مسلمان : مودی کا بیان اور سنگھ کا نظریہ

 نریندرمودی نے ایک امریکی ٹی وی چینل کے لئے فریدزکریا سے کہا کہ ’’مسلمان ملک کے وفادار ہیں، وہ اپنے وطن کے لئے جیتے اورمرتے ہیں ۔ وہ ہندستان کے لئے جان دیدیں گے ،مگراس کا برا نہیں چاہیں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہندستانی مسلمان اس کی خواہش کے مطابق ناچے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ مسلمانوں اور ہمارے ملک کے ساتھ ناانصافی کررہا ہے۔‘‘

یہ نغمہ ہمارے کانوں کو بھی بھلالگا، مگرظفرسریش والا اور شاہد صدیقی کی طرح ہماری باچھیں کھل نہیں گئیں۔ ہمارا بچپن گاؤں میں گزراہے ۔کبھی کبھی شکار کو بھی چلے جاتے تھے۔ معاً خیال اس چارے کا آیا جومچھلی پکڑنے کے لئے کانٹے میں لگاکر دریا میں ڈالا جاتا ہے یا وہ دانے جو جال بچھا کر زمین پر بکھیردئے جاتے ہیں۔ مودی جی ٹھہرے گھاگ سیاسی شکاری، اس لئے اگر ان کی زبان پراس طرح کی بات آگئی جس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی، تو اس کی تہہ میں کچھ نہ کچھ مصلحت تو ہوگی۔ ہم نہ خوش گمانی میں مبتلا ہوں اور نہ بدگمانی میں پڑیں ،بلکہ چوکنا رہیں کہ ابھی مہاراشٹراسمبلی کے چناؤ سر پر ہیں اورموجودہ سیاسی فضا میں ایک دو فیصد ووٹ کی بھی اہمیت ہے۔

اس بیان پر اگرکسی کو یہ اصرار ہے کہ مودی جی کا دل آئینہ ہوگیا ہے اوراس میں سچائی صاف نظرآنے لگی ہے تو معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ ہماری مظلوم قوم کے حال پر رحم کرے۔ مودی وزیراعظم تو چار ماہ سے بنے ہیں، آرایس ایس سے ان کا رشتہ آٹھ سال کی عمر سے ہے۔ اب اس رشتہ کی عمر56 سال ہوچکی ہے۔ وہ آرایس ایس کے معمولی کارکن یا سیوم سیوک نہیں بلکہ بڑے پرچارک ہیں۔ سنگھ کا رنگ ان پر اتنا گہرا چڑھا ہے کہ شادی کے چند ماہ بعد ہی بیوی کو ، جو ایک مثالی ہندستانی خاتون ہیں، چھوڑدیا اور خود کو سنگھ کے نظریات کے پرچار کے لئے وقف کردیا ۔

