جوش نہیں ہوش کی ضرورت

پاکستان میں ہمیشہ سے ہم دیکھتے آئے ہیں جمہوریت ،جمہوریت کی رٹ لگا کے اس ملک کا بیڑا غرق کیا جاتا رہا ہے اکثر اوقات دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ جمہوریت کی آڑ میں بعض عناصر اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے رہے جمہوریت کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا سب سے بڑا اور آسان طریقہ سمجھتے رہے اس میں کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے حکمران سر فہرست ہیں جو کسی بھی دروازے سے اقتدار میں آتے ہیں اور پھر جانے کا نام نہیں لیتے عوام بھی بھولی بھالی ہیں جمہوریت صرف ووٹ دینے کو ہی سمجھتی رہی ہے آج تک عوام میں یہ شعور بیدار نہیں ہو سکا کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور ان کو اپنے حقوق کس صورت میں مل سکتے ہیں دھرنوں پر جتنی بھی تنقید کی جائے مگر ایک بات طے ہو چکی ہے کہ ان کی وجہ سے عوام میں اور خصوصا ناجوان نسل میں اپنے حقوق کے حصول کا وہ جذبہ پیدا ہوا ہے جو اڑسٹھ سالوں سے پیدا نہیں ہو سکا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومتوں کو منتخب ہونے کیساتھ ہی پھر فوری طور پر برطرف ہوتے ہوئے دیکھاگیا ہے میں یہاں اس وقت سے بات شروع کروں گا جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے جنرل ضیاء کے طویل دور کے بعد جب نوجوان لیڈر بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو عوام کو ان سے بہت سے امیدیں تھی لیکن ان کے پورا ہونے سے پہلے ہی غلام اسحق خان نے 9اگست 1990میں ان کی حکومت بر طرف کردی1990میں الیکشن کے بعد میاں محمد نواز شریف کو حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن بہت سی وجوہات کی بنا پر پہلے وزیر اعظم نواز شریف پھر صدر غلام اسحق دونوں ہی مستعفی ہوگئے 1993میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے یوں صرف 5سالوں میں 3بار انتخابات کروادیئے گئے 1993میں اقتدار کا ہما بینظیرکے سر پر بیٹھا لیکن ان کی حکومت صدر فاروق لغاری نے 1996میں برطرف کردی اس کے بعد ایک بار پھر نواز شریف اقتدار میں آئیے اور مختلف بحرانوں کی زد میں رہنے کے بعد بالاآخر اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے 1999 میں ان کا تختہ دھڑن کردیا ایک نسبتا طاقتور صدرپرویز مشرف جس نے بلا شرکت غیرے 9سال ملک پر حکومت کی اس دوران پاکستان نے 5وزیر اعظم آئے اور گئے جن میں ظفر اﷲ خان جمالی،شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی2 نگران وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اور محمد میاں سومرو شامل ہیں ان کے اس طویل دور حکومت میں دو بار الیکشن ہوئے2008میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی، اس کے بعد پرویز مشرف کے طویل دور حکومت کا سورج غروب ہوا پیپلز پارٹی کی حکومت 2008سے 2013تک قائم رہنے والی وہ واحد منتخب جمہوری حکومت ہے جس نے 5سال مکمل کیے جس میں پارلیمنٹ سے منتخب کیے گئے صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے حکومت کی 2013کے الیکشن میں خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا،ووٹ کاسٹ کیے ،اپنے اپنے لیڈران کے لیے خوب مہم چلائی2013کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔سیاسی تجزیہ کار پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کی پیشن گوئیاں کررہے تھے لیکن الیکشن کے نتائج کے مطابق عمران خان کی جماعت پارلیمان میں نشستوں کے حساب سے تیسرے نمبر پر آئی اور خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی لیکن عمران خان نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا اور شروع دن سے وہ الیکشن کمیشن، نگران حکومت، عدلیہ اور مسلم لیگ ن پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں اس حوالے سے انھوں نے کئی حلقوں میں اس بات کے ثبوت بھی پیش کیے کہ دھاندلی ہوئی ہے مگر ان کی باتوں کو مذاق میں ٹالا جاتا رہا مگر آج ان کے الزامات کا مذاق اڑانے والوں کے چہروں کا رنگ اڑ چکا ہے کیونکہ اب دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی نظر آ رہی ہے بہتر تو یہی تھا کہ اس وقت چار حلقے کھول کرپی ٹی آئی کی طرف سے دھاندلی کے الزامات ختم کر دیے جاتے مگر ایسا نہیں کیا گیا اور یہ سب کچھ ان مشیران خاص کی وجہ سے ہوا جن کی وجہ سے آج حالات ان نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ گئی جمہوریت گئی جمہوریت کی سرگوشیاں ہر طرف ہو رہی ہیں آج حکومت کو بنے ڈیڑھ سال کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن عمران خان کے الزامات ابھی تک وہیں کہ وہیں ہیں وفاقی دارلحکومت میں ہر روز عمران خان ایک نئی فہرست کے ساتھ آتے ہیں پہلے پہل تو ان کی توپوں کا رخ مسلم لیگ نواز، ریٹرینگ آفیسرز اور نگران حکومت پر رہا، بعد میں سابق چیف جسٹس ، بھی ان کے الزامات کی زد میں آگئے سچ کیا ہے اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہو گا ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کو آئے ہوِے صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے اس لیے حکومت کو کارکردگی دکھانے کا موقع ملنا چاہئے لیکن دھرنے والے ایسا نہیں چاہتے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے جرگے کی سفارشات پر عمل کیا جائے اور ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکالا جائے اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی جوش سے نہیں ہوش سے کام لیں تاکہ مذاکرات بامقصد اور کامیاب ہو سکیں دوسری صورت میں جن حالات کا ذکر جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں کر رہی ہے ان تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی اور اگر ایسا ہوا تو وہ جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہو گا -
Raja Tahir Mehmood
About the Author: Raja Tahir Mehmood Read More Articles by Raja Tahir Mehmood: 21 Articles with 13111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.