خوش فہمیاں

اس ملک کے حکمرانوں اور عوام کو خوش فہمیاں بہت ہیں۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، سرمایہ کاری کی شرح بڑھ رہی ہے، امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے، ادارے تندہی اور ایمانداری سے فرائض انجام دے رہے ہیں، ہر جگہ میرٹ کا راج ہے، مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے، غریب کے حالات ِ زندگی بدل رہے ہیں،قرضوں کا بوجھ کم ہو رہا ہے،روپے کی قدر بڑھ رہی ہے، اقوامِ عالم کی صف میں پاکستان کا وقار بلند ہو رہا ہےاور ہر وہ چیز جوشاید اس ملک کا مقدر ہی نہیں حکمرانوں کے خیال میں وہ ملک میں موجود ہے۔ ان سب خیالوں کو جنم دیتی ہے ایک آواز جو مسندنشینوں کو ہر وقت سنائی دیتی ہے "سب اچھا ہے"۔جب تک حکمران ایوانِ اقتدار سے زمین پر نا آجائے اُسے یہ آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ ملک پہ ایسے لوگوں کی حکمرانی ہے جو صرف الیکشن کے دنوں میں عوام کے پاس آتے ہیں اور الیکشن کے بعد اُنہیں لفظ "عوام" انجانہ سا لگنے لگتا ہے وہ بھول جاتے ہیں کہ عوام نام کی کوئی مخلوق بھی اس دھرتی کی مکین ہے ۔
"ہم آزاد ہیں"

ہاں دل خوش رکھنےکی حد تک یہ خیال اچھا ہے مگر حقیقتًا ہم آج بھی غلام ہیں ۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں گورے حکمران تھے جو برصغیر آئے یہاں کے عوام پہ ظلم و ستم کیا، اُن کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا، اس دھرتی کو لوٹا اور اپنے ملک کو آباد کیا، یہاں عوام بھوکے پیاسے مرتے رہے مگر عالی جاہ کے وقار اور بینک بیلنس میں اضافہ ہوتارہا ۔

٫1947 میں انگریزوں کا پیٹ بھر گیا اور وہ یہاں سے چلے گئے مگراپنے پالے ہوئے کچھ سانپ یہاں چھوڑ گئے جنہیں جنم تو اس دھرتی نے دیا ہے مگر اُن کی رگوں میں گردش کرتا خون اس ملک و قوام کے حقوق کا طرفدار نہیں، اُن میں آج بھی انگریزوں جیسی ہی روش ہے ، وہ آج بھی اپنے خدمت گاروں کو بغیراجازت پانی پینے کی سزا دینے کے لیے اُن پہ کتے چھوڑ دیتے ہیں، وہ آج بھی غریبوں کی بیٹویوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، یہ صاحب بہادروں اور خان بہادروں کا صیادوں کا سا رویہ آج بھی اس چمن کے لیے وبال ِ جان بنا ہوا ہے ، ان دیسی انگریزوں کو اس ملک کی کسی چیز پہ اعتماد نہیں ، اُن کے خوردونوش کا سامان،زیب تن کرنے کے لیے ملبوسات، گاڑیاں، جوتے حتی کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بیرونِ ملک سے آتی ہے، وہ اس ملک کے لیے احکامات صادر کرنے کے لیے دستخط بھی اس ملک کی بنائی ہوئی پنسل سے نہیں کرتے ، اس ملک سے لوٹا ہوا روپیہ سوئس بینکوں کی زینت ہے، اپنے علاج معالجے کے لیے وہ بیرون ملک جاتے ہیں، اُن کی اولاد اس ملک کے اداروں میں نہیں بیرون ملک پڑھتی ہے۔ الغرض اس ملک کی ایک چیز کو چھوڑ کر باقی کسی چیز پہ ان شاہوں کو اعتماد نہیں ۔ وہ چیز جس پہ ان دیسی انگریزوں کو اعتماد ہے اُسے"مسندِ اقتدار" کہتے ہیں۔

اُن کا آقا کہلوانے کا شوق اس ملک کے مظلوم عوام ہی پورا کرسکتے ہیں۔
شاہ فیصل نعیم
About the Author: شاہ فیصل نعیم Read More Articles by شاہ فیصل نعیم: 32 Articles with 26406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.