یہ کیسی جمہوریت ہے

وائٹ پیپر میں کسی بھی جماعت کی یا کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو نمایا ں کیا جاتا ہے ایسا ہر دور میں ہوتا آیا ہے وفاقی حکومت نے خیبر پختونخواہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں وائٹ پیپر جاری کیا ہے اس وائٹ پیپر کا نام تبدیلی کے نام پر دھوکا رکھا گیا ہے وائٹ پیپر میں پی ٹی آئی کی حکومت پر بہت سے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ بھی ان وزراء کی جانب سے جو پی ٹی آئی کے سربراہ کو الزام خان کا نام دیتے ہیں مگر خود بھی الزامات لگانے میں کسی سے کم نہیں ہیں ۔وائٹ پیپر کے مطابق کے پی کے میں امن و امان کا مسئلہ نہایت اہم ہے لوگ عدم تحفظ کا شکا ر ہیں تاجروں سرمایہ کاروں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے وزیر اعلیٰ کی غیر موجودگی میں خیبر پختونخواہ کی حکومت چلائی جا رہی ہے،تحریک انصاف سے کے پی کے میں حکومت سنبھالی نہیں جارہی کے پی کے میں سب سے کم ریونیو جنریشن ہورہی ہے، خان صاحب اپنے صوبے میں انویسٹ منٹ بھی نہیں لا سکے یہ وہ الزامات ہیں جو پی ٹی آئی کی حکومت پر لگائے گئے ہیں ۔حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے بری کارکردگی چھپانے کے لئے دھرنوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے حکومت کا اس وائٹ پیپر میں یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے منشور میں کئے گئے وعدوں پر بھی عمل نہیں کیا، بجٹ میں مختص رقوم پوری طرح خرچ نہیں کی گئی، کارکنوں کی فلاح و بہود کے لئے کچھ نہیں کیا گیا خیبر پختونخواہ میں انسداد پولیو کی مہم کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا یہاں 17 اضلاع ڈینگی سے متاثر ہیں، زراعت کے شعبے میں صرف 5 فیصد ٹیکس عائد کیا جاسکاہے15 فیصد زرعی ٹیکس کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا، تعلیم کے شعبے میں بھی ناکامی ہاتھ آئی یہ وہ وائٹ پیپر کے الزامات ہیں جو حکومتی جماعت کی طرف سے لگائے گئے ہیں اگر انھی الزامات کو پنجاب حکومت کی کارکردگی سے تبدیل کیا جائے تو صورت حال وائٹ پیپر سے بھی آگے نظر آتی ہے انھی وزراء سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اگر وہاں پر ایسی صورت حال ہے تو ان صوبوں میں کونسی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہے جہاں پر مسلم لیگ کی حکومت ہے حالیہ دنوں کی مثال لے لیں جب حکومت خود تسلیم کر ہی ہے کہ صرف بجلی کے بلوں کے زریعے سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا اور کئی ارب روپے غریب کی جیب سے اڑا لئے گئے جن کا اعتراف حکومتی وزراء پریس کانفرنس میں کرتے نظر آ رہے ہیں۔سیلاب کی صورت حال معاملے کو اور بھی واضح کر رہی ہے ۔ حکومت نے آتے ہی وہ سنگین غلطیاں کی جن کا شمار کرنایہاں شاید ممکن نہیں ہو گا مگر ان میں سے چیدہ چیدہ بیان کر دیتا ہوں سب سے بڑی غلطی اقتدار میں آتے ہی بڑے قرضے لیکرصرف پنجاب کو پیرس بنانے کا خواب دیکھا گیا اور اس خواب کو حالیہ سیلاب میں عوام نے ٹوٹتے دیکھا جب ہمارے وزیر اعلیٰ گوڈے گوڈے پانی میں کھڑے ہو کر واسا کے اہلکاروں کو ڈانٹ رہے تھے کہ یہاں پانی نہ ہو وہاں پانی نہ ہو بجلی کی لوڈشیڈنگ کو کم کرنے کے لئے سرکلر ڈیڈ ختم کرنے کی کوشش میں اپنے لوگوں کو نوازا گیا جس کا اثر یہ ہوا کہ آج بجلی کی لوڈ شیدنگ وہی ہے جہاں سابق دور میں تھی عوام کی بنیادی ضروریات بجلی،گیس کو چھوڑ کر میٹرو