دہشت گردی کا خاتمہ قریب ہے

آپریشن ضرب عضب بلاتفریق تیزی سے جاری ہے۔دانشوروں کے وہ واہمے غلط ثابت ہوچکے ہیں کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد پورے ملک میں بڑا ردعمل ہوگا۔ملک دھماکوں اور خاص طورپر خودکش دھماکوں سے لرز اٹھے گا۔اکادکا واقعات کو بڑا ردعمل نہیں کہا جاسکتا۔جنرل راحیل شریف کی قیادت میں مسلح افواج نے دہشت گردوں پر بھرپور ہاتھ ڈالا ہے۔اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کردی ہے۔جو شدت پسند ہے اور دہشت گردی کی کاروائیاں کرتا ہے۔چاہے وہ کسی بھی ملک میں کریں اس کے خاتمے کو مسلح افواج نے اپنا ٹارگٹ طے کر لیا ہے۔یہی اس مسلۓ کا حل تھا۔آپریشن تو مشرف دور میں بھی ہوئے لیکن تب اچھے اور برے طالبان یا پاکستان کے حامی یا مخالف کی تفریق موجود تھی۔یہ تفریق بعد کے کیانی دورمیں بھی رہی۔اسی لئے شمالی وزیرستان کا آپریشن بہت دیر سے شروع ہوا۔لیکن دیر آید درست آید کے مطابق اب دہشت گردوں کا خاتمہ قریب ہے۔سالہا سال کے بعد یہ امید بن چکی ہے کہ پاکستان کو اس ناسور سے نجات مل جائیگی۔9/11کے بعد دہشت گردی نے پاکستان کے لئے بڑے مسائل پیدا کئے۔80ء اور90ء کی دہائیوں میں تزویراتی گہرائی کو اہمیت دی جاتی رہی تھی۔اسی لئے مشرف کے زمانے میں جتنے بھی اپریشن ہوئے وہ نامکمل اور بغیر کسی گہری سوچ کے تھے۔کچھ افغانی شدت پسندوں کو پاکستان کے حق میں سمجھا جاتاتھا۔ان پر مکمل ہاتھ نہیں ڈالا جاتا تھا۔ایسے ہی طالبان کو بھی ڈھیل دی جاتی رہی۔اس ڈھیل کا نقصان ریاست پاکستان اور عوام کو ہی ہوا۔ڈھیل کی وجہ سے شدت پسندوں نے بڑا فائدہ اٹھایا۔وہ اپنے آپ کو منظم کرتے رہے۔فاٹا میں اڈے بناتے رہے۔اسلحہ سازی کی فیکٹریاں اب موجود اپریشن ضرب عضب میں پکٹری جارہی ہیں۔بارود کے بھرے بے شمار ٹرک ضائع کرنے کی خبریں اب شمالی وزیرستان سے آرہی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ خودکش جیکٹوں کے بڑے بڑے کارخانے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں لگے ہوئے تھے۔اگر یہ کام2009ء کے اپریشن کے بعد شمالی وزیرستان تک پھیلایا جاتا توریاست اور پاکستانی عوام کو بڑے پیمانے پر نقصان نہ ہوتا۔اس اپریشن کو ایک لمبے عرصے تک ملتوی کرتے چلے آنے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔القاعدہ کے لوگوں اور خاص طورپر اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ملٹری اکیڈمی سے چند گز فاصلے پر پناہ دینا بھی پاکستان کی رسوائی کا سبب ہی بنا۔مسلح افواج پر حرف یہ آیا کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرسکتیں۔لیکن جنرل راحیل شریف کے آنے کے بعد اب صورت حال بدل گئی ہے۔ان کے آنے کے بعد یہ اعلان ہوا کہ ہم نے شدت پسندی اور دہشت گردی کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کرنا۔ایک خاموش اور سوچنے سمجھنے والے جرنیل کے طورپر انہوں نے کبھی بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھیٹرنے کے بارے دو رائیں نہیں رکھیں۔ان کے آنے کے بعد مزاکرات کے نام پر کچھ ماہ حکومت وقت نے ضرور ضائع کئے۔لیکن حکومت کی طرف سےGo headملنے کے بعد دہشت گردوں پر بھر پور حملہ شروع کردیاگیاہے۔چند دنوں بعد ہی شمالی وزیرستان کے اہم شہروں سے انہیں نکال باہرکیاگیا۔ابھی بھی یہ اپریشن کئی دن جاری رہے گا۔شمالی وزیرستان کے پہاڑی اور جنگلاتی علاقے کو آج کل صاف کرنے کاکام جاری ہے۔دھرنوں کو وجہ سے اگرچہ میڈیا کا رخ اسلام آباد کی طرف زیادہ ہے۔اور اب سیلاب کو بھی دکھایاجانا ضروری ہوگیا ہے۔لیکن آپریشن ضرب عضب کی اہمیت کم نہیں کی جاسکتی۔دہشت گردی وہـ ـ"ناسور"تھا جو ملک کو گزشتہ 15سال سے شدید نقصان پہنچا رہاتھا۔اس اپریشن سے تمام تنظیموں کے خلاف کاروائی ہورہی ہے۔القاعدہ ۔طالبان کے تمام دھڑے۔ترکستان کی اسلامی تحریک،ازبکستان کے شدت پسندوں کا گروہ،افغانیوں کے گروپ چاہے حقانی نیٹ ورک ہی کیوں نہ ہو،تمام کے خلاف بلا تفریق کاروائی جاری ہے۔ان کے آخری آدمی کی موجودگی تک کاروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ضرب عضب کا جواب شدت پسندوں کے پاس نہیں ہے۔