انا کے اسیر

ہر کوئی انا کا اسیر نظر آرہا ہے اور اس وقت تک اپنی انا کے خول سے نہیں نکلتا کہ جب تک ’’ڈنڈا‘‘ نظر نہ آئے ۔جیسے ہی ڈنڈا نظر آ تا ہے تو یہ انا کے اسیر اپنی اناؤ ں کے خول کو اول اول تو مذہب کی آڑ لے کے توڑتے ہیں۔ اگر مذہب کی چھتری نہ مل رہی ہو(اکثر مذہب کی چھتری پیدا کر لی جاتی) تو ملکی مفاد اور عوام کے مفاد کا ’’صدا بہار‘‘ نعرہ تو ہر لمحہ دستیاب رہتاہے۔

چودہ اگست سے شروع ہونیوالے ’’انقلاب‘‘ و ’’آزادی‘‘ مارچ جو لاہور سے چلے اور اب دھرنوں کی صورت میں ڈی چوک اسلام آباد بالکل پارلیمنٹ کے سامنے موجود ہیں۔عوامی تحریک کے دھرنے کو دھرنا کہا جا سکتا ہے البتہ پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنے کو عوامی تحریک کے دھرنے کے مقابل روزانہ کا احتجاجی جلسہ کہنا حقیقت کے زیادہ قریب ہے۔پی ٹی آئی کے ’’دھرنہ میں مسققل بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ ایک ہزار کارکن موجود ہوتے ہیں جبکہ شام کے بعد یہ تعداد شاید دس ہزار کو چھوتی ہو۔ دوسری طرف طاہر القادری صاحب کے دھرنے میں ہزاروں افراد مستقل موجود ہیں جن میں خواتین کی بھی خاطر خواہ تعداد موجود ہے۔جو پوری طرح محفوظ اور با اعتماد ہیں۔دونون دھرنوں میں قوالی اور میوزیکل ترانوں پر اعتراض و سمجھ سے باہر ہے اور ان کے خلاف شہداء فاؤنڈیشن کی عدالتی چارہ جوئی پر عدالت کی جانب سے عدالتی وقت کے ضیاع کی بنیاد پر پانچ ہزار کا جرمانہ احسن اقدام ہے۔

انا کا بت ن لیگ کی طرف سے پہلی با ر اس وقت ٹوٹا جب اپوزیشن نے ایوان میں یہ بات اٹھائی کہ وزیراعظم کو بطور رکن اسمبلی حاضر ہونا ضروری امر ہے وگرنہ ان کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔تو بادل نخواستہ وزیراعظم نے ’’مقدس ایوان‘‘ کو اپنی آمد سے زنیب بخشی۔ دوسری اورتیسری با ر اناکا بت ایک ہی دن ایک ہی وقت میں تیرہ اگست کی شام کو ٹوٹا جب عوامی وزیراعظم نے نہ چاہتے ہوئے قوم سے خطاب فرمایا اور ساتھ ہی الیکشن کی دھاندلی سے متعلق عدالتی کمشن کے قیام کا اعلان کردیا جو قبل ازیں انہی کو غیر آئینی نظر آرہا تھالیکن وہ ٹائم ایسا نہیں تھا کہ اس لولی پاپ سے احتجاجی لوگ مطمئن نہ ہوئے کیونکہ میاں صاحب نے دودھ تو دے دیا لیکن ساتھ مینگنیں بھی ڈال دیں۔ شروع سے لیکر اب تک حکومت نے ہر لمحہ ایسی ایسی حرکتیں کی کہ کیا ہی کہنے۔قدم قدم پر حکومت کی نا اہلی ثابت ہوتی رہی البتہ طاقت کا استعمال نہ کرنا ایک انتہائی دانشمندانہ عمل ہے۔( چاہئے یہ کسی بھی وجہ سے ہو)

انا کے بت طرفین میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی جانب سے جب بھی جو بھی بات مانی گئی وہ بروقت نہ تھی جس کی وجہ سے مخالفین ایک قدم مزید مطالبات میں بڑھ رہے ہیں۔