سنگھ کا نظریہ مسلمانوں کے بارے میں اس کے برعکس ہے جو مودی کے اس بیان سے ظاہرہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوتے ہی کوئی سیوم سیوک اس نظریہ سے دامن چھڑاسکتا ہے جوروز قیام سے آرایس ایس کا بنیادی نظریہ ہے اور جس کا پرچار وہ گزشتہ نوے سال سے کررہی ہے؟ ہم نے مودی کا یہ بیان پڑھا تو ایک برہمن مفکر چانکیہ کا نام ذہن میں کوندھا جو سنگھ پریوار کے فکری رہنماکا درجہ رکھتاہے۔ چانکیہ کا زمانہ تقریباً ڈھائی صدی قبل عیسوی کا ہے۔ وہ اپنے سیاسی فلسفہ کی بدولت چندرگپت موریہ کے سیاسی مشیر بن گیا۔چانکیہ کی شخصیت کافی مشہورہے اور اس کا سیاسی نظریہ اب بھی جادودکھاتا ہے جس کا ایک نکتہ یہ ہے کہ زبان پر وہی بات آئے وہ وقتی سیاسی مصلحت کے مطابق ہو۔ سیاست میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ دل کاحال کوئی بھانپ نہ پائے۔جب وقت آئے تو بلاجھجک چال چل جائے تاکہ مخالف مات کھا جائے ۔ ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ مودی کا راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ سے اور اس کا چانکیہ کے نظریات سے اٹوٹ تعلق ہے۔ مودی کی طرح نرسمہا راؤ بھی چانکیہ کے چیلے تھے، جن کے دور میں مسجد گرائی جاتی رہی اور وہ آرام فرماتے رہے۔کہنے کو وہ کانگریس کی سیکولر وزیراعظم تھے۔
مودی کے اس مصنوعی بیان میں اگرکسی کو ’خوشگوار ہوا کا جھونکا‘ کا محسوس ہوا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ گھٹن کے ماحول میں ہوا کی زرا سی رمق بھی اچھی لگتی ہے۔ مگر قوم کو یہ کہہ کر بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا کہ اس ایک بیان نے سترہ کروڑ مسلمانوں کا دل جیت لیا۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب انہی مودی نے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ دیا، دس سال کے لئے فرقہ پرستی کی سیاست کوروک دینے کا اعلان کیا مگر ان اعلانات کے باوجود ان کی پارٹی اوران کے ہم خیال جنگجو گروپوں کے کارنامے آپ کے سامنے ہیں۔ سچائی وہ نہیں ہوتی جو صرف زبان پرآئے، وہ ہوتی ہے جو عمل سے دکھائی دے۔ مودی کے ان بیانات کا کوئی مطلب اسی وقت ہوگا جب ساکشی مہاراج، آدتیہ ناتھ، گری راج جیسے پارٹی لیڈروں کی زبان بندی ہوگی اور اجین جیسے واقعات پیش نہیں آئیں گے جہاں مبینہ طور سے بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارکنوں نے وکرم یونیورسٹی کے وی سی جواہرلال کول کو اس لئے مارا پیٹا کہ انہوں نے سیلاب زدہ کشمیری طلباء کی مدد کی اپیل کی تھی۔ آخر کشمیری مسلمان بھی تو اسی ملک کاباشندہ ہیں، ان کے خلاف نفرت کا یہ ماحول کس نے پیدا کیا؟ اسی سنگھ پریوار نے جس کے ایک سرپرست خود مودی ہیں۔

کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ اپنی 66ویں سالگرہ کے موقع پر مودی کے قلب ونظر سے آرایس ایس کا رنگ اترگیا ۔ وہ آرایس ایس کی خوبیوں اور خامیوں کاآئیڈیل مرکب ہیں۔آرایس ایس کا اعلانیہ نظریہ یہ ہے کہ مسلمان غاصب اورحملہ آورقوم ہیں۔ اس دلیل کے ساتھ کہ مسلمان مقامی مقدس مقامات اور پوروجوں کے بجائے بیرون ملک دیکھتے ہیں ، عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف شکوک وشبہات اورنفرت پیدا کرتے ہیں۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ صداقت، انسانیت اوراخلاقی اقدار کو ملکی اور قومی حدودمیں قید نہیں کیا جاسکتا۔ صداقت جہاں سے ملے ، اس کو اختیار کر لینا چاہئے۔ وہ ملک سے وفاداری کو بھی اکثریت کے عقائد اور مذہبی رسومات سے جوڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ہی طرح ہم بھی بھارت ماتا کی اور سرسوتی کی وندنا کیا کریں۔ یہی ان کے نزدیک قوم پرستی ہے۔ جب کہ ہمارے لئے حب الوطنی یہ ہے کہ ملک کے ہر باشندے کے جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت ہو، امن وانصا ف کا بول بالا ہو اور کسی بیرونی طاقت کی ہمارے معاملات میں مداخلت نہ ہو۔اس کے لئے ہم نے بڑی بھاری قربانیاں دی ہیں۔ اس کے برعکس ان کے نزدیک مطلوب یہ ہے کہ چاہے حق و انصاف اور مساوات کا خون ہوتا رہے، فتنہ و فساد ہی کیوں نہ برپا کرنا پڑے، ملک کے دروبست پر ایک مخصوص ذہنیت کا قبضہ ہونا چاہئے اور زندگی کے ہرشعبہ پر اسی کی چلنی چاہئے ۔مودی کا یہ ایک بیان جو بطور’میک اپ‘ امریکی دورے سے عین قبل دیا گیا ہے، اس نظریہ کو بدل نہیں سکتا اوراگر نظریہ بدلنے کا گمان بھی ہوا، تو ان کے سامنے لال کرشن آڈوانی کی مثال موجود ہے ۔

