حکومت کی دس بڑی غلطیاں ۔ ۔۔

عوام کی طاقت سے کوئی انکاری نہیں ہو سکتا ہے کسی بھی ملک کے سیاسی و معاشی حالات کا جائزہ لینے سے تصدیق ہو جاتی ہے کہ عوام کا ووٹ بہت معنی رکھتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔ سبھی پر عیاں ہے کہ جس طرح عوام اپنے ووٹ کا استعمال کرکے کوئی بھی پارٹی کی حکومت چاہتے ہیں بالکل اسی طرح وہی عوام خاطر خواہ مقاصد حاصل نہ ہونے کے بعد اسی حکومت کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں ۔ یہ عوام کا جمہوری حق ہے۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی حالات کے اتار چڑھاؤ سے بے حد مسائل پیدا ہورہے ہیں ان مسائل کی ذمہ دار کسی حد تک حکومت بھی ہے۔

یہ سچ ہے کہ جب حکومت اقتدار میں آتی ہے تو شروع میں اسے بے پناہ مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے بالکل اسی طرح نواز حکومت کو بھی بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ یقین مانئے خوشخالی ، بہتری کبھی بھی کوئی سویٹ ڈش کی طرح پیش نہیں کرتا ہے ان کیلئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ نواز حکومت کو سیاست کا شاندار تجربہ حاصل ہے۔ مگر شاید بد قسمتی سے حکومت اپنے تجربہ سے فائدہ نہ اٹھا سکی اور 2013؁ء کے الیکشن کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد کچھ سنگین غلطیاں کر بیٹھی جو تاریخ میں لکھی جائیں گی ان غلطیوں کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ مستقبل میں تاریخ پڑھنے والے سیاسی جماعتیں ان سے سبق ضرور حاصل کریں گی۔یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ایک عام شہری کی طرح موجودہ حالات سے پیدا ہونے والے بحران سے پریشان ہوں ۔ ایک عام شہری یا محب وطن حکومت کے فیصلوں کو کس طرح محسو س کرتا ہو یا بیان کر سکتا ہے میں وہ کر رہی ہوں۔

نواز حکومت نے دس بڑی غلطیاں کیں ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی سالمیت کے بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت میں شفاف الیکشن ممکن ہی نہیں جو بھی جماعت حکومت میں آتی ہے وہ کہیں نہ کہیں دھاندلی کا سہار ا لے کر ہی آتی ہے۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے دھاندلی سے حکومت بنائی حال میں اگر نواز حکومت نے دھاندلی کی ہے تو اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مستقبل میں اگر عمران خان کی حکومت آتی ہے تو وہ بھی یقینادھاندلی کے کیچڑ میں خود کو گندا کرکے آئیگی۔ خیر بات ہو رہی تھی حکومت کی غلطیوں کی تو ذیل میں دس غلطیاں تحریر ہیں۔

حکومت کی پہلی غلطی کہ اقتدار میں آتے ہی بڑے قرضے لیکر پنجاب کو پیرس بنانے نکلی ۔اس کے قطع نظر کہ عوام کا بنیادی ضرورت کا استحکام چاہیے ان کو روٹی ، کپڑا ، مکان چاہیے، لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا چاہیے ۔۔مگر حکومت نے بنیادی ضرورت کو پس پشت پر ڈالتے ہوئے بڑے منصوبوں کیلئے قرضے لینا شروع کر دیے یہ الگ بات ہے کہ منصوبہ پورا نہیں ہو پاتا اور پیسہ حکمران کے قبضے میں چلا جا تا ہے۔

دوسری غلطی حکومت نے جمہوریت کے نام پر بادشاہت کرنا چاہی نواز شریف قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شاز و نادر ہی شرکت کرتے ہیں سینٹ کے قانون کیمطابق کہ وزیراعظم کو ہفتے میں ایک دفعہ سینیٹ میں حاضری دینا ضروری ہوتا ہے مگر وہ لاپراوہی کا مظاہرہ کرتے رہے ہاں مگر وزیراعظم صاحب بھاری نفری میں قوم کے خرچوں پر غیر ملکی دورے پر جاتے رہے ہیں معلوم نہیں ان غیر ملکی دوروں سے کونسی خوشخالی آنیوالی تھی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے رشتہ داروں ، دوستوں اور من پسند لوگوں کو اقتدار میں لاتے ہوئے اہم وزارتوں کی سیٹیں اپنے ہی خاندان میں بانٹ دیں۔ گویا انھیں 18کروڑ عوام میں سے کوئی بھی پڑھا لکھا، قابل اور اہل بندہ نظر نہیں آیا۔ نواز شریف کی بادشاہت ان کے اپنے ہی خاندان کے گول میز کے گرد تقسیم ہوئی اور جب بھی کوئی فیصلہ کرنا ہوتا تو اسی نام نہاد جمہوری بادشاہت جس کو اگر خاندانی جمہوریت کہیں تو غلط نہ ہوگا سے مشورہ کرتے ان کے علاوہ کسی بھی ایم این اے سے مشورے کرنے کی زحمت نہ کرتے گویا حکومت کا یہ بادشاہی نظام عوام کے سامنے آتا چلا گیا۔

