زنزانیا مسٹری آف رینی نائٹس (قسط:2)‎

Chapter:2
"ASHES OF WORDS + THE FIRST RAINY NIGHT"

اگلے دن تھکاوٹ کی وجہ سے رینا کی آنکھ کافی دیر سے کھلی تھی، اس نے نہا دھو کر کپڑے بدلے اور ناشتے سے فارغ ہو کر لان میں چہل قدمی کرنے لگی، آنٹ جینٹ اپنی جاب کے سلسلے میں کہیں گئی ہوئی تھیں، ہیلینا نے اپنی کسی دوست سے ملنا تھا جو پچھلے سال میلی ٹاؤن(Milli town ) شفٹ ہوئی تھی، وہ بھی صبح سے غائب تھی...اور مارلین...اسے دوستیاں جمانے کا کریز تھا، وہ پڑوسیوں سے ہیلو ہائے کرنے گئی ہوئی تھی، چوکیدار کو آج صبح آنٹ جینٹ نے چھٹی دے دی تھی سو اب گھر میں صرف وہ تھی اور نوکر تھے، اسے یہ ساری رپورٹ ملازمہ نیجی سے ملی تھی-

ایک وہی بے ذوق سی لڑکی تھی جسے نہ دوستیاں جمانے کا کوئی شوق تھا اور نہ ہی اسے فضول میں لوگوں کے ساتھ گھومنے پھرنے میں مزا آتا تھا، لڑکوں سے تو خیر سے اس کی نہ کبھی بنی تھی اور نہ ہی بن سکتی تھی، اس کی طرف متوجہ ہونے والے لڑکے اس کے تلخ رویے کی وجہ سے دور رہتے تھے،وہ تو خیر لڑکے تھے اور لڑکوں سے اسے چڑ تھی مگر مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس کی لڑکیوں سے بھی نہیں بنتی تھی،خدا جانے وہ اتنی سنگ دل اور سرد مزاج کیوں تھی،.... وہ شروع سے ایسی تھی، اپنی دنیا میں مگن رہنے والی. ..ہر کسی کے سامنے کھلنا اسے اپنی توہین لگتی تھی، وہ نہ کسی کے قریب جاتی تھی اور نہ ہی کسی کو قریب آنے دیتی تھی، ایسا شاید ماں کی دوری اور رشتہ داروں کے تلخ رویوں کی وجہ سے تھا جس سے وہ چڑچڑی اور سخت مزاج ہو گئ تھی،اگر وہ کسی سے نرم لہجے میں بات کر لیتی تھی تو وہ آنٹ جینٹ، آنٹ سیمی, ہیلینا اور مارلین تھیں، اس کے علاوہ وہ کسی سے کھل کربات کرنا پسند نہیں کرتی تھی، کم از کم پہلی چند ملاقاتوں میں تو بلکل بھی نہیں،رینا خوبصورت بھی تھی اور ذہین بھی، پڑھائی میں ہمیشہ کلاس میں سب پر سبقت لے جاتی،اس کے باوجود اس کا کوئی دوست نہیں تھا، وجہ اس کا تلخ رویہ تھامگر سب کو لگتا تھا کہ اسے اپنے حسن اور اور تعلیمی قابلیت پر بہت ناز ہے تبھی وہ کسی کو منہ نہیں لگاتی،مگر ایسا نہیں تھا، رینا کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، وہ جو بھی تھی جیسی بھی تھی خود کو پسند کرتی تھی،اور جو انسان خود کو پسند کرتا ہو، جاننے کے ساتھ ساتھ سمجھتا بھی ہو تو اسے لوگوں کی سوچ اور باتوں سے تکلیف نہیں ہوتی، اسے بھی نہیں ہوتی تھی.اب تو عادت ہو چکی تھی،اور جب تکلیف عادت بن جاتی ہے تب درد ضرور ہوتا ہے مگر احساس نہیں ہوتا،نہیں یقیناً احساس بھی ہوتا ہے مگر ایسے لوگ احساس چھپانے میں بہت ماہر ہو جاتے ہیں،

