈاکٹر کوئی انجینیئربننے والا ہے ۔ چاہے قابلیت میں جتنا مرضی فرق ہو ماحول دونوں کو ہانک کر انکی منزل کی طرف پہنچا دیتا ہے اور یہی انگریزوں ہکی ہم پرحکومت کا ثبوت ہے انگریز کسی کمی کے بیٹے کو پڑھنے کا حق نہیں دیتے تھے اور بھی وہ بالواسطہ ہی سہی کسی غریب کو برابری کے اصول پر علم حاصل کرنے کا حق ہرگز نہیں دیتے۔ اگر آج ہم صرف تعلیم کا نظام یکساں کر دیں اور اس کا معیار اونچا کر دیں تو آپکو اتنے قابل دماغ شاید دنیا کے کسی خطے میں میسر نہ ہو سکیں ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے لیکن ذرا غلام بنا لینے کا عزم بھی تو ٹوٹے ۔ ذرا دل سے اس قوم کو اپنا لینے کا جوش تو آجائے ۔ ہمارے وڈیرے اس ملک کو اپنی عارضی پناہ گاہ یا کاروباری مرکز سمجھتے ہیں ان کے اصل گھر لندن ۔ نیویارک ،کنیڈا، دبئی وغیرہ میں ہیں وہ بے چارے یہاں ٹھیک اسی طرح پردیسی بن کر زندگی گزارتے ہیں اور اپنا دور ختم ہوتے ہی یعنی نوکری چھوڑتے ہی اپنے گھر سدھار جاتے ہیں اور اس قوم کے کثیر اثاثے اپنی پنشن کی رقم سمجھ کر بٹور لے جاتے ہیں ۔ وہاں ہمارے اصل حکمران اگلی مرتبہ پھر انکی تعیناتی کی راہ ہموار کرتے ہیں اور یہ بچارے پھر نوکری پر آجاتے ہیں اور میری قوم انہی اپنا اصلی لیڈر ہی نہیں بلکہ نجات دہیندہ ہی گردانتی رہیتی ہے -
ghulam mustafa
About the Author: ghulam mustafa Read More Articles by ghulam mustafa: 7 Articles with 7113 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.