اہم سوال یہ بھی ہے کہ یہ شک صرف مسلمانوں کے بارے میں کیوں کیا گیا؟ ان ہندؤوں کے بارے میں کیوں نہیں کیا گیا جو غیرممالک کے لئے جاسوسی کرتے پکڑے گئے؟ پنجاب اورشمال مشرقی ریاستوں نے ملک کے اقتداراعلا کے خلاف جو طویل جدو جہد کی، جس میں خود ہماری فورسزکے ہاتھوں ہزاروں نوجوان تو پنجاب میں ہی مارے گئے، دربارصاحب پر گولے برسائے گئے، اس کے جواب میں بھنڈران والااوراندرا گاندھی کے قتل میں ملوث افراد کو شہید کا درجہ دیا گیا، ان کے بارے میں امریکی صحافی نے مودی سے سوال کرنے کی ہمت کیوں نہیں کی؟

مریخ مشن کی کامیابی
ہمارے سائنسدانوں کا یہ بڑاکارنامہ ہے کہ بہت کم مدت اوربہت کم خرچ میں ہمارا مصنوعی سیارہ ’منگل یان‘ ، جو خلا میں تیرتی ہوئی تجربہ گاہ اور مواصلاتی اسٹیشن ہے، مریخ کے مدار میں پہنچادیا۔ سائنسدانوں کے علاوہ اس کا سہرا سابق حکومت کے سر بھی ہے۔ اس سے قبل چاند پر بھیجا گیا مشن بھی کامیاب رہا تھا۔ دلی مبارکباد۔ اگرایسی ہی مستعدی ہرشہری کو صاف پانی، دوا اور تعلیم کی فراہمی کے شعبے میں بھی دکھائی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ شہریوں کی زندگیوں میں انقلاب نہ آجائے۔ موجودہ حکومت کو بلٹ ٹرین جیسے منصوبوں کے بجائے ریل لائنوں پر پھاٹک بنانے اور بجلی وپانی وغیرہ جیسی ضروریات کو ترجیح دینی ہوگی تبھی ہم سر بلند کر کے ان خلائی کامیابیوں کا لطف اٹھانے کے اہل ہونگے۔

اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم
برطانوی جزیر ہ کی شمالی شاہی مملکت ’اسکاٹ لینڈ‘اوربرطانیہ کی شاہی حکومت نے ایک سیاسی معاہدہ کرکے تین صدی قبل سنہ1707ء میں’ متحدہ سلطنت برطانیہ‘ United Kingdom of Britain کا وفاق قائم کیا۔یہ وفاق مضبوطی سے چلتا رہااور اسکاٹ لینڈ کے باشندوں کو کبھی شکوہ نہیں ہوا۔ نہ حکومت برطانیہ نے کبھی معاہدے کی شرائط کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ قومی اقتدار میں وفاق کے دونوں حصے پورے اطمینان سے شریک رہے۔البتہ وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے رویہ سے بعض شکایات پیدا ہوئیں جن کی تفصیل طویل ہے مگر لب لباب یہ کہ یہ شکایات اسکاٹ لینڈ میں وفاق سے الگ ہوجانے کی تحریک کا سبب بن گئیں۔ اس پر سابق میں بھی ریفرنڈم ہوا مگر وہاں کے باشندوں نے وفاق سے الگ ہونے کے نظریہ کی تائید نہیں گی۔تاہم مہم ختم نہیں ہوئی۔اسی مہم کا نقطہ عروج یہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ پھر ایک ریفرنڈم کرایا گیا اور معمولی اکثریت کے ساتھ وفاق کو برقراررکھنے کا فیصلہ ہوا۔

