احساس ذمہ داری

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کیلئے اسے منتخب کیا جاتا ہےجسے اپنے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔ ہمارے حکمران بیرونی ممالک کے دورے تو خوب کرتے ہیں اور اپنے لاو لشکر کے ساتھ جاتے ہیں مگر وہاں سے کچھ سیکھ کر نہیں آتے جب سے پاکستان وجود میں آیا مغربی پاکستان بھی سیلابوں سے بر باد ہوتا رہا اور جب تک مشرقی پاکستان رہاوہ بھی مصائب والام کی تصویر بنا رہا ہر سال سیلاب آتے رہے اور ہمارے پیٹرول پر ہر سال روپیہ دو روپیہ بڑھایا جاتا رہا جو آج موجود ہے مگر درد کی دوا کبھی نہ کی گئی۔
اگر دریا ئی اورنہری علاقوں میں سفر کے کیلئے کشتیوں کا رواج ڈالا جاتا اور فائبر کی جدید کشتیوں کو آئوٹ بورڈ مو ٹر سے استعمال کرنے کا شوق پیدا کیا جاتا تو کشتیوں سے محروم ہمارے دریائوں کے علاقے ویران نظر نہ آتے اور یہی کشتیاں سیلاب کے زمانے میں انسانی جانیں بچانے کے کام آتیں مجھے حیرانی ہے کہ والد صاحب کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد گھر اور خاندان کی ذ مہ داری میرے کندھوں پر آگئی ہے اور احساس ذمہ داری کے بعد راتوں کو نیند نہیں آتی ہے حیرت ہے ان وزیروں سفیروں پارلیمنٹیرین کو نہ جانے نیند کیسے آتی ہے اور یہ ہنستے مسکراتے اور پھجے کے پائے اڑاتے نظر آتے ہیں جبکہ حضرت عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں کے اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو میں اس کا جواب کیا دونگا یہاں عالم یہ ہے کے حکمرانوں کے عمل سے ماڈل ٹائوں میں سات افراد مر جاتے ہیں اور یہ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ ایف آئی ار میں کاوٹ بنتے ہیں اس کے بعد انصاف ملنے کی کیا امید رہ جاتی ہے ۔

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ آئندہ سال تک سیلاب کیلئے کچھ کرینگے کیا آپ اپنی سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر دیکھتے ہیں اسے اُٹھا نے والی گاڑیوں کا ڈیزل اور پیٹرول خرد برد کر دیا جاتا ہے نتیجہ کے طور پر خاکروب کچھ کورے کو نالوں کی نظر کر دیتے ہیں اور اسطرح سیلاب کی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ سڑکیں اس مہارت سے بنائیں جاتیں ہیں کہ جلد از جلد ٹوٹ جائیں تاکہ پھر مال ملے اور کمیشن پکا ہو۔ موبائل فون کی آمد پر پرویز مشرف فخر کیا کرتے تھے زرداری نے اس پر کمیشن کا ریٹ بڑھا کر ٹیکس پجیس فیصد تک پہنچا دیا حکمران سمجھتے ہیں عوام جانوروں کی طرح انسانی ریوڑ ہیں جس طرح چاہیں گے ہانک دینگے مگر قدرت خدا کہ عمران اور قادری ان کے گلے میں اٹک گئے ان کا بس چلے تو ان دونوں کو بھی لا پتہ کردیں۔ سیلاب کے لیے نہ جانے کتنا پیسا ملتا رہا مگر کرپشن کی نظر ہوگیا۔ عوام کی حالت بہتر کرنے کے لیے بلوچستان کو کتنی رقم دی گئی غریب وہیں کا وہیں۔ یہ بڑے لوگ مچھ پر تائو دیتے ہوئے کرپشن کی اس کمائی کی بنیاد پر اور عزت دار بن گئے۔

سندھ میں کونسا انسان دوست عمل ہے جتنے لوگ سندھ میں مرے اور مارے گئے اتنے پورے پاکستان میں نہیں مرے مگر کیا مصلحت ہے کہ یہ حکومت اپنی کوئی رٹ منوانے کا ارادا نہیں رکھتی ۔ ہاں آئے دن سکیورٹی کے نام پرعوام عذاب جھیلتے رہتے ہیں۔ ڈبل سواری پر پابندی اس کی عام مثال ہےسیکیورٹی کے نام پر کوئی بھی سڑک بند کردی جاتی ہے، ٹارگٹ کلنگ پر کوئی قابو نہیں بینک ڈکیتی عام ہے بھتہ خوری کا یہ عالم ہے تاجر ہو ں کہ رکشے والے سب پریشان ہیں عدالتوں کا سنتے ہیں کہ آزاد ہیں یہاں ہر کوئی آزاد ہے نو ٹس بھیجنا ہو یا بھجوانا ہو اور اگر آپ کی ضرو رت ہے تو پھر اچھی خاصی رقم خرچ کرنا پڑے گی۔
حصول انصاف کے لیے کوئی کہہ رہا تھا کہ عمر نوح علیہ سلام ،قارون کا خزانہ اور صبر آیوب علیہ سلام کی ضرو رت ہے۔ حیرت ہے کہ یہ وکیل ایسا کیا کرتے ہیں کہ انکی فیس کروڑوں میں ہوتی ہے خبر آئی ہے کہ کراچی میں نعوذوبااللہ سونامی آسکتا ہے تو خیال آیا کہ عجب نہیں ان سب کو کون ٹھیک کر سکتا ہے شاید کے سونامی یہ کام کرے اور لوگ برسوں کہا کریں کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پستا ہے مگر ایسا نہیں ہے اللہ کے جو بندے برائی کو برائی سمجھتے ہیں کم از کم اواز اٹھاتے ہیں اللہ ان کو ضرو محفوظ رکھتا ہے۔
اسلام آباد میں حالیہ لوگوں کی پکڑ دکڑ سےپولیس اور تھانے کا جو کلچربتایا جا رہا ہے یہ تو ہمیشہ سے ہے اور کبھی کسی لیڈر نے اس بد ترین کام کیخلاف اواز نہیں اُٹھائی ۔

Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 79 Articles with 82693 views Since 1964 in the Electronics communication Engineering, all bands including Satellite.
Writing since school completed my Masters in 2005 from Karach
.. View More