انقلاب کرسی اور انصاف

احتجاج کرنے والے کہتے ہیں کہ احتجاج کرنا ان کا بنیادی حق ہے سو انہوں نے ڈنڈے کے زور پر اپنا حق حاصل کر لیا۔ حکومت کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومت کو کچھ ہوا تو جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی اور سب سیاسی گرو جمہوریت بچانے پہنچ گئے انہوں نے بھی جمہوریت کا قرض ادا کر دیا ۔ میڈیا کہتا ہے کہ آزادی اظہار رائے بنیادی حق ہے اور یہ حق انہوں نے کچھ اس طرح ادا کیا کہ اول تو کوئی سوتا نہیں تھا اگر کوئی سوتا تو پوری رات اس کو یہ وسوسے ڈستے ہیں کہ پتہ نہیں صبح تک کیا حالات ہوں گے سو میڈیا نے بھی سنسنی پھیلا کر اپنا فرض اد ا کر دیا ۔سوال یہ ہے کہ اس قوم کا کوئی حق نہیں ہے۔ قوم نے شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری حکومت کو منتقل ہوتا دیکھا یہ خوشی کی باد نسیم کا پہلا جھونکا تھا کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ پچھلے ایک عشرے سے جاری قتل و غارت گری بم دھماکوں بوری بند لاشوں ٹارگٹ کلنگ کی خبروں میں کمی آئی تھی قوم اس خوشخبری پر پھولے نہیں سمائی تھی کہ پاک فوج نے اس دہشت گردی کو اپنی دہشت سے سمیٹنا شروع کر دیا تو بدلے میں ایک چرواہے سے لے کر صدر تک قوم کے ہر فرد نے یہ خوشی برابر سمیٹی۔ ان خوشیوں کو نظر لگ گئی اور اب ایک بار پھر قوم اسی حالت کشمکش میں ہے کہ شاید پاکستان کی کشتی منجدھار سے نکل کر پھر ڈگمکا کئی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جن کا مفاد اور روزگار زندگی اسی کام سے وابستہ ہے پاکستان کی پوری قوم اس کرسی کی جنگ اور دھرنے کے انقلاب سے خائف اور کنارہ کش ہے۔ اور سب سے اہم بات اس ملک کی سب سے بڑی ایلیٹ کلاس اور مسترد شدہ اور آزمودہ سیاستدان اس انقلاب کا حصہ ہیں جو میرے وطن کے غریب عوام کیلئے لایا جا رہا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا سبوت یہ ہے کہ ایک دھرنا اسلام آباد میں ہو رہا ہے اور جب انقلابی قیادت پورے ملک میں مظاہروں کی کال دیتی ہے تو ایک مظاہرہ لاہور ڈیفنس کی کچی آبادی میں ہوتا ہے اور دوسرا کلفٹن کی جھونپڑیوں کے باہر ہوتا ہے۔ علامہ صاحب خود فرماتے ہیں بے نظیر ان کی لائف ٹائم ممبر تھی تو ہم سب جانتے ہیں کہ نواز شریف ان کے پرانے مقتدی ہیں۔پھر آپ اپنے ممبرز اور مقتدی قسم کے لوگوں کے خلاف احتجاج کیوں کر رہے ہیں اگر یہ غلط لوگ تھے تو آپ نے انکو قربت کیوں بخشی۔ چلو انکو چھوڑو آج آپ عمران صاحب کا ہاتھ اٹھا کر دوستی کی قسمیں لیتے ہیں عمران خان صاحب خالص لبرل آدمی اور آپ خالص مذہبی آدمی تو یہ گٹھ جوڑ کیسا ۔ انکے دھرنے بلکہ ہر جلسے میں گانے بجتے ہیں ڈانس ہوتے ہیں حتٰکہ عورتیں ناچتی ہیں وہ برہنہ سر ہی نہیں لباس کے انتخاب تک لا پروا ہوتی ہیں تو آپکو اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کا کوئی قول کوئی حدیث کوئی نصیحت کوئی خوہش یاد نہیں آتی یا وقتی مصلحت کے تحت آپ مجبورا چپ ہو جاتے ہیں اگر آ پ مصلحتا اس ذات سے بے وفائی کر سکتے ہیں ان کے قول کو نظر انداز کر سکتے ہیں تو میری ایک گناہ گار اور سیاہ کار کی تو آپ سے وفا کی امید ہی فاش غلطی ہے کیونکہ سیاست میں تو ہر دم مصلحت درپیش رہتی ہے۔عمران خان صاحب کا ایجنڈا تو تبدیلی کی منہ بولتی تصویر ہے انکو دیسی قسم کی ہر چیز سے نفرت ہے اور میرا خیال ہے شروع سے تھی کیونکہ اسی شدید نفرت کی وجہ سے انکو دلہن بھی ولایتی لینی پڑی ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسے دیسی بنانے کا شوق پیدا ہوا تو وہ بیچاری دیس ہی چھوڑ گئی۔ انکو دیسی پولیس گلو بٹ، پٹواری کرپٹ، تحصیل دار چور رشوت خو،ر عدلیہ بے عدل ،تاجر ٹیکس چور وکیل لوٹیرے ڈاکٹر قصائی ا ور عوام شیدائی نظر آتے ہیں ۔ آپ یہ بتا کیوں نہیں دیتے آپ نے ان سب ااقسام کے کاموں کیلئے فرشتوں کی ایک ٹیم سلیکٹ کر لی ہے تو لوگ ان کرپٹ سیاستدانوں سے ایک منٹ میں چھٹکارا پا لیں گے لیکن جب تک آپ فرشتوں کی یہ جماعت ظاہر نہیں فرما دیتے لوگ آپ پر اندھا یقین نہیں کر سکتے سیاستدانوں کے وعدوں سے بے یقینی اس قوم کو بہت عزیز ہے بے یقینی کی یہ کیفیت لگ بھگ پینسٹھ سال کے تجربے کا نچوڑ ہے۔ قوم کو پتا ہے کوئی بھی سیاستدان جب عوام کو سبز باغ دکھاتا ہے تو اسکو کرسی کا لالچ ہوتا ہے اگر آپ بولتے ہیں کرسی کا لالچ نہیں تو پھر آپ دھاندلی کا واویلا کیوں کر رہے ہیں جبکہ آپ کو تو کرسی چاہئے ہی نہیں تو بے چاری عوام کو ذہنی مریض کیوں بنا رکھا ہے۔

اب حکومت کی طرف آتے ہیں یہ سطور لکھتے وقت بھی خادم اعلی لاہور کی سڑکوں پر گھٹنوں تک پانی میں دوبے تصویری سیشن کروا رہے ہیں ۔ جناب اب یہ ہتکھنڈے پرانے ہو گئے ہیں ۔ شروع شروع میں آپ کو ایسے ایکشن میں دیکھ کر عام آدمی بڑا خوش ہوتا تھامگر اب آپ نے خود فرما دیا ہے کہ لاہور پیرس بن گیا ہے ہم نے بھی یقین جانئے اسی لمحے آپ کے قول کا یقین کر لیا کیونکہ جب مغل شہنشاہوں سے لے کر آپ تک سب کی نظر کرم صرف لاہور پر مرکوز رہی ہے تو اس کو تو پیرس کی مثال نہیں بلکہ بے مثال شہر ہونا چاہئے تھا پورے پنجاب کا ترقیاتی بجٹ آپ ایک شہر کی ترقی پر لگاتے ہوئے ذرا نکاسی آب کا بھی کوئی ماسٹر پلان بنا لیتے مگر آپ نے ماسٹر پلان تو نہیں البتی ماسٹر پلاننگ ضرور کی ہوئی ہے کہ جب بارشوں سے موجودہ انفراسٹرکچر تباہ نہیں ہو گا تو آپ اگلے سال نئے منصوبوں کا افتتاح کر کے فوٹو سیشن کیسے کروایئں گے ۔ جناب خاطر جمع رکھئے مڈیا بڑا تیز ہو گیا ہے لاہور سے باہر کسی منصوبے کا افتتاح کر کے دیکھیں ہماری گارنٹی ہے تصویر ہی نہیں بریکنگ نیوز بھی چلے گی۔ہر سال جب بارشیں آتی ہیں ہر سال غریب کی متاع کل پانی میں بہ جاتی ہے آپ چند نوٹ ہاتھ میں دے کر فوٹو بنوا لیتے ہیں اور آپ نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اگلے ساون میں بادل تو پھر برسے گا۔مجھے آپکے فوٹو سیشن برطرفیاں بگڑے تیور افسروں کو ڈانٹ ڈپٹ سب رسمی لگتے ہیں جناب آپ خود ہی غور فرمائے کل ہی کی بات ہے آپ تھانے کے باہر خود کو آگ لگا کر جل جانے والی بنت حوا کے گھر گئے تھے ایک بہت بڑا فوٹو سیشن اور افسروں پر اپنے غظب کی بوچھاڑ فرما دی تھی اس لڑکی کی عصمت کی بے حرمتی کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ۔ اس کا رونا اس کا چیخنا چلانا اس کا فریاد کرنا حتٰکہ اس کا آگ میں جل کر مر جانا بھی گواہی نہ بن سکا ۔ آپ تو حکمران ہیں آپ کا ہماری مخلوق سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے ہاں اپنی قوم سے ضرور یہ سوال کرتا ہوں کہ کل کو ہم میں سے کسی کی بیٹی چلائے فریاد کرے تو کیا ہم اپنی بیٹی کی فریاد کو بھی کسی طاقتور کے خوف سے نہیں سنیں گے لیکن نہیں اپنی بیٹی اپنی ہوتی ہے اس کی آواز جگر پھاڑ کر رکھ دے گی ۔ تو پھر ہم اپنی بیٹی کی آواز کا انتظار کیوں کر رہے ہیں اس کی آواز پر لبیک کیوں نہیں کہتے اسے خود کشی کیوں کرنے دیتے ہیں ۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کے ظالموں کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں ہوتا اگر حاکم وقت کے کہنے پر مقدمہ درج ہو جاتا ہے تو اس مقدمے کا فائدہ ہی کیا جو انصاف نہیں دے سکتا ۔ پوچھو اس منصف سے کتنی قیمت ہے حوا کی بیٹی کی عصمت کی اس وکیل سے پوچھو کتنی بیٹیاں ہیں تیرے گھر میں اگر انکی آبرو کا کل اچھا دام لگا تو اپنے دل کو دلائل دے سکو گے ناں-
ghulam mustafa
About the Author: ghulam mustafa Read More Articles by ghulam mustafa: 7 Articles with 7115 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.