اس نے گہری سانس کھینچی اور اپنی بلیک لمبی شرٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر سڑک کے اس پار دیکھا جہاں گھنے درخت اور جھاڑیاں تھیں-میلی ٹاؤن بہت سر سبز اور زرخیز علاقہ تھا، تقریباہر گھر میں باغیچہ تھا، آس پاس بہت سے باغات اور خوبصورت پارک تھے، ہر طرف گھنی جھاڑیاں اور سرسبز پھلوں سے لدے پھندے درخت دکھائی دیتے تھے،سامنے باغ کے اس طرف گھنے جنگلات تھے جو مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے تھے، میلی ٹاؤن کے مغرب میں زرکاڈ ماؤنٹینز(zerkad mountains) کا طویل سلسلہ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا تھا، برف سے ڈھکی یہ چوٹیاں دور سے کسی محل کے میناروں کی مانند نظر آتی تھیں، میلی ٹاؤن آرشیڈس کے تمام شہروں اور علاقوں میں خوبصورتی کی وجہ سے بہت مقبول تھا،زیادہ تر لوگ سیر وسیاحت کے لیے چھٹیوں میں میلی ٹاؤن کا ہی رخ کرتے تھے،یہ سرزبز علاقہ سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں تھا، آرشیڈس کا صرف ایک یہی علاقہ ایسا تھا جہاں ہر قسم کے بے موسم پھل اگتے تھے،یہ ٹاؤن خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا-وہ ٹھنڈی ہوا کے مست جھونکوں کے ہمراہ ابھی مزید چہل قدمی کا ارادہ رکھتی تھی جب اچانک کتاب اور ڈبے کا خیال اس کے ذہن میں بجلی کے کوندے کی طرح لپکا-
"یہ میں کیسے بھول گئ-"بے اختیار اس کے منہ سے نکلا اور وہ تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف بڑھ گئ،کل رات اس نےاپنے اندر سنسنی پھیلاتے ان احساسات کو بمشکل سلایا تھا اور صبح سب کچھ بھول بھال کر آرام سے گھوم پھر رہی تھی، وہ بھی کبھار کتنی عجیب ہو جاتی تھی-خیر...اس نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور کتاب نکال کر رائٹنگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھ گئ-

رینا جسے کتاب سمجھ رہی تھی درحقیقت وہ ایک ڈائری تھی، اس بات کا اندازہ اسےپہلا صفحہ کھولنے کے بعد ہوا تھا، بے حد خوبصورت لکھائی میں نیلی روشنائی سے ایک عبارت لکھی تھی-
"Let the rain wash away, All the pain of yesterday"
وہ صفحہ جگہ جگہ سے سیاہ ہو رہا تھا جیسے جلا ہوا ہو، بلکہ ڈائری کے سارے اوراق ایسے ہی تھے-اس نے اگلا صفحہ پلٹا،

(page#1)
"یہ بارش ...ہے بھی کیا چیز یہ!؟...عجیب سی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے جب میں ان قطروں کو اپنا بدن بھگوتےہوئے محسوس کرتی ہوں، کبھی کبھی ایسے لگتا ہے جیسے یہ میری ساری تکلیفیں، سارے دکھ اور سارے درد اپنے ساتھ بہا لے جائیں گے، میرے زخموں کو صاف کردیں گے'مگر ایسا نہیں ہوتا، میری تکلیف بڑھ جاتی ہے'میرے زخم کھل جاتے ہیں، میں جس کرب سے گزرتی ہوں یہ صرف میں جانتی ہوں، بہت بھیانک ہیں بارش کی یہ ظالم راتیں..."
یہ کیا تھا؟؟ کوئی تحریر یا افسانہ....!-
(page#2)
" آگ ...بھڑکتے ہوئے شعلے..میں جل رہی ہوں، میرا وجود اس آگ میں سلگ رہا ہے، سب میری موت کا تماشا دیکھ رہے ہیں، کوئی بھی آگے نہیں بڑھتا، کوئی بھی میری پکار کا جواب نہیں دیتا...میں رو رہی ہوں، ، میں چیخ رہی ہوں، میری کوئی نہیں سنتا....یہ بارش بھی میرے وجود پر لگی آگ کو بجھانے سے قاصر ہے، یہ تو میری دوست تھی!!....اسے کیا ہوا؟؟؟...
بھیانک راتیں..خوفناک خواب...آج پھر میں نے اپنے وجود کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھا ہے ، میرا وجود سلگ رہا ہے، مجھے تکلیف ہو رہی ہے، ایسے لگ رہا ہے جیسے ابھی کچھ دیر پہلے میرا وجود حقیقت میں جلایا جا رہا تھا..."
رینا نے بے اختیار اپنے خشک گلابی ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اگلا صفحہ کھولا-اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آیا یہ کہانی تھی یا کسی کی آپ بیتی..!؟