اسی لئے وہ کسی بڑے ردعمل کا اظہار نہیں کرسکے۔پاکستان کے علاقوں سے کسی ردعمل کا اظہار اب ممکن نہیں رہے گا۔ہوسکتا ہے کہ وہ ردعمل کے لئے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی کوشش کریں۔وہاں بھی ہمارے جری جوان راستے میں دیوار بن کر کھڑے ہیں۔کچھ لوگ آپریشن شروع ہونے سے پہلے باڈر ضرور کراس کر گئے ہیں۔پاکستان میں کاروائیوں کومشکل سمجھ کر اب عصمت اﷲ معاویہ جیسے لوگ ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ایسے لوگ اگر Mainstreamزندگی میں آکر امن وامان سے رہیں تو اچھی بات ہے۔اس سے پہلے بھی طالبان کے کچھ گروپ ہتھیار پھینکنے کا اعلان کرچکے ہیں۔یہ اعلانات اپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہیں۔شدت پسندوں کا خاتمہ پہلے بھی ناممکن نہیں تھا۔لیکن جامع اور واضح پالیسی کی کمی تھی۔مسلح افواج کو اب اس بات کا پتہ چل گیا ہے کہ ان کے اند ر بھی شدت پسندوں کے حامی موجود ہیں۔2009ء میں GHQپر حملہ کے وقت اور2011ء میں مہران اڈے پر حملہ کے وقت مسلح افواج کے اندر سے مدد پہنچائی گئی تھی۔ایسی ہی صورت حال چند دن پہلے ہونے والے کراچی ڈاک یارڈ پر حملہ کے وقت تھی۔ایسے بھاگے ہوئے چند افسروں کو جنکا تعلق نیوی سے تھا۔انہیں پکٹر بھی لیاگیاہے۔ہمارے مسلح افواج کے سربراہوں کو اس صورت حال کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اس پر غور ہونا چاہیئے۔کہ تینوں مسلح افواج کے اندر شدت پسند کیوں پیدا ہورہے ہیں۔کیا افواج کی تربیت میں کچھ کمی ہے؟۔افسروں اور جوانوں کو تو ہر وقت اپنی کمان کا حکم ماننا لازمی ہوتا ہے۔باہر کے شدت پسندوں سے رابطہ رکھ کر اپنی ہی فورس کو نقصان پہنچانا بہت ہی برا کام ہے۔افواج پاکستان کے سربراہوں کو اس پر غوروحوض ضروری ہے۔اب تک تینوں مسلح افواج سے ایسے لوگوں کی نشان دہی ہوچکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ بھرتی کے وقت سخت چیکنگ نہیں ہورہی۔بعد میں افواج کے لوگوں پر نظر نہیں رکھی جارہی۔پورے ملک اور مسلح افواج سے شدت پسندی کا خاتمہ ضروری ہے۔شمالی وزیرستان سے تو دہشت گردوں کا خاتمہ اب بہت جلد ہوجائے گا۔لیکن پورے معاشرے کے بارے ایسے رحجانات پر حکومت وقت کو سوچنا چاہیئے۔شدت پسندانہ لٹریچر کو بھی Banکرنا ضروری ہے۔CD,Sکے ذریعے ایسے شدت پسندانہ خیالات پھیلائے جارہے ہیں۔ان کی نگرانی بھی ضروری ہے۔آخرمیں ایک نازک مسلۂ کا ذکر بھی ضروری ہے۔پاکستان میں مذہبی مدرسوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ان مدرسوں پر حکومت کا کنڑول نہیں ہے۔پاکستان میں مذہبی تعلیم بالکل آزاد ہے۔یہاں سے بھی شدت پسندی کے جذبات طلباء میں پیدا کئے جارہے ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں جو بنا ہی اسلام کے نام پہ تھا وہاں اسلام کی تعلیم حکومت کی طرف سے ہونی چاہیئے تھی۔جب ریاست کی بنیاد ہی اسلا م ہے تو ریاست کو اس بنیاد کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔مساجد ہوں یا مدارس یہ تمام بہت اہم ہیں۔لیکن حکومت اس طر ف توجہ بھی تو دے۔اگر ترکی میں تمام دینی مدارس حکومت کی نگرانی میں چل سکتے ہیں تو پاکستان میں بھی کوئی ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے۔ان اداروں میں پیدا ہونے والی شدت پسندی کو حکومت اپنے کنٹرول سے روک سکتی ہے۔شدت پسندی کے خاتمے کے لئے ہر طرف سے کوشش ہونی چاہیئے۔افواج پاکستان تو کچھ علاقوں میں ایسے لوگوں کے قائم اڈوں کو ختم کرکے اپنا فرض پورا کردے گی ۔لیکن پورے معاشرے سے ایسے شدت پسندانہ رحجان کو روکنے کے لئے حکومت،دانشور حضرات اور سول سوسائٹی کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔افواج پاکستان دہشت گردوں کے خاتمے کی خبر جلد ہی سنادیں گی۔لیکن معاشرے کی ذمہ داریاں باقی رہیں گی۔
Prof.Ch.Jamil
About the Author: Prof.Ch.Jamil Read More Articles by Prof.Ch.Jamil: 18 Articles with 10825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.