ریڈ زون میں دھرنا ہے اور ناچ کے جانا ہے

دھرنے پر رفتہ رفتہ یکسانیت نے دھرنا دے دیا ہے۔ہر ماسٹر وائس کے گھومنے والے ریکارڈجیسی تقاریر سن سن کے مرید ٹی وی اسکرین تو جمائیاں لے رہی ہے۔ یہ حال ہوگیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بس کہتا ہوں دھرنا اور ٹی وی مجھے گھورتے ہوئے آن ہوجاتا ہے۔مجھے سب سے زیادہ فکر ان سیکڑوں دھرنا بچوں کی ہے جن کے اسکول کھل گئے ہیں مگر وہ پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھے ع سے عمران ، ط سے طاہر ، ن سے نواز ، گ سے گو اور د سے دھرنا پڑھ رہے ہیں۔سب منتظر ہیں کب نو من تیل جمع ہوگا کب رادھا ناچے گی۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
ریڈ زون میں دھرنا ہے اور ناچ کے جانا ہے

غریب عوام کے مسائل و مصائب کو ایشو بنانے کی بجائے ایک ایسے مفروضے کو اِس سارے کھیل تماشے کی بنیاد بنایا گیا ہے جس کی تصدیق ابھی ہونا باقی ہے۔صرف شک اور شبے کی بنیاد پر یہ سارا تماشہ رچایا گیا ہے۔الیکشن کمیشن کی چیئرمین شپ کے لیے اپنے ہی تجویز کنندہ اور نامزد کردہ شخص کو دھاندلی کا موردِ الزام ٹہرا کر رسوا اور بدنام کیا گیا۔ جس چیف جسٹس کی بحالی کے لیے خود سڑکوں پر نکل پڑے تھے آج اُسی چیف جسٹس کو سرِ عام نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اسلام آباد کی سڑکوں پر جاری گیارہ روز سے کیے جانے والا دھرنا اپنا مطلوبہ اہداف تو ہنوز حاصل نہیں کر پایا ہے البتہ اِس ساری مشق میں ہمارا قومی تشخص یقینا دھندلا سا گیا ہے ۔ دنیا یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہم ایک کیسی عجیب ریاست اور مملکت کے امین ہیں۔جنھیں امن وامان اورراحت و سکون کبھی راس ہی نہیں آتا۔ جنھیں بحرانوں میں ڈوبے رہنا کتنا مقدم اور عزیز ہے۔ کبھی دوسروں کی لڑائی میں خود کو ملوث کرکے آپ اپنی تباہی کا ساماں کرتے اور کبھی آپس میں دست و گریباں ہوکر مضروب و مضمحل ہوتے۔

جو دھرنے سے باہر ہیں انھوں نے بیانات کے چھولوں، ٹاک شوز کے چپس، موقع پرستی کے کھلونوں ، بڑھکوں کے دہی بڑے ، مصالحانہ لہجوں کے جھمکوں ، دھمکیوں کے بن کباب اورگالم گلوچ کی کڑاہی کے اسٹال لگا لیے ہیں۔شاہراہوں پر جو کنٹینرز اب تک پکڑے نہیں جاسکے وہ پولیس سے ایسے چھپ رہے ہیں جیسے بلیک اینڈ وائٹ دور کی پنجابی فلموں کی مٹیار ولن سے بھاگتی ہے۔

کبھی آمریت کے خلاف معرکہ آرائی کرتے تو کبھی جمہوریت کے خلاف جلوس اور دھرنا دیتے۔ دنیا ترقی و خوشحالی کے مراحل طے کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک اپنی منزل کا تعین ہی نہیں کر پائے ہیں۔جب ذرا ملک کے حالات نااُمیدی اور مایوسی کے سایوں سے نکل کر بہتری کی راہوں پر گامزن ہونے لگتے ہیں تو پھرکوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

جمہوریت کے علمبردار ہی اُسکی جڑیں کاٹنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ اِس ملک و قوم کی بقاء جمہوریت کے تسلسل ہی میں مضمر ہے۔ اِس نظام میں اگر کچھ خامیاں اور خرابیاں موجود ہیں تو اُنکی اِصلاح بھی اِسی کے اندر رہ کر کی جا سکتی ہے اِسے سبوتاژ کرکے نہیں۔

صرف ایک جماعتِ اسلامی ہے جو دھرنوں کے رعب میں آئے بغیرغزہ کے فلسطینوں کے حق میں کسی نہ کسی شہر میں احتجاجی ریلیاں نکالتی رہتی ہے۔لیکن کراچی میں ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی غزہ ریلی کو بھی دھرنا چبا گیا۔کیونکہ کراچی کے بیشتر کیمرے بھی ان دنوں ڈی چوک میں ہی فلمیا رہے ہیں۔
۔کراچی میں مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ دو سطری خبر ہوگئی ہے۔جرائم کا گراف بری طرح منہ کے بل گرا ہے۔پولیو کی ٹیمیں ہنستے گاتے ویکسین بانٹ رہی ہیں۔طالبان چھٹی لے کر کسی پرفضا مقام پر آرام کررہے ہیں۔اسپتالوں کے خالی بستر مریضوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اسکولوں میں مسلسل چھ گھنٹے کلاسیں ہورہی ہیں۔ سڑک کے حادثات ماضی بن چکے ہیں۔تمام سرکاری ملازمین نو سے پانچ تک اپنی اپنی میزوں پر فائلوں میں گم ہیں-

صوبائی حکومت کو پورے ملک کے لیے ایک درخشاں اور قابل تقلید مثال بنائیں تاکہ آیندہ الیکشن میں عوام آپ KPK کو مرکز کی حکومت کے لیے بھی اکثریتی ووٹ دیں۔ لیکن اس صائب مشورے کے بعد میں آپ سے بعد احترام پوچھنا چاہوں گا کہ مئی 2013 کے الیکشن میں اگر “Rigging” ہوئی تو وہ پورے ملک میں ہوئی ہوگی۔ کیا سندھ، بلوچستان اور KPK اس سے بری الذمہ ہیں۔ وہی عام سیاہی ہر جگہ استعمال ہوئی۔

لہٰذا ازراہ کرم آپ حکومت کو ’’گھر بھیجنے‘‘ کے مطالبے سے فی الحال دستبرداری اختیار فرمالیں کیونکہ حکومت کے ساتھ ہی Democracy بھی گھر چلی جائے گی۔ ادھر آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ میں بھی یکسوئی کی ضرورت ہے۔ اگر فوج کا دھیان (Concentration) ذرا سا بھی بٹا تو طالبان کو موقع مل جائے گا۔ خدانخواستہ آپریشن کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا تو پھر ملک اور قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہر سمت طالبان ہی طالبان ہوں گے۔ دھماکے ہوں گے، بارود ہوگا اور پوری قوم ’’گھر چلی جائے گی۔‘‘

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 256850 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More