اسلا م آباد:دھرنے جاری.... معیشت متاثر،ڈیڈلاک برقرار

اسلام آباد میں قادری و عمران کے دھرنوں کے ذریعے حکومت کو ختم کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، جس کے بعد دھرنوں میں بیٹھے عوام مایوس ہورہے ہیں، لیکن دونوں رہنما بار بار وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کیے جارہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وزیراعطم کے استعفے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ہماری سول نافرمانی کی تحریک جاری رہے گی اور اس سے آگے ملک گیرپہیہ جام کی طرف بھی جاسکتے ہیں اور طاہر القادری نے ایک بار پھر حکومت اور پورے نظام کو آڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اڑتالیس گھنٹوں میں حکومت ختم کردی جائے اور اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں، بصورت دیگر دما دم مست قلندر ہوگا۔ وزیر اعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ دھرنے والوں کے ساتھ سنجیدگی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں، مگر یہ بات واضح ہے کہ ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کرنے والے قوم کے قطعاً خیر خواہ نہیں، ہم نے تمام آئینی مطالبات تسلیم کر لیے، جس کے بعد احتجاج کا کوئی جواز نہیںرہا، ہم عوامی مینڈیٹ کا تحفظ کریں اور تمام جماعتوں سے مل کر سازشیں ناکام بنائیںگے۔ جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کے دفاع کے لیے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوریت کا دفاع ہر صورت کیا جائے گا۔ ڈنڈا بردار لوگ 18 کروڑ عوام کی بے حرمتی کر رہے ہیں اور نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں، آئین کے ساتھ چھیڑخانی کی گئی تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ سکتاہے، آئین کی طرف بڑھنے والا ہر ہاتھ کاٹ دیں گے۔ اگر ملک میں یہ روایت چل پڑی تو ملک کیسے چلے گا؟ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی خان کا کہنا ہے کہ عمران خان سیاسی طور پر شہید بننا چاہتے ہیں، مگر ہم انھیں شہید ہونے نہیں دیں گے۔ آئین میں وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقہ موجود ہے۔ 20 سے 30 ہزار لوگ تو ہر جماعت اکٹھے کرسکتی ہے، اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو ملک میں کوئی بھی جمہوری حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہے گی۔ انا اور ضد کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، وزیراعظم نے 6 میں سے 5 مطالبے مان لیے ہیں پھر دھرنوں کا جواز کیا ہے۔ ہم جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں۔ مائنس ون کا فارمولہ پاکستان میں نہیں چلے گا۔

ممکنہ ماورائے آئین اقدامات اور شہریوں کے حقوق کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو شاہراہ دستور کلئیر کرنے کا حکم دےتے ہوئے کہا ہے کہ سڑکیں، گزر گاہیں عوام کی ہوتی ہیں، ان پر کوئی قبضہ نہیں کر سکتا۔ شاہراہ دستور کی بندش کی وجہ سے قومی اداروں کے ملازمین کو اپنے دفاتر پہنچنے میں سخت پریشانی کا سامنا ہے، دھرنے کے شرکاءنے عدالت عظمی پر اپنے کپڑے لٹکا رکھے ہیں، سرکاری ملازمین کی تلاشی لی جا رہی ہے اور انھیں ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ شاہراہ دستور کو کلیئر کرایا جائے، کل ہم اسی راستے سے عدالت آئیں گے۔ دوسری جانب عمران خان نے افتخارچودھری کے ہتک عزت نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری قوم آپ کی جرات اور آمرکے سامنے ڈٹ جانے کی معترف ہے اور فوجی آمرکے سامنے ڈٹ جانے پر سلام پیش کرتی ہے۔ آپ کے عہدساز فیصلوں کو سلام پیش کرتے ہیں، ممکن ہے ریٹرننگ افسران سے آپ کا خطاب منصفانہ الیکشن کے لیے ہو۔ آپ کا 31 جولائی 2009 کا فیصلہ قابل ستائش ہے۔ آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے افتخار محمد چودھری کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ مجھ سے الفاظ کے چناﺅ میں غلطی ہوئی، امید ہے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری درگزر کردیں گے۔واضح رہے کہ عمران خان سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پر سخت تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے ہیں،انہیں ضمیر فروش تک کہہ دیا تھا۔ماہرین معیشت دانوں کے مطابق دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت روز بروز خسارے کا شکار ہورہی ہے۔ بے یقینی کی صورتحال کے باعث انٹر بینک مارکیٹ میں کاروبار کے دوران ڈالر ایک سو تین روپے کی سطح عبور کرگیا۔ انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر پانچ ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، کاروبار کے دوران ڈالر ایک روپے اکسٹھ پیسے اضافے سے ایک سو تین روپے تیس پیسے کی سطح پر پہنچ گیا۔ وزارت خزانہ حکام کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے آزادی و انقلاب مارچ اور دھرنوں سے پیدا ہونے والے حالات سے ملکی معیشت کو اب تک مجموعی طور پر سات کھرب روپے کے لگ بھگ نقصان ہو چکا ہے۔ اس وقت پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضہ ساٹھ ارب ڈالر ہے۔اس لحاظ سے ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے میں 180 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور اگر ڈالر مزید مہنگا ہوتا ہے تو اس سے پاکستان کے ذمے قرضہ مزید بڑھ جائے گا، جبکہ ٹیکس وصولیاں بھی متاثر ہوئی ہیں، تاہم عمران خان کے اعلان کردہ سول نافرمانی کی تحریک کے ٹیکس وصولیوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں، مگر برآمدی و درآمدی آرڈرز منسوخ ہونے اور صنعتیں اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے سے ریونیو کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

دوسری جانب عین اس وقت جب اسلام آباد میں دونوں دھرنے اپنی موت خود مرتے دکھائی دے رہے ہیں، ایسے وقت میں سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان نے عام انتخابات 2013 میں دھاندلی کے ”انکشافات“ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھاندلی میں سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری سمیت سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی ملوث تھے، جب کہ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کام کرنے سے خوف زدہ تھے۔ انتخابات میں انتہائی منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی، پہلے دن سے الیکشن میں دھاندلی کا شک تھا، لیکن اب یقین ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے الیکشن کمشنر پنجاب جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی نے کہا ہے کہ افضل خان کا انٹرویو منصوبے کے تحت تھا، جسے سال کا سب سے زیادہ فکسڈ میچ کہا جا سکتا ہے۔ سابق ایڈیشنل سیکرٹری افضل خان کے الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں، افضل خان 17 مئی 