(page #3)
" میرا دل کرتا ہے کہ میں ماضی سے منسلک ساری زنجیروں کو کاٹ کر خود کو آزاد کر لوں، مگر میں آزاد نہیں ہو سکتی، ، میں اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی، میں جہاں بھی جاتی ہوں میرا بھیانک ماضی میرے ساتھ چلتا ہے، کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ اپنے ماضی کا ایک ایک حرف جلا کر راکھ کر دوں، اپنی زندگی کا وہ حصہ کھرچ کر الگ کر دوں...مجھے قرار نہیں ہے، میں اپنے وجود کے حصوں کو ہر جگہ تلاشتی پھر رہی ہوں،کیونکہ مجھے واپس آنا ہے..مجھے ہر حال میں واپس آنا ہے...."
اس نے سمجھی کے عالم میں عبارتوں کو دیکھا اور آگے پڑھنے لگی-

(page#4)
"کتنا عجیب ہے یہ میلی ٹاؤن! ..کتنی سرد اور بے رحم راتیں ہیں اس کی..بہت مغرور ہیں اس کے پہاڑ، اس کی وادیاں، اس کے سبزے اور جھیل آسیل(Aseel lake)تو شہزادیوں کے لیے بھی اپنا آپ نہیں جھکاتی...اس جھیل کا گہرا پانی کتنی ہی زندگیوں کو نگل چکا ہے..حد تو یہ ہے کہ اس جھیل سے پھر بھی نفرت نہیں ہوتی..اس کے ٹھنڈے یخ بستہ پانی میں اترنے کا دل کرتا ہے..ڈوب جانے کی خواہش ابھرتی ہے..کتنی ظالم ہے یہ آشام کی جھیل...مجھے اترنے بھی نہیں دیتی...مجھے ڈوبنے بھی نہیں دیتی...یہ تو میری دوست تھی!..اسے کیا ہوا؟"
ٹھیک ہے..رینا نے دلچسپی سے اگلا صفحہ کھولتے ہوئے سوچا، جس نے بھی لکھا ہے،اچھا لکھا ہے مگر یہ سب کیا تھا؟ جاننے کے لیے آخر تک پڑھنا ضروری تھا-

(page#5)
"آج میری اس گھر میں، اس منفرد سے کمرے میں پہلی رات ہے..پہلی رات!...پہلی رات بہت خوفناک کیوں ہوتی ہے...نہیں مجھے تو ڈر نہیں لگتا مگر پتہ نہیں کیوں بابا بہت پریشان ہیں ، وہ رات سو نہیں سکے، ان کی آنکھیں بہت سرخ ہو رہی ہیں اور جب میں نے پوچھا تو وہ بولے. .."نیا گھر ہے اس لیے سو نہیں سکا"...میں تو بہت سکون سے سوئی ہوں.شاید اس لیے کہ یہاں'اس گھر میں مجھے آزادی کا احساس ہو رہا ہے..."
آزادی...!! رینا ٹھٹھک کر رک گئ، اس گھر میں داخل ہوتے وقت اس نے بھی تو کچھ ایسا ہی سوچا تھا-
"آزادی کا احساس انہیں بھی تو ہونا چاہیے مگر انہیں کیوں نہیں ہوا، بہت گھبرائے ہوئے سے لگتے ہیں، دادو کہتی ہیں کہ قبر کی پہلی رات بہت بھیانک ہوتی ہے..وہ بھی تو مرنے کے بعد ایک نیا گھر ہوتا ہے .فی الحال میں قبر کے گھر اور اس کی بھیانک راتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتی کیونکہ میں اپنی 17 سالہ زندگی میں مرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی..ابھی مجھے جینا ہے..مجھے دنیا دیکھنی ہے.."
17 سال...!
"تو لڑکی نے یہ سب تب لکھا تھا جب وہ 17 سال کی تھی، میری عمر کی...،"اسے دلچسپی سی ہوئی..ساری باتیں عجیب وغریب تھیں مگر اسے منفرد سا انداز تحریر اور باتیں بہت پسند آئیں تھیں،گو کہ سمجھ فی الحال کچھ بھی نہیں آ رہا تھا،
"ہر طرف گہرا سکوت چھایا ہوا ہے..دبیز خاموشی ہے..دھند ہے..کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا..درد ہے، تکلیف ہے ، خون کی ندیاں اور خزاں رصیدہ آنگن ہیں. .میں رونے کی آوازیں سن رہی ہوں، وہ رو رہا ہے...چیخ چیخ کر رو رہا ہے...میں دوڑتی پھر رہی ہوں مگر وہ مجھے دکھائی نہیں دے رہا..وہ یہیں کہیں ہے..میرے آس پاس...بہت قریب..جانتی ہوں میں کہ اگر پا لیا تو چھو نہیں سکوں گی...خود میں چھپا نہیں سکوں گی..وہ میرے پاس نہیں آئے گا..میں اسے بلاؤں گی تو وہ دور بھاگے گا..مجھے اس کی نفرت کا اندازہ ہے...اس کے باوجود یہ آنکھیں اسے تلاشتی ہیں، میری سماعت اس کی پکار کو ترستی ہے!!...وہ دھند میں کہیں دور چھپتا جا رہا ہے اور میں ننگے پاؤں بھاگ رہی ہوں!...ہوا کیوں ساکت ہے؟؟کیوں دھند کو ختم کرنے میں میری مدد نہیں کرتی...یہ تو میری دوست تھی!....اسے کیا ہوا؟؟"
ساری باتیں رینا کے سر سے گزر رہی تھیں، اسے صرف الفاظ سمجھ آ رہے تھے اور کچھ نہیں. .شاید آگے کچھ سمجھ آ جائے کہ یہ سب کیا تھا-

