کہیں یہ سزا تو نہیں۔۔۔؟

علامہ اقبالؒ نے کہا
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فَیکوں
ربّ ِ کریم نے کائنات کی اسی’’ناتمامی‘‘کودور کرنے کے لیے انسان کوعقل وشعور کی دولت عطاکرکے حکم دیا’’ڈھونڈوزمین وآسمانوں میں‘‘۔اقوامِ مغرب نے اسی حکم پرعمل پیراہوکرآسمان کی رفعتوں کوچھولیالیکن ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردارہے ۔اب یہ عالم ہے کہ جونہی کسی قدرتی آفت کاسامناہوتاہے توحکمران اسے’’اذنِ ربی‘‘کہہ کردامن چھڑالیتے ہیں اورعلماء بَداعمالیوں سے منسوب کردیتے ہیں البتہ سیکولرذہن رکھنے والے اصحاب کانقطۂ نظرمختلف ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگریہ سزاہے توپھر’’اشرافیہ‘‘کوملنی چاہیے جوزمینی خُدابنے بیٹھے ہیں نہ کہ مجبوروں،مقہوروں اورمفلسوں کو۔بجا،مگراشرافیہ کوہمارے سروں پرمسلط کرنے والے بھی تویہی’’مجبورومقہور‘‘ہی ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ الیکشن کے ہنگام’’ایلیٹ کلاس‘‘تواپنے گھروں سے باہرنکلناپسندہی نہیں کرتی لیکن خطِ غربت سے نیچے بسنے والے بڑے ذوق وشوق سے قطاراندرقطار ووٹ ڈالتے ہیں۔حقیقت تویہی ہے کہ فرقوں،گروہوں اورذات پات میں بٹی قوم ابھی تک شعورکی اُس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکی جہاں وہ سودوزیاں کاادراک کرتے ہوئے اپنے نمائندوں کاانتخاب کرسکے۔ہم سمجھتے ہیں کہ قصور’’بتوں‘‘کانہیں،اُن کوتراش کر’’بھگوان‘‘کادرجہ دینے والے ہاتھوں کاہے اورسزاکے حقداربھی وہی ہیں۔اِس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ حکمران اشرافیہ بری الذمہ ہے۔آقاﷺ کافرمان ہے’’تُم میں سے ہرایک راعی(چرواہا)ہے جس سے روزِقیامت اُس کے ریوڑکاحساب لیاجائے گا‘‘۔لاریب حساب توہوگا،کڑاحساب،حکمرانوں کابھی اورایسے حکمران منتخب کرنے والوں کابھی۔

پتہ نہیں پاکستان کوکِس کی نظرکھاگئی کہ اب یہاں صرف لاشوں کاکاروبارہوتاہے۔’’انقلابیوں‘‘کواپنے انقلاب کے لیے لاشوں کی ضرورت،اقتدارپررال ٹپکانے والوں کوحصولِ اقتدارکے لیے لاشوں کی ضرورت اورنفاذِ شریعت کے علمبرداروں کوخودساختہ شریعت کے لیے لاشوں کی ضرورت۔یہ ضرورتیں ابھی درمیان میں ہی ہوتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی آفت ٹوٹ کرکشتوں کے پشتے لگادیتی ہے۔


اسلام آبادکے ڈی چوک میں دھرنادیئے انقلابیوں کی تخریب کاریاں ابھی جاری تھیں کہ پنجاب ڈینگی کی زدمیں آگیا۔منصوبہ سازابھی ڈینگی سے دو،دوہاتھ کرنے کے منصوبے باندھ ہی رہے تھے کہ قیامت خیزطوفانوں اور سیلابوں نے آن گھیرا۔سینکڑوں دیہات صفحۂ ہستی سے مِٹ گئے،لاکھوں ایکڑپرکھڑی فصلیں برباد ہوگئیں، مال مویشی ڈھورڈنگرسب پانی میں بہہ گئے،سینکڑوں زندگیوں کے چراغ گُل ہوئے اورگھرگھرمیں ماتم اوردَر،دَرپہ نوحہ خوانی ہونے لگی۔لاکھوں بے خانماں مردوزَن بے یارومددگار،کھانے کوکچھ نہ سَرچھپانے کوجگہ۔افواجِ پاکستان اورریسکیو1122 سَرتوڑکوششوں میں مصروف لیکن کوہساروں سے بلنداورسمندروں سے وسیع تباہی کے آگے بے بَس۔میاں برادران اب’’لنگوٹ‘‘کَس کرمیدان میں ہیں۔ایک ایک دن میں کئی کئی جگہوں پہ دَورے ہورہے ہیں،بلندبانگ دعوے اوروعدے کیے جارہے ہیں لیکن سیلاب زدگان کے لبوں پرتویہی ہے کہ
کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفاسے توبہ
ہائے اُس زودپشیماں کاپشیماں ہونا