تیسری غلطی یہ ہوئی کہ ملکی حالات دہشت گردی سے جب کنٹرول سے باہر ہو چکے تھے تو انھوں نے کوئی ہوم ورک کئے بغیر فوج کو آپریشن کا حکم دیدیا۔ بلاشبہ فوج کا آپریشن کامیاب اور فوج کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ مگر حکومت نے آئی ڈی پیز کی آمد کیلئے کوئی خاطر خواہ انتظام کیے اور نہ ہی ان کی امداد کیلئے کوئی چارٹ شیٹ نہ کوئی منصوبہ بندی نہ ہی کسی قسم کا لائحہ عمل تیار کیا۔ معاشی حالات پہلے ہی کنٹرول سے باہر تھے مگر آئی ڈی پیز کی لاکھوں تعداد کی آمد نے حالات میں ہلچل مچا دی ۔۔ ان لوگوں کو سہولیات مہیا کرنے میں حکومت ناکام رہی۔

چوتھی بڑی غلطی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تھی ۔ عوام کی جمہوریت پر یہ سوال اٹھنے لگے ۔کہ کیسی جمہوریت ہے یہ کہ سر عام پولیس 18 لوگوں کو گولیوں سے ہلاک کر دے۔ بیشمار زخمی کر دے پوری دنیا اس واقع سے با خبر ہوگئی مگر وزیراعلی کو میڈیا کے زریعے اس واقعہ کو علم ہوا ۔ حیرت ہے کہ رہائش گاہ کے قریب اتنی بڑی خون کی ہولی کھیلی گئی اور انھیں خبر تک نہ ہوئی ۔, ۔چلیں مان لیں کہ انھیں خبر نہیں ہوئی مگر جب ان کے علم میں یہ بربریت آئی تو کوئی ایف آئی آر نہ کٹی۔۔۔؟پولیس کو کس نے سیدھی گولیاں مارنے کا حکم دیا ۔۔۔ کسی بھی جمہوری نظا م میں اس طرح کی شرمناک پولیس گردی اور حیوانیت نہیں ہوتی ہے ۔ مگر نواز حکومت سے یہ بڑی غلطی ہوگئی۔۔۔

اس غلطی کی وساطت سے پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے حکمرانوں ، بادشاہت اور دھاندلی کا احتساب کرنے کا ارادہ کر لیا۔ بلکہ حکومت کا چہرہ اور عزائم بے نقاب ہوتے چلے گئے اور 14اگست کو دونوں پارٹیوں نے لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا۔

پانچویں غلطی صرف چار حلقے کھولنے سے انکار کی صورت میں ہوئی اس انکار سے انتشار پیدا ہوا باقی پارٹیوں کو میدان میں عملی طور پر مطالبات کرنے کا راستہ مل گیا۔

پر امن احتجاج ہر انسان کا جمہوری حق ہے ۔ مگر 14اگست کو حکومت نے جگہ جگہ رکاوٹیں ، کنٹینڑ لگا کر احتجاج کرنے والوں کا راستہ روک کر چھٹی غلطی کر ڈالی۔ جمہوریت میں لانگ مارچ کرنا پر امن احتجاج جس میں کسی قسم کا نقصان نہ ہو کرنا سب قوموں میں ہوتا چلا آیا ہے۔ مگر حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی اور راستے بند کرنے لگی حالانکہ حکومت کا یہ غیر جمہوری طریقہ کار تھا۔ خیر غلطی ہوگئی۔۔۔