(Page#6)
"لوگ کہتے ہیں کہ میلی ٹاؤن کی آدھی خوبصورتی آسیل جھیل ( Aseel lake) میں ہے اور میں اس وقت جھیل کے کنارے کھڑی سوچ رہی ہوں کہ لوگ صحیح کہتے ہیں، سورج کہ کرنیں جھیل پر پڑ رہی ہیں، ایسے لگتا ہے جیسے یہ ہیرے و جواہرات کا سمندر ہو...سرد ہوائیں چل رہی ہیں، جھیل کے چاروں طرف خوبصورت پودے اور پھول اگے ہوئے ہیں. .اتنے خوبصورت اور منفرد پھول میں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے..کیا تم اس بات پر یقین کرو گی کہ میں نے ابھی جھیل کے کنارے درخت کے پاس ایک منفرد سیاہ گلاب دیکھا ہے..اس گلاب پر چاندی کی قدرتی چمک ہے، یہاں یہ اپنی نوعیت کا واحد پھول ہے...میں نے اسے چھو کر دیکھا ہے، اس کی پھنکڑیاں بہت نرم اور نازک ہیں بلکل گلاب کی پھنکڑیوں کی طرح..اس کی خوشبو...اوھ خدا. بہت ہی دلکش ہے...کاش میں اس پھول کو ساتھ لے جا سکتی...وہ اتنا خوبصورت ہے کہ مجھے توڑنے کا دل نہیں کر رہا..میں نہیں چاہتی کہ یہ میرے ہاتھوں میں مرجھاجائے...."

سیاہ گلاب کا پھول...چاندی کی قدرتی چمک..!!؟..رینا حیران ہوئی..اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ صرف خیالی کہانی تھی اور کچھ نہیں-

"سیاہ گلاب کے پاس ایک درخت ہے..سر سبز اور پھلوں سے لدا پھندا درخت...اس کے تنے پر میں نے اپنا نام لکھا ہے-دادو کہتی ہیں کہ کہ ہم جہاں بھی جاتے ہیں اپنا نشان چھوڑ کر آتے ہیں، یہ زمین ہمیں یاد رکھتی ہے، پھول ہمارا لمس تاعمر محسوس کرتے رہتے ہیں اور درخت اپنے وجود پر کندہ نام دیکھ دیکھ کر فخر کرتے ہیں..مجھے دادو کی باتیں سن کر اچھا بھی لگا تھا اور ہنسی بھی آئی تھی، آج میں نے یہ شرف ایک درخت کو بخش دیا ہے..میرا نام درخت کے تنے پر لکھا ہے، درخت مسکرا رہا ہے..میں بھی مسکرا رہی ہوں________________
وہ کہتا تھا کہ قدرتی مناظر ہمارے دوست ہوتے ہیں..ان سے ہمارا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے..وہ بھی ہمیں محسوس کرتے ہیں جیسے ہم انہیں محسوس کرتے ہیں، انہیں دیکھنے سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے'دل کو سکون ملتا ہے...."

