اے نگار وطن تو سلامت رھے

بھارت اور پاکستان کے درمیان 2912 کلو میٹر لمبی سرحد کی لکیر موجود ھے اور دونوں ملکوں میں آنے جانے کے لئے کئی چوکیاں بنائی گئی ھیں ۔ 1988 تک تو بے شمار معاملات میں ہم اپنے سے سات گنا بڑے پڑ وسی سے کہیں آگے تھے ۔ پھر ہمارے سیاسی لیڈروں کی مہربانیاں ہمیں پیچھے کی طرف دھکیلتی گئیں جبکہ بھارت آگے کی طرف ہی بڑھتا گیا ۔ آج اسے ایشین ٹائگر سمجھا جاتا ھے تو ہم پہ طرح طرح کے الزامات عائد ھیں ۔ اگر ہم صرف سرحدی معاملات ہی کو لیں تو بھارت کشمیر سے تھر پارکر تک ہزاروں میل لمبے علاقے میں خار دار تاریں اور تیز سرچ لائٹیں لگا کر انہیں ناقابل عبور بنا چکا ھے دوسری جانب ہمارے ملک میں ایک چھوٹا سا مگر با اثر طبقہ ہر دم سرحد کی لکیر کو بے اثر ثابت کرنے کے لئے کبھی تاریخ کو جھٹلاتا ھے کبھی جغرافیے کو ۔ کبھی امن کی آشا کے ترانے الاپتا ھے تو کبھی سرحدوں پہ جا کر دیوالی کے دیپ روشن کرتا ھے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ھے کہ جب فرنگی راج سے چھٹکارے کے لئے ھندو مسلمان مل کر جد وجہد کر رھے تھے۔ گاندھی جی تحریک خلافت کے پرجوش حامی تھے اور قائد اعظم کو امن کے سفیر کا خطاب مل چکا تھا ۔ اس وقت متشدد ھندوؤں نے شدھی اور سنگھٹن تحریک چلائی جو ھندو قوم میں اس تیزی سے مقبول ھوئی کہ اعتدال پسند منہ دیکھتے رہ گئے ۔ شدھی کے پرچارک نعرہ لگا رھے تھے کہ برصغیر کے کروڑوں ہندو جو صدیوں پہلے مسلمان ھوئے تھے دوبارہ ھندو مت میں آکر شدھ یعنی پاک ھو جائیں اور سنگھٹن تحریک کا حکم تھا کہ اگر مسلمان دوبارہ ھندو مت اختیار نہیں کرتے تو انہیں یا تو اسلامی ملکوں کی طرف دھکیل دیا جائے یا بحیرہ عرب میں غرق کر دیا جائے ۔ اس کے بعد مسلمانوں کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہم برصغیر کے مسلم آبادی والے علاقوں میں اپنی خود مختار مملکت قائم کر لیں ۔ اب بتائیے کہ اس تاریخ کو کیونکر جھٹلایا جا سکتا ھے اور ہم اپنی جغرافیائی سرحدوں سے کیسے آنکھیں بند کر سکتے ہیں ۔ سلامت رھیں ہمارے فوجی جو اقبال کے اس شعر کی صحیح تفسیر ھیں ؎ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ھے ذوق خدائی ۔ دو نیم ان کی ٹھوکر سے دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی ۔