17 دن پر امن احتجاج کے بعد بھی کوئی حل نظر نہ آیا ۔حکومت کی خاموشی، نظر اندازی ظاہر کرتے رہی کہ اب وہ حالات کو کنٹرول کرنے سے نا اہل ہو چکی ہے ۔مظاہرین نے مزید پیش قدمی کی مگر حکومت نے غلط لوگوں کے غلط مشورے پر عمل کرتے ہوئے طاقت کا استعمال کرنے کا حکم دیا ۔ بے گناہ انسانی جانوں کو نقصان پہنچا یا گیا۔ پولیس مظاہرین میں تصادم ہوتا رہا اور جمہوری حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے خاموشی سے تماشگیر بنی رہی ۔ طاقت کا استعمال کی صورت میں حکومت نے ساتویں بڑی غلطی کی جس کی مذمت دنیا بھر نے کی۔

وزیراعظم نواز شریف نے حالات کو بہتر کرنے کے لیے سیاسی حل تو نہ نکالا مگر آرمی چیف کو ثالث یا سہولت کار بنانے کی درخواست کر ڈالی۔ لیکن انہوں نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ انھوں نے آرمی چیف کو درخواست نہیں کی۔حکومت جمہوری ناقص نظام میں سیاسی حل نہ نکال سکی۔ آرمی جو کہ غیر سیاسی ادارہ ہے اسکو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست دے کر آرمی کو سیاست میں انوالو کیا اور بعد میں اپنے ہی فیصلے سے غلط بیانی کرکے غلط رنگ پیدا کیا۔ یقین مانیے میاں صاحب کے اس رخ نے ان کی حکومت کو ایک اور رخ دے دیا ہے۔۔۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مکمل طور پر پسپا ہو چکی ہے۔گویا وزیراعظم کے بیان سے انھیں کو صادق اور امین نہیں کہا جا سکتا ۔ غلط بیانی کرکے انھو ں نے تاریخی غلطی کر ڈالی آنیوالی نسلیں اس غلطی سے سبق ضرور حاصل کریں گی ہاں مگر حال میں ہی وزیراعظم کے اس عمل سے حکومت کو خطرناک ٹیکہ لگ چکا ہے۔

نویں غلطی حکومت نے صحافیوں پر حملے کی صورت میں کی ۔ تصادم کے دوران پولیس نے صحافیوں کو نقصان پہنچایا ۔ پولیس حکومت کے حکم کی پابند ہے ۔ 17دن پولیس نے ہاتھ تک نہیں لگایا مگر حکومت کے گرد جب خطرے منڈلاتے رہے صحافی سچ اور حقیقت دنیا کے سامنے لاتے رہے حکومت کو شدید دھچکا لگا اور حکومت نے صحافیوں پر حملہ کرنے کی سازش کی تاکہ مزید ثبوت سامنے نہ آئیں مگر سچ چھپ نہیں سکتا۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ اپنی حکومت کی سیٹ بچانے کیلئے طاقت کا
بے دردی سے استعمال کرتی رہی۔

جمہوریت بچانے کیلئے وزیراعظم کے چاہیے تھا کہ وہ خود بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے دونوں پارٹیوں سے مذاکرات کیلئے جائیں ۔ مگر شاید طاقت اتنا چسکا پڑ چکا ہے کہ وزیراعظم صاحب نہ کرسی چھوڑ رہے ہیں نہ مذاکرات کیلئے جا رہے ہیں نہ ہی کوئی بیچ کا راستہ نکال رہے ہیں، اور ا نا کے پجا ر ی بن کر دسو ین غلطی کر دی۔ معلوم نہیں اتنی غلطیوں کے باجود وہ کس قسم کی جمہوریت کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں ۔

خیر جو بھی ہوا یا ہو رہا ہے حکومت نے دس بڑی غلطیاں کی ہیں ۔ اب بھی حالات کنٹرول کیے جا سکتے ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات کرائے جائیں۔ہمیں پاکستان کی جگ ہنسائی نہیں کروانی چاہیے۔ عمران خان اور قادری صاحب نے بھی غلطیاں کیں مگر اب وقت آچکا ہے کہ ریاست کو بچانے کے لیے عمران، قادری اور نواز شریف تینو ں کو لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے تاکہ موجودہ سیاسی بحران سے مفلوج زندگی دوبار بحال ہو سکے اور بیرونی طاقتوں کو پاکستان کے حالات سے موقع اٹھانے کا فائدہ نہ مل سکے۔
lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 38007 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.