(Page#7)
"نہیں میں گھبرائی نہیں ہوں، اور نہ ہی خوفزدہ ہوئی ہوں..میں ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتی، بھوتوں اور بدروحوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا....میں تو بس ویسے ہی اس دو سال کی بچی کے بارے میں سوچ رہی ہوں جو مجھے آشام جھیل سے واپسی پر باغ میں ملی تھی...اگر وہاں میری طرح دوسرے لوگ بھی موجود ہوتے تو شاید تب میں اس بچی کے بارے میں اتنا نہ سوچتی،مگر باغ میں میرے علاوہ کوئی نہیں تھا،...وہ گول مٹول سی خوبصورت بچی اچانک ہی میرے سامنے آ گئ تھی..مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ وہ اکیلی باغ میں کیا کر رہی تھی..وہاں کوئی بھی نہیں تھا، اسی لمحے میں نے اپنے عقب میں آہٹ سنی تھی، جیسے کوئی جھاڑیوں سے نکل کر میرے پیچھے آ کھڑا ہوا، میں نے پلٹ کر پیچھا دیکھا تو حیران رہ گئ، وہاں کوئی نہیں تھا، صرف ایک نظر پیچھے دیکھنے کے بعد سامنے دیکھا تو بچی غائب!!!...بس اس کا اچانک اور پل بھر میں غائب ہو جانامجھے سمجھ نہیں آ رہا______________________

"انٹرسٹنگ.... " رینا نے دلچسپی سے سوچا اور آگے پڑھنے لگی-
_____

"ہر طرف اندھیرا ہے...خاموشی ہے..اور وہ اسے دور بہت دور لے جا رہے ہیں..وہ چیخ رہا ہے..رو رہا ہے..اور میں جانتی ہوں اسے میرے وجود کی تلاش ہے..وہ میرے لیے رو رہا ہے..میں بھی کمزور ہوں وہ بھی کمزور ہے...میں آوازیں دے رہی ہوں کہ شاید کوئی میری فریاد سن لے..صرف ایک جھلک دیکھنے دیں مجھے...صرف ایک بار سینے سے لگانے دیں..صرف ایک بار..زندگی بھی مجھ سے روٹھ گئ..اس نے بھی مجھ سے کھیلنا شروع کر دیا,یہ تو میری دوست تھی!... اسےکیاہوا؟؟_______________________


(Page#8)
سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس حقیقت کو کیسے قبول کروں جو ہوا وہ کیا تھا-دادو کہتی ہیں کے میلی ٹاون کے لوگ بارش کی راتوں میں باہر نہیں نکلتے اور جب میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگیں، "راز راز ہی رہیں تو اچھا ہے..حقیقت سامنے آتی ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے...تم باہر مت نکلنا..."
حد ہوتی ہوتی ہے توہم پرستی کی بھی..بارشوں کا راز سے کیاتعلق!؟"______________________

شام کے آٹھ بج رہے ہیں اور میں اس وقت اپنے گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوں..باہر خوشگوار موسم ہے،اندھیرے کے ساتھ ساتھ آسمان پر سیاہ بادل پھیل رہے ہیں، میں بہت شدت سے میلی ٹاون کے آسمان کی پہلی بارش کا انتظار کر رہی ہوں....انتظار..! مجھے بابا کی آواز سنائی دے رہی ہے وہ مجھے اندر بلا رہے ہیں. دادو کی طرح وہ بھی توہم پرست ہیں، آج صبح مجھ سے کہہ رہے تھے،"جب رات میں بارش ہو تو کھڑکیاں اور دروازے بند کر دینا اور باہر مت نکلنا..".بہت کوفت سی ہوتی ہے مجھے ایسی باتوں سے-اب کیا میں موسم سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتی..!
_______________________________________________________
(Page#9)
"شاید میں کبھی بھی یقین نہ کرتی اگر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا ہوتا،..اس لمحے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی اور میں بابا کا حکم بجا لانے کے لیے اندر جانے ہی لگی تھی کہ مجھے سڑک کے اس پار اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں جھاڑیوں کے پاس کوئی وجود دکھائی دیا، میں ٹھٹھک کر رک گئ، درخت کے پاس مجھے سفید لباس میں ملبوس سیاہ بکھرے بالوں والی لڑکی نظر آئی تھی، اس کے پیٹ پر گہرا زخم تھا، لباس کا دامن خون سے سرخ ہو رہا تھا، وہ درد بھری نظروں سے مجھے دیکھے جا رہی تھی، اس نے اپنا داہنا ہاتھ میری طرف یوں اٹھایا جیسے مدد کے لیے بلا رہی ہو...خدا جانے وہ کون تھی اور اس وقت اس حال میں وہاں کیوں کھڑی تھی، میں نے اس کے چہرے پر تکلیف دہ تأثر ابھرتے دیکھا..وہ شدید تکلیف میں تھی، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس کی جانب دوڑ پڑی.مگر میرے قریب پہنچتے ہی اس نے باغ کی طرف دوڑنا شروع کر دیا، اس لمحے خدا جانے مجھے کیا ہوا تھا کہ میں رک نہیں سکی اور اس کے پیچھے بھاگتی رہی، ایسے لگتا تھا جیسے مجھے کوئی طاقت حصار میں لے کر اپنی طرف کھینچے جا رہی ہے..دفعتاً میں ایک جھٹکے سے رک گئ'حصار ٹوٹ گیا تھا، میں نے خود کو جنگل میں پایا، بارش بہت تیز ہو گئ تھی،اور میرا وجود مکمل طور پر بارش سے بھیگا ہوا تھا..اور اس لمحے زندگی میں پہلی بار میں نے بے بسی کے عالم میں خوف محسوس کیا تھا،اپنے گرد بازو باندھے لرزتے وجود کے ساتھ میں یہی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کیا ہوا تھا،..کیا ہوا تھا؟؟؟....میں گھبرائی ہوئی کھڑی تھی جب مجھے وہ لڑکی اپنے سامنے کچھ ہی فاصلے پر دکھائی دی-وہ دوسری طرف رخ کیے کھڑی تھی...میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے اس کے وجود پر نظر ڈالی..وہ اس موسلادھار بارش میں ذرہ بھر نہیں بھیگی تھی، بے اختیار میرے قدم اس کی جانب اٹھ گئے، میرا وجود جیسے میرے قابو میں نہیں رہا تھا، میں جیسے کسی کے زیر اثر تھی،اسی لمحے مجھے اپنے کندھوں پر کسی کے ہاتھوں کی گرفت محسوس ہوئی، ایسے جیسے کسی نے مجھے روکنے کی کوشش کی ہو' دفعتاً وہ لڑکی میری طرف پلٹی اور اگلے ہی لمحے میرے حلق سے چیخیں نکلتی چلی گئیں تھیں،__________________

