اسلام آباد دھرنا: ”انقلابیوں“ کی انقلاب لائے بغیر واپسی شروع

حکومت کو ختم کر کے ”انقلاب“ لانے والے ”انقلابیوں“ کے دھرنے ڈیڑھ ماہ سے اسلام آباد میں انقلاب کے انتظار میں خیمہ زن ہیں، لیکن جس انقلاب کو لانے کے لیے ”دھرنا برادرز“ آئے تھے، اس کا کہیں دور دور بھی نام و نشان نہیں ہے۔ دھرنا کارکنوں میں کئی روز سے مایوسی بڑھ رہی ہے اور کارکن دھرنے کو چھوڑ کر انقلاب لائے بغیر گھروں کو لوٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ انقلاب کی بجائے عید قرباں کے آنے کی وجہ سے کارکنوں کی اس مایوسی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ ذرائع کے مطابق شارع دستور پر موجود پی اے ٹی کے حامی اپنے خیمے پیک اور گھر واپسی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اگرچہ متعدد افراد گھر واپسی پر خوش نظر آ رہے ہیں، مگر وہ دارالحکومت میں اپنے قیام کے دوران کچھ حاصل نہ کرنے پر مایوس بھی ہیں۔ بہت سے لوگ دھرنوں سے انقلاب لائے بغیر جا چکے ہیں، جبکہ باقی میں سے بہت سے افراد سامان سمیٹتے نظر آ رہے ہیں۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے اسلام آباد میں جاری دھرنے عید سے پہلے ختم ہو جائیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق لگتا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری وفاقی دارالحکومت سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مقصد کی حمایت کے لیے ملک بھر میں جلسے کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ اب اس انقلاب دھرنے کو انقلاب تحریک میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اپنے کارکنوں کو خونی انقلاب سے روکا ہوا ہے۔ خونین انقلاب میں واحد رکاوٹ میں ہوں۔ جب یہ دھرنا تحریک میں تبدیل ہوگا تو شہر شہر انقلاب ہوگا، تب دنیا دیکھے گی انقلاب کسے کہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عید قرباں کے آنے کی وجہ سے دونوں لیڈروں کے لیے دھرنے میں موجود افراد کو روکنا مشکل نظر آرہا ہے، کیونکہ دھرنے والوں کی اکثریت جا چکی ہے اور مزید جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دھرنے میں شریک سیکڑوں خاندان گزشتہ تین ہفتوں کے دوران واپس جاچکے ہیں، جبکہ مزید درجنوں خواتین اپنے علاقوں کو جلد از جلد واپس جانا چاہتی ہیں۔ پی اے ٹی کے ترجمان عمر ریاض عباسی کا کہنا ہے کہ دھرنے کی طوالت سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیکڑوں خاندان اپنے ذاتی مسائل کی بنا پر دھرنے کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد کی اسپیشل برانچ پولیس نے وزارت داخلہ کو ایک رپورٹ بھجوائی، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عوامی تحریک کے دھرنے کی طوالت اور عید کی وجہ سے ایک ہزار سے زاید کارکن اپنے آبائی علاقوں کو واپس چلے گئے ہیں، شرکا کی تعداد آیندہ چند روز میں مزید کم ہونے کے امکانات ہیں۔ ان حالات میں ذرائع کے مطابق دھرنے کے خاتمے کے لیے بیک چینل رابطوں کے نتیجے میں دھرنے کے عیدالاضحیٰ سے قبل خاتمے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق طاہر القادری سے گزشتہ دنوں بیرون ملک سے آنے والی ایک اہم شخصیت نے2 مرتبہ کنٹینر میں جا کر ملاقات کی اور اس شخصیت کے بعض حکومتی شخصیات سے بھی رابطے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طاہر القادری کو دھرنے کے خاتمے کے لیے محفوظ راستہ دیا جائے گا، جو نہ صرف ان کے لیے باعزت ہو گا، بلکہ حکومت کے لیے بھی قابل قبول ہوگا اور ایک فارمولے پر بات چیت کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ اس حوالے سے سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ عید الاضحیٰ سے قبل اسلام آباد میں جاری دھرنے ختم ہوجائیں گے۔ فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ سیاست میں مذاکرات کا راستہ کسی صورت بند نہیں ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اس بات پر غور کرنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ دھرنوں میں شریک افراد کو عید الاضحیٰ سے قبل گھر جانے کی اجازت دے ہی دی جائے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے عوامی تحریک کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا دائرہ کار ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کے اعلان کا مقصد یہی تھا کہ شرکا کو عیدِ قرباں سے قبل گھروں کو جانے کی اجا زت دے دی جائے اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت یہ امید کر رہی تھی کہ دارالحکوت میں دھرنا دینے سے حکومت پر دباؤ پڑے گا اور وزیراعظم استعفیٰ دے کر اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے اور ایک ہفتے میں دوبارہ انتخابات منعقد کرائے جائیں گے، لیکن جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے حکومت اور جمہوری نظام کی حمایت کا اعلان کیا تو یہ سب کچھ ایک خواب بن کر رہ گیا۔ ان کے مطابق پارٹی قیادت کا خیال ہے کہ شرکا کو دھرنا دیے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، دارالحکومت میں مزید خیموں میں قیام کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا اور یہ صورتحال اس وقت مزید خراب ہو جائے گی، جب کہ اگر پارٹی قیادت ان افراد کو بحفاظت اپنے گھروں تک پہنچانے میں ناکام ہو جائے۔ عوامی تحریک کی سی ڈبلیو سی کے رکن نے تسلیم کیا کہ شاہراہ دستور پر صفائی ستھرائی کی خراب صورتحال اور بیماریاں پھیلنے کے باعث شرکا کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ بارشوں، سیلاب اور شرکا کی اپنے اسکولوں، کالجوں اور ملازمت سے طویل غیر حاضری سے پیدا ہونے والے مسائل بھی شرکا کی تعداد میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ پی اے ٹی کے ترجمان عمر ریاض عباسی کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت شرکا کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔گزشتہ دنوں عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے ترجمان عمر ریاض عباسی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کا دھرنے کے مقام پر جانوروں کی قربانی کا کوئی پروگرام نہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی کے اہم رکن کے مطابق جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والے شرکا ویک اینڈ پر دھرنے میں شریک ہوتے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کے کچھ حامیوں نے جڑواں شہروں کے ہاسٹلز اور گیسٹ ہاو ¿سز میں رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ ڈی چوک پر دن رات رہنے والے شرکا کی تعداد نہایت کم ہے اور پارٹی ورکروں کے لیے اتنے طویل عرصے تک کرائے کے کمروں میں رہنا ممکن نہیں ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ن لیگ کی حکومت اتنی آسانی سے مطالبات تسلیم نہیں کرے گی، یہی وجہ ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے تحریک کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیلایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر کے مطابق پارٹی قیادت نے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ جڑواں شہروں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے شرکا کو عید سے قبل گھر جانے کی اجازت دے دی جائے۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں رہنما اپنے حامیوں سے یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنے مقصد کی حمایت کے لیے دیگر شہروں میں جلسے کریں گے، جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ دھرنے کی تھکاوٹ مظاہرین پر اثرانداز ہونا شروع ہوگئی ہے۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے پنجاب پولیس کے دو ہزار پانچ سو اہلکاروں کو اپنے علاقوں میں واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور عوامی تحریک کے دھرنوں میں سیکورٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے کہ حکومت نے پنجاب پولیس سے مدد طلب کی تھی۔ اس وقت اسلام آباد میں پنجاب پولیس کے 11 ہزار سے بھی زاید اہلکار سیکورٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان اہلکاروں کو دارالحکومت میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ پنجاب پولیس نے وفاق سے اپنی فورس کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عید پر سیکورٹی کے لیے ان اہلکاروں کی ضرورت پڑے گی۔ اسی طرح کا مطالبہ پنجاب حکومت نے وفاق سے اس وقت بھی کیا تھا جب صوبے میں سیلاب نے تباہی مچادی تھی، لیکن وفاق نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔ اس وقت پنجاب میں عید کے موقع پر مساجد کی سیکورٹی کے لیے اہلکاروں کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد پولیس نے اس مطالبے پر تمام نفری کو واپس بھیجنے سے انکار کیا تھا، تاہم اب ان میں سے ڈھائی ہزار اہلکاروں کو وہ واپس بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے لیے دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات میں کمی واقع ہوچکی ہے اور ”انقلابی دھرنے“ ختم ہوئے چاہتے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.