ہم 6 ستمبر کو اپنی قومی تاریخ کے کیلینڈر سے کیسے مٹا سکتے ہیں کہ اس روز پاکستانی قوم نے سیسہ پلائی دیوار بننا سیکھا تھا ۔ ویسے تو واہگہ باڈر پہ پرچم لہرانے اور سمیٹنے کی جو ولولہ انگیز کاروائی ھوتی ھے ۔ اسے دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں لیکن میری بہت عرصہ پہلے سے خواہش تھی کہ میں کوئی اور سرحدی چوکی بھی دیکھوں ۔کچھ عرصہ پہلے لاھور جانے کا اتفاق ھوا تو یہ خواہش ہڈیارہ جا کر پوری ھوئی ۔ شمالی لاھور کی گنجان بستیوں سے گزرتی،سامان سے لدے ٹرالوں اور مسافروں سے بھری بسوں کو پیچھے چھوڑتی ،ہماری گاڑی جب لاھور کے مضافاتی علاقوں سے بھی آگے نکل گئی تو ہریالے کھیتوں اور گھنے درختوں نے ٹوٹی پھوٹی سڑک کو اپنی پناہ میں لے لیا ۔سنا ھے کہ کبھی پورا لاھور یونہی ہرا بھرا تھا اور باغوں کا شہر کہلاتا تھا ۔ہماری گاڑی ہڈیارہ کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ گہرا نیلا آسمان اور دھانی کھیت ایک دلفریب منظر پیش کر رھے تھے ۔ اور پھر بی آر بی نہر سامنے دکھائی دی اور اس درخت پہ تو بورڈ لگا دیا گیا ھے جہاں میجر عزیز بھٹی شہید تین دن تک او پی کی ڈیوٹی سرانجام دیتے رھے تھے ۔ یہ انہی کا چوکس پہرا تھا کہ شام جم خانہ کلب لاھور میں گزارنے کی بھارتی تمنا بار آور نہ ھو سکی تھی ۔ سلام اے مادر وطن پہ جانیں نچھاور کرنے والو ! تا قیامت تم پہ سلامتی ھو ۔ بی آر بی نہر کی بناوٹ دیکھ کر شہید ملت لیاقت علی خان کی بصیرت اور تدبر کا اندازاہ ھوا ۔ یہ نہر لاھور کے دفاع کے لئے اس ڈھنگ سے بنوائی گئی ھے کہ اس کے کنارے ڈھلواں ھیں اور ان کی افادیت تب پتہ چلی جب 65ء کی جنگ میں بھارتی ٹینک انہیں عبور نہ کر سکے ۔ سڑک نہر کے پل سے گزر کر سرحد کی طرف رواں دواں تھی ۔ دونوں طرف چھوٹی چھوٹی بستیوں کی صورت آبادیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ یہاں تک کہ سرحدی چوکی آگئی ۔ سلاخ دار پھاٹک کے ساتھ مٹی کی دیوار دونوں طرف کئی فرلانگ تک جا رہی تھی ۔چاک و چوبند رینجرز ڈیوٹی دے رھے تھے ۔ پھاٹک کے پیچھے کچھ فاصلے پہ مٹی کی ایک اور دیوار تھی ۔جو ہمارے فوجیوں کی وردی کے نمونے پہ پینٹ تھی۔ سبز ہلالی پرچم بلندی پہ لہرا رہا تھا اور ایک اونچی مچان پہ بھی ایک چوکیدکھائی دے رہی تھی ۔ ہم نے رینجرز کو سلام دعا کے بعد بتایا کہ ہم اسلام اباد سے آئے ہیں ۔ایک سپاہی نے ہمارے شناختی کارڈ دیکھے اور کسی کو بلایا ۔ ساجد ! انہیں اگے تک باڈر دکھا دو ۔ ساجد ہمیں پھاٹک کے اندر لے گیا ۔یہ ایک احاطہ تھا ۔دونوں جانب رہائشی کمرے بنے تھے ۔ ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی ۔ اکا دکا فوجی ادھر ادھر پھر رھے تھے ۔ مین نے پوچھا ۔ ساجد بھائی ! اگر دشمن اس جانب اچانک حملہ کر دے تو آپ مٹھی بھر لوگ کیا کریں گے ؟وہ مسکرایا ۔ میری بہن فکر مند نہ ھو ۔ جب وسائل اتنے جدید نہ تھے تب جانبازوں نے دشمن کو اندر گھسنے نہ دیا تھا اب تو چند سکینڈ کے نوٹس کی بات ھے ۔ چلتے چلتے ہم کیموفلاج دیوار کے پاس پہنچ گئے ۔ اس کے پیچھے کچھ فاصلے پہ بھارتی چوکی تھی ۔دور تک ویرانہ تھا ۔ کسی بستی کے آثار نہ تھے ۔یہاں کھڑے ھو کر میں نے چشم تصور سے وہ ہزار ھا لٹے پٹے قافلے دیکھے جن کا زکر بزرگوں سے سنا اور کتابوں میں پڑھا ھے جو بے سرو سامان، زخمی اور اپنے پیاروں کو گنوا کر آتے تھے اور پھر بھی خاک پاک پہ سجدہ ریز ھوتے تھے اور پاکستان زندہ باد اور اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تھے ۔ میں نے ان انصار کی پرچھائیاں بھی دیکھی جو اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے کھڑے تھے ۔ وہ درخشاں لمحے تو ماضی کے دھندلکوں میں گم ھو گئے مگر ہم آگے نہ بڑھ سکے بلکہ کولہو کے بیل کی طرح دائروں میں ہی گھوم رھے ھیں ۔

میں نے نم آنکھوں کو پونچھتے ھوئے ساجد سے پوچھا کہ ہماری سرحد کے آخری سرے تک آبادی ھے ۔دوسری طرف ویرانہ کیوں؟ اس نے بتایا کہ 65ء کی جنگ کے بعد بھارت نے اپنی بستیاں بہت پیچھے کر لی ھیں اور یہاں ایک مرگھٹ کے سوا اور کچھ نہیں رہنے دیا ۔ اس نے تو خار دار تاریں بھی اپنے علاقے سے قدرے ہٹ کر لگائی ھیں تاکہ دیہاتی اگر بھولے سے بھی ان کے علاقے میں چلے جائیں تو وہ انہیں جاسوس قرار دے کر پکڑ سکیں اور جہاں بھی پاکستانی فوجی نہ دیکھ سکیں وہ فوراً اپناکام کر جاتے ہیں ۔ آپ لوگ خود ہی بھارتی زہنیت کا اندازہ لگا لیجیے ۔ ہمارابھارت سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ وہ ہم سے سات گنا بڑا ملک ھے مگر برصغیر کے تمام مسلمانوں کی سلامتی کے لئے ایک مضبوط پاکستان اتنا ہی ضروری ھے جتنی کہ سانس کے لئے آکسیجن ۔ سو نئی نسل کو اپنی تاریخ کے ساتھ جوڑے رکھیں اور سیاستدانوں سے التماس ھے کہ اپنے مسائل خود حل کریں ۔ پاک فوج کو سرحدوں کی حفاظت کرنے دیں ۔
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا ۔ تیرےبیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
Yasir Arafat
About the Author: Yasir Arafat Read More Articles by Yasir Arafat: 15 Articles with 11041 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.