رینا نے حلق سے تھوک اتارتے ہوئے فوراً سے صفحہ پلٹا، مگر اس سیاہ جلے ہوئے صفحے پر کچھ بھی نہیں تھا، یکے بعد دیگر اس نے سارے صفحے چھان مارے مگر وہاں مزید کچھ بھی نہیں لکھا تھا، کوئی عبارت نہیں تھی، کوئی لفظ نہیں تھا، ایسے لگتا تھا جیسے تمام الفاظ مٹا دیئے گئے ہوں...وہ حیران وپریشان سی بیٹھی تھی. آگے کیا ہوا تھا؟ اس لڑکی نے کیا دیکھا تھا؟ کیا یہ حقیقت تھی؟؟..نہیں یہ حقیقت نہیں ہو سکتی..یہ صرف اور صرف کہانی ہے..اسے یک دم گھبراہٹ ہونے لگی، وہ کتاب دراز میں ڈالنے کے بعد کھڑکی کھول کر گہری سانسیں لینے لگی-
اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا تھا؟ وہ کمزور تو نہ تھی پھر اس طرح اچانک اس کا دل شدت سے کیوں دھڑک اٹھا تھا-خیر اس نے اپنے ذہن پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا اور یہ سوچتے ہوئے نیچے چلی گئ کہ اس نے جو کچھ پڑھا وہ ایک من گھڑت کہانی کے علاوہ کچھ نہیں تھا....
_●●●●●●●●●●_
رات کو جب وہ سونے کے لیے لیٹی تو کتاب کا خیال فوراً سے اس کے ذہن میں لپکا، وہ لیمپ کی روشنی میں کتاب نکال کر بیٹھ گئ، اس نے ان سات آٹھ صفحوں پر مشتمل انوکھی عبارتوں کو کئ بار پڑھا، سمجھنے کی کوشش کی مگر نا کام رہی-
ہاں البتہ بار بار پڑھنے سے اسے اس بات کا اندازہ ضرور ہو گیا تھا کہ اس میں دو مختلف اوقات کا حوالہ تھا، دردبھری خیالی تحریر کو پڑھ کر ایسے لگتا جیسے وہ بعد کا قصہ ہو اور لڑکی کی میلی ٹاون کی آپ بیتی پڑھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ماضی میں لکھے جانے والی ایک ڈائری ہو،مگر حیرت اس بات کی تھی کہ کوئی انسان اپنے موجودہ وقت کے ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں کیسے لکھ سکتا ہے، وہ بھی ایک ساتھ ...!!...ایک پیراگراف ماضی کا حصہ تھا تو اگلے پیراگراف میں لڑکی اس طرح سے مخاطب ہوتی جیسے اس نے ابھی یہ سب لکھا ہو،.... یہ یقینا فرضی باتیں تھیں..اگر حقیقت تھی تو یہ سوچا جا سکتا تھا کہ لکھنے والے نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو ایک ترتیب سے بعد میں لکھا ہے، ماضی اور حال...اگر ایسا ہے تو پھر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے..اس نے سوچا-یہ کہانی ہی ہو سکتی ہے، خیالی کہانی..!!!
اسی لمحے بادل زور سے گرج اٹھے تھے، اس نے سر اٹھا کر کھڑکی کی جانب دیکھا، بارش کے قطرے کھڑکی کے شیشوں پر نقطوں کے صورت میں نظر آ رہے تھے، بارش ابھی شروع ہوئی تھی، اس نے کتاب بیڈ سائڈ ٹیبل کے اندر رکھتے ہوئے ایک نظر ڈبے کو دیکھا جو کچھ دیر پہلے اس نے نکال کر رائٹنگ ٹیبل پر رکھا تھا، وہ رائٹنگ ٹیبل کے پاس آئی، ڈبے کو ہلاتے ہوئے اندر کچھ محسوس کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی.. ڈبہ اٹھاتے وقت اس بات کا اندازہ تو ہو ہی جاتا تھا کہ وہ خالی نہیں تھا، خدا جانے اس کے اندر کیا تھا،وہ اگلے چند لمحوں تک پاسورڈ کے خانون کو چھیڑتی رہی...8 حروف پر مشتمل لفظ...وہ کچھ دیر تک حروف آگے پیچھے کرتی رہی پھر ڈبہ دراز میں رکھنے کے بعد کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو گئ-میلی ٹاون کی پہلی بارش...!! اس نے سکون بھری سانس کھینچی-بارش تیز ہو گئ تھی، بوندیں تڑ تڑ کرتیں شیشوں پر برس رہی تھیں، اچانک سے اسے ایسے محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے پیچھے آ کھڑا ہو، اس نے یک دم پلٹ کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا، یہ اس کا وہم تھا یقیناً،اس نے لیمپ آف کر دیا اور سونے کے لیے لیٹ گئ،