بس جیسے منصوبے شروع کرنے کو اولین ترجیح دی گئی کیا عوام کی بنیادی ضروت بجلی اور گیس تھے کہ میٹرو بس اس کا فیصلہ اگر کرنا ہو تو ہر گھنٹے بعد ایک یا دوگھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کو ضرور دیکھ لیں اس کا اندازہ اگر کرنا ہو تو گیس سٹیشنوں پر لگی گاڑیوں کی ان لمبی لائینوں کو دیکھ کر کر لیں جن میں مزدور دیہاڑی دار ،ٹیکسی گاڑیاں چلانے والے لوگ راتوں کو جاگ جاگ کر اپنی گاڑی میں گیس ڈلوانے کے لئے خوار نظر آتے ہیں حکومتی مشراء اور وزراء پالیساں بناتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کیا ہیں عوام کو روٹی ، کپڑا ، مکان چاہیے، لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا چاہیے لیکن ان کو تو اقتدار میں سوائے اپنے فائدے کے کچھ اور نظر ہی نہیں آتا ترقی پذیر ملک ہوتے ہوئے ترقی یافتہ ملکوں جیسے منصوبے شروع کرنے کی ناکام کوشش کر تے ہیں اور ان میں وہ نقصان کر دیتے ہیں جو آنے والے کئی سالوں تک پورے نہیں ہو سکتے کیا یہ بڑے اور مشکل منصوبے ہمارے لئے اور ہماری کمزور معیشت کے لئے نقصان دہ نہیں ہیں جن کو اگر مکمل بھی کر لیا جائے تو بمشکل پانچ یا دس سال ہم چلا سکتے ہیں کیونکہ ہم ان منصوبوں کو مکمل تو کر لیتے ہیں مگر ان کو قائم رکھنا شاید ہم سیکھ ہی نہیں سکے ۔ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں جمہوریت میں تو ایک عام انسان کی اور ایک طاقت ور کی ایک جیسی سنی جاتی ہے مگراب اس جمہوریت پر یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ سر عام پولیس 18 لوگوں کو گولیوں سے ہلاک کر دیا جائے بیشمار زخمی کر دیے جائیں پوری دنیا اس واقع سے با خبر ہوگ مگر حکمرانوں کو میڈیا کے زریعے اس واقعہ کو علم ہو اس ساری صورتحال پر پاکستانی غیرجانبدارسنجیدہ طبقہ بہت سے فکرات کا شکار ہے کیونکہ عوامی سطح پر ہم برداشت اور تحمل سے ایک دوسرے کا موقف سننے سے گریزاں ہیں تو ہمارے لیڈران آپس میں تحمل مزاجی یا مذاکرات کیوں کریں گے اس کا عملی مظاہرہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پوری قوم دیکھ چکی ہے ۔ اس اختجاج اور دھرنے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے اپوزیشن جرگے کے مطابق اب اس تمام سیاسی بحران کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ایک ایسے وقت میں جب حکومت کے خلاف دھرنے اور اختجاجی مارچ ہو رہے ہیں وائیٹ پیپر جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی کیاا یسا کرنے سے حکومت عوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کامیاب ہو جائے گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب جلد ہی آ جائے گا مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام پارٹیوں کے لیڈران اپنی اپنی انا اور ذاتی عناد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں فیصلے کریں تاکہ ملک کو انتشار سے بچا کر اصل جمہوری ٹریک پر لایا جا سکے کیونکہ اڑسٹھ سالوں سے عوام اس جمہوری ثمر کو دیکھنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں جب ترقی سب کے لئے ہو جب قانون کی حکمرانی ہو جب روٹی کپڑا مکان،اور بنیادی ضروریات زندگی ہر ایک کو میسر ہوں دوسری صورت میں سب یہی کہہ رہے ہوں گے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے ؟؟؟؟

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206315 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More