ملک سے علیحدگی کی یہ تحریک کو کچلنے کے لئے ، جو عرصہ سے چل رہی ہے، نہ تو تحریک کے قائدین کو کبھی گرفتار کیا گیا، نہ ان پر ملک سے غداری اور دشمنی کا الزام لگا، نہ مقامی باشندوں کے شہری حقوق سلب ہوئے اور نہ خصوصی اختیارات کے ساتھ مسلح دستے تعینات کئے گئے، نہ بے نشان قبریں بنیں اور نہ کسی بستی نے برنداون کا منظر پیش آیا کہ ہرطرف بیوائیں ہی نظرآتی ہوں۔ حد یہ ہے کہ تحریک کے قائد کو علاقائی حکومت کے منصب سے ہٹایا بھی نہیں گیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ برطانیہ کم از کم اپنی حدود کے اندر جمہوری قدروں کا کس قدرلحاظ کرتا ہے۔ اس طرح کے تنازعات کو حل کرنے کا یہی ایک مہذب طریقہ ہے۔یہ صورتحال اس سے قطعی برعکس ہے جو 1860تا 1865امریکا میں سول وار کی صورت میں نظر آئی۔ یہ جنگ ان سات جنوبی مملکتوں کے خلاف لڑی گئی تھی جنہوں نے اپنا الگ وفاق بناکر ریاستہائے متحدہ امریکا سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔یہ صورتحال اس سے بھی مختلف ہے جس کا مظاہرہ روس نے چیچنیا کے ساتھ کیا یا چین مسلم اکثریتی مقبوضہ علاقہ ترکستان شرقیہ (یوغور ، نیا نام زنجیانگ) کے قوم پرستوں کے ساتھ کر رہا ہے۔

آرٹی ای کا منفی اثر
حق تعلیم کے نام سے یوپی اے سرکار نے جو غیردانشمندانہ قانون بنایا تھا، اس کے منفی اثرات ، جن پر ان کالموں پر بار بار انتباہ کیا گیا تھا، سامنے آنے لگے ہیں۔ سال بہ سال امتحان نہ ہونے اور سبھی طلباء کو یونہی اگلی جماعت میں داخل کردینے کا اثر یہ ہوا کہ دہلی میں نویں کلاس میں داخلے کے لئے جو ٹسٹ ہوئے تھے ان میں 48 فیصد بچے ناکام قرار پائے اوراب 4ہزارسے زیادہ بچے آٹھویں سے آگے داخلے سے محروم ہوگئے۔ آٹھویں تک انہوں نے جو وقت اسکولوں میں گزارا، وہ بے سود رہا۔ ان کی لیاقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔نیشنل انڈیپنڈنٹ اسکولس الائنس (NISA) کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قانون کے تحت عمارتوں وغیرہ کے ضابطے پورے نہ کرسکنے کی وجہ سے 4,331 اسکول بند ہوچکے ہیں جس کا اثر 8 لاکھ 66ہزار طلباء پرپڑا ہے۔ 15,083پرائیویٹ اسکولوں پر بند ہونے کی تلوار ابھی لٹکی ہوئی ہے۔ سنٹر فارسول سوسائٹی کا تخمینہ ہے کہ اس قانون کی بدولت 17ریاستوں کے 19,414اسکولوں کے تقریباً 35 لاکھ بچے متاثرہوچکے ہیں۔یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے فوری طور سے اس ایکٹ کو ایسے قانون سے بدلا جائے جو عمارتوں سے زیادہ تعلیم اورمعیار تعلیم بڑھانے پر زوردے اور کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ اگلی کلاس میں بھیجے جانے سے قبل یہ اطمینان ہوکہ اس میں اگلے درجہ کا کورس سمجھنے کی کافی لیاقت پیدا ہوگئی ہے۔فی الحال صورت یہ ہے تیسری کلاس کے 78فیصد اور پانچویں کلاس کے 53فیصد بچے دوسری کلاس کی کتاب پڑھ تک نہیں سکتے جمع وتفریق کے وہ سوال حل نہیں کرسکتے جو دوسری کلاس کے نصاب کا حصہ ہیں۔ (ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.