رینا کو یاد نہیں تھا کہ اس کی آنکھ کب لگی تھی البتہ کھلی تب تھی جب کمرے کی کھڑکیاں کھٹاک کی آواز کے ساتھ ایک جھٹکے سے کھل گئیں تھیں، وہ ہڑبڑا کر فوراً سے اٹھ بیٹھی-بجلی چمکی، کمرہ پل بھر کے لیے روشن ہوا پھر اندھیرے میں ڈوب گیا، رینا نے ہاتھ مار کر لیمپ روشن کر دیا-پردے ہوا کے زور سے اڑ رہے تھے اور بارش کا پانی کھلی کھڑکیوں سے اندر آ رہا تھا، باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی، اس نے جلدی سے اٹھ کر کھڑکیاں بند کر دیں اور ابھی پلٹی ہی تھی کہ یک دم ٹھٹھک کر رک گئ،کمرے کا دروازہ کھلا تھا، فرش پر گیلے جوتوں کے نشان تھے جو لیمپ کی زرد روشنی میں واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے، اس نے قدموں کا تعاقب کھڑکی سے کیا تو ان کا رخ رائٹنگ ٹیبل کی جانب تھا، رائٹنگ ٹیبل سے ہوتے ہوئے یہ نشان دروازے کی طرف جا رہے تھے، بادل گرج اٹھے، بجلی کڑکی، کھڑکی سے روشنی جھانک کر غائب ہو گئ، اور وہ حیران و پریشان کھڑی اس ڈائری کو دیکھنے لگی جو رائٹنگ ٹیبل پر کھلی پڑی تھی، اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ اس نے ڈائری بیڈ سائڈ ٹیبل کی دراز میں رکھی تھی، کیا کوئی اس کے کمرے میں آیا تھا؟؟؟گیلے قدموں کے نشان دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی کھڑکی سے اندر داخل ہوا ہو، کیونکہ کھڑکی کی نیچے دیوار اور فرش پر گیلی مٹی کے نشان تھے اور یہی نشان رائٹنگ ٹیبل سے دروازے کی طرف جا رہے تھے،
دروازہ!...
وہ بے اختیار دروازے کی طرف بھاگی، کوریڈور میں سنٹرل بلب روشن تھا اور فرش پر وہی گیلے قدموں کے نشان!اس کا اندازہ درست ثابت ہوا تھا، کوئی اس کے کمرے میں آیا تھا، یقینا کوئی اس کے ساتھ کھیل کھیل رہا تھا، ہاں ایسا ہی تھا،اس نے سیڑھیاں اترنے سے پہلے نیچے جھانکااور چونک گئ،براؤن گیٹ کھلا ہوا تھا اور کوئی بے حد تیزی سے باہر نکل گیا تھا-کون ہو سکتا ہے؟؟ اس کا خیال نوکروں کی طرف چلا گیا، نچلی منزل پر نوکر رہتے تھے، وہ جو بھی تھا اب باہر جا چکا تھا-اسی وقت بجلی زور سے کڑکی اور رینا نے یک دم گھبرا کر سیڑھیوں کے ساتھ لگی آہنی ریلنگ کو تھام لیا پھر تیز تیز قدم اٹھاتی نیچے آ گئ-اس نے گیٹ کے پاس رک کر باہر جھانکا، لان کی لائٹس تو رات میں آن ہوتی تھیں مگر اس وقت آف تھیں، باہر گھپ اندھیرا تھا، وہ گیٹ بند کرنے لگی، ہوا کے شدید زور کی وجہ سے دروازہ بند کرنا آسان نہیں تھا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور جب دروازہ بند ہونے ہی لگا تھا تو اس کی نظر باہر سیڑھیوں پر پڑی، اسے ایسے محسوس ہوا جیسے وہاں کوئی کھڑا ہو،وہ ایک سیاہ سایہ تھا شاید،رینا کو شدید حیرت ہوئی تھی، ابھی کچھ دیر پہلے دیکھنے پر اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیا تھا، وہ وجود سامنے سیڑھیوں پر کھڑا تھا، اس کے قدم حقیقت جاننے کے لیے اسے باہر کھینچ لائے،