سچ کہاہے کسی سیانے نے کہ ’’ویلے دی نمازتے کویلے دیاں ٹکراں‘‘۔خادمِ اعلیٰ پچھلے ساڑھے چھ سال سے پنجاب کے بِلاشرکتِ غیرے مالک۔اُن کی اَنتھک کوششوں اورکاوشوں کابھی ایک زمانہ معترف ۔نکتہ چیں لاکھ کہیں لیکن ہائی ویز،اُوورہیڈز ،میٹروبس اوربُلٹ ٹرین کی افادیت سے مفرممکن نہیں لیکن قدرتی آفات کی طرف شایداُن کادھیان ہی نہیں جاتا۔تقریباََہرسال شدیدبارشوں اورسیلاب کاسامناکرناپڑتاہے،اربوں کانقصان ہوتاہے اورانسانی جانوں کابھی۔سیلاب کوچھوڑیے کہ یہ مرکزکامسلۂ ہے لیکن طوفانی بارشوں کاعلاج توممکن ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہورکایہ عالم کہ تھوڑی بہت بارش سے بھی نقشہ بگڑجاتاہے۔اربوں روپے کی لاگت سے بنائی جانے والی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوجاتی ہیں،گٹراُبل پڑتے ہیں اورہرطرف تعفن پھیل جاتاہے۔وجہ یہ کہ برساتی نالے بھی قبضہ گروپوں کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ سُنا تھا کہ ’’ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘‘ نامی کوئی ادارہ بھی ہے۔پتہ نہیں وہ کہاں ہے اورکیاکررہاہے۔تحقیق کہ اِن قدرتی آفات پرقابوپایاجاسکتاہے،شرط مگریہ ہے کہ خادمِ اعلیٰ اُسی ذوق وشوق سے اِس طرف بھی توجہ دیں جس ذوق وشوق سے وہ اپنے پسندیدہ کاموں کی طرف توجہ دیتے ہیں۔

محترم وزیرِاعظم صاحب فرماتے ہیں کہ’’یہ آفت ناگہانی ہے اورہمیں اِس کے بارے میں کچھ اندازہ ہی نہیں تھا ۔عرض ہے پاکستان میں پہلاسیلاب1950ء میں آیاجس میں لگ بھگ ایک ہزارگاؤں تباہ ہوئے۔پھر1955ء میں سیلاب آیاجوسات ہزاردیہات بہالے گیا۔تب سے اب تک 21بڑے سیلاب آچکے ہیں اورہربارتباہی و بربادی کے وہی مناظرہوتے ہیں جوآجکل نظرآرہے ہیں۔وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ یہ سیلاب ہمیشہ ایسے ہی تباہی مچاتے رہیں گے۔وجہ یہ کہ سیلابوں کی روک تھام کاصرف ایک ہی علاج ہے کہ دریاؤں پرکثرت سے ڈیم بنائے جائیں لیکن ہماری جمہوری حکومتیں ڈیم بنانے میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہیں۔بھارت میں ہزاروں ڈیم بن چکے اورسینکڑوں زیرِتعمیرلیکن پاکستان میں اوّل توکسی حکمران کااِس کی طرف دھیان ہی نہیں جاتااوراگردھیان جائے بھی توسیاست کی نظرہوجاتاہے۔ایوبی دَورِ آمریت میں وارسک ،منگلااور تربیلاسمیت سات بڑے ڈیم بنے اورپرویزمشرف کے دَورمیں بھی سات چھوٹے ڈیم پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ اگر آمر پرویز مشرف اپنے دَورمیں ڈنڈے کے زورپرکالاباغ ڈیم بناجاتے توشایداپنے گناہوں میں کچھ کمی کرلیتے لیکن اُنہوں نے بھی ’’سیاست زدہ‘‘ہوکرکالاباغ ڈیم بنانے سے توبہ کرلی۔نوازلیگ ہمیشہ سے ہی کالاباغ ڈیم بنانے کے حق میں تھی لیکن قومی وملّی یکجہتی کابہانہ بناکرراہِ فراراختیارکرتی رہی۔اب بھی اگرکالاباغ ڈیم کی رَٹ چھوڑکرچھوٹے ڈیموں کاجال بچھادیاجائے تونہ صرف بھارت کی آبی جارحیت سے نجات مل سکتی ہے بلکہ لوڈشیڈنگ پربھی قابوپایاجاسکتا ہے۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 864 Articles with 558584 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More