جمعرات کی شام تمام طرفین کے بت اکٹھے ہی ٹوٹے کہ ایک فریق نے فوج کو سول معاملات میں دعوت دی اور پھر دیگر اطراف نے بھی دیر نہ کی فورا ہی ملاقات کے لئے سرکے بل چل پڑھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عددی اعتبارسے انتہائی مضبوط حکومت کی جانب سے یہ حرکت انتہائی غیر جمہوری ہے جبکہ مخالفین کی جانب سے جو جمہوریت کے دعویدار ہیں لیکن وہ بھی ڈکٹیشن لینے کے لئے حاضری کے لئے چلے گئے۔یاد رہے کہ پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کو بھی پہلے پہل سول معاملات میں ہی مدعو کیا گیا تھا باقی جو ہوا وہ سب کوپتہ ہے۔مسلم لیگ کو اسمبلی میں واضح طور پر سادہ اکثریت سے زیادہ نشستیں حاصل ہیں جبکہ حکومتی حلیف اس کے سوا ہیں۔ موجودہ بحران میں ایک پارٹی کے علاوہ باقی تما م پارلیمانی تحفظ نظام کے نعرہ کیساتھ میاں برادران کی پشت پر ہیں۔ اس سب کے باوجود فوج کو درمیان میں لانا( یا وہ خود ہی آگئی) ایک انتہائی غیر جمہوری عمل ہے۔

راقم کا خیال یہ ہے کہ فوج آئی یا لائی گئی یہ بھی نتیجہ صرف اور صرف ’’انا‘‘ کا ہی ہے البتہ اس میں بدیانتی اور بد اعتمادی بھی ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے۔اگر طرفین میں بد اعتمادی ،بدیانتی کے علاوہ انا کا بھی مثلا ہے۔اگر انا کا مثلا نہ ہوتا تو یہ مسائل یہاں تک نہ بڑھتے اور نہ ہی مسلم لیگی نونی حکمرانوں کو قتل تک میں ملوث نہ ہونا پڑھتا۔

بروز جمعہ اجلاس اسمبلی میں بھی پھر ٹوٹی ہوئی انا کا درد اٹھا اور یوٹرنز پہ یوٹرنز ایسے شروع ہوئے کہ پھر انا کے بت بننا شروع ہو چکے ہیں ۔ یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ حالات ایسی طرف جا رہے ہیں کہ پھر کسی کے پا س کچھ بھی نہیں رہے گا ۔

اگر کوئی تیسرا نظام لا کر اپنے اپنے آپ کو وزیراعظم کی کرسی پر براجمان دیکھ رہا ہے تویا د رہے کہ تیسرے نظام کے جو محافظ ہوں گے وہ کبھی بھی کسی ایسے شخص کو کرسی وزارت عظمٰی پر نہیں بٹھائیں گے جو سیاست کے تما م عناصر کو الٹا استعمال کرتا ہو اور جس کی سیاسی حرکیات حد در جہ بچگانہ جذبات پرمتمکن ہوں ۔

اس تما م دورانیہ میں پیپلز پارٹی کا رویہ جمہوریت بچاؤ رہالیکن اس حد تک رہا کہ ستر ڈشز کا کھانا اور خورشید شاہ کا جمہوریت بچاؤ بیانات نے کئی جیالو ں کو سوچنے پر مجبور کر دیا گیا کہ کہیں یہ باری بچانے کا حق تو ادا نہیں کیا جا رہا۔ اگر یہ ہے تو جو پیپلز پارٹی میں جان رہ گئی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ ان تمام حرکیات کو پیپلز پارٹی کی قیادت کومدنظر رکھنا ہو گا نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔۔

اب بھی وقت ہے کہ تما م لوگ اپنی اپنی انا کے خول سے نکلیں اور ملک و قوم کو اس ذہنی اذیت سے نجات دلوائیں اور قوم کے دردوں کا مداوا کیا جائے کیونکہ جب لاوہ زیادہ پک گیا اور پھٹ کے نکلا تو پھر نہ یہ تخت رہیں گے نہ ہی یہ تاج۔
Raja Qanbar
About the Author: Raja Qanbar Read More Articles by Raja Qanbar : 23 Articles with 16900 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.