"کون ہے؟؟" اس نے بے خوفی سے بلند آواز میں پوچھا، بارش کے شور میں اس کی آواز کہیں دب سی گئ تھی مگر اسے یقین تھا کہ سامنے کچھ ہی فاصلے پر بارش میں بھیگتے وجود نے اس کی آواز سن لی تھی، وجود میں ہلکی سی جنبش ہوئی، عین اسی لمحے بجلی کڑک اٹھی، پل بھر میں چمکنے والی روشنی میں اسے سنہرے لمبے اور بھیگے بال دکھائی دیئےتھے، وہ ایک لڑکی تھی جس کا رخ دوسری طرف تھا، میلی ٹاؤن ایک بار پھر بجلی کے غائب ہوتے ہی اندھیرے میں ڈوب گیا تھا، لڑکی لان میں بھاگتی ہوئی نظر آئی، اور تب خدا جانے اسے کیا ہوا تھا کہ وہ سیڑھیاں اتر کر لان میں آ گئ تھی، وہ باہر کیوں آ گئ تھی؟؟ اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا، کوئی طاقت اسے باہر کھینچ لائی تھی،..کسی وجود کی انہونی طاقت جسے وہ دیکھ نہیں سکتی تھی مگر محسوس کر رہی تھی، ہاں کوئی اسے باہر کھینچ لایا تھا،وہ کچھ لمحوں تک لان میں کھڑی بارش میں بھیگتی رہی پھر اس نے دوڑنا شروع کر دیا،وہ کہاں جا رہی تھی ؟؟کس کا تعاقب کر رہی تھی؟؟ اسے کچھ پتہ نہیں تھا،وہ بس اندھا دھند بھاگے جا رہی تھی،رینا کسی کے زیر اثر تھی، کئ بار وہ جھاڑیوں سے الجھی،درختوں سے ٹکرائی، ٹھوکریں کھا کر نیچے گری اس کے باوجود وہ بھاگتی رہی،ایسے لگتا تھا جیسے وہ کسی کا تعاقب کر رہی ہو اور اس جستجو میں وہ دور بہت دور نکل آئی تھی،عجیب وغریب آوازیں اس کی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں،انہی آوازوں میں اسے اپنا نام بھی کئ بار سنائی دیا تھا، شاید کوئی اسے پکارے جا رہا تھا، بارش کا شور بہت زیادہ تھا، آوازیں کہیں دب سی گئی تھیں،اسی لمحے جنگل خوفناک آوازوں سے گونج اٹھا تھا،
دفعتاً کسی نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا، وہ کسی کے کھینچنے پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور لہرا کر زمین پر آ گری تھی،سامنے کوئی چیز اندھیرے میں بجلی کی سی تیزی سے گزر گئ،اس نے غرانے کی آواز سنی،پھر اسے کوئی ہوش نہیں رہا تھا..................

جاری ہے..........
Husna Mehtab
About the Author: Husna Mehtab Read More Articles by Husna Mehtab: 4 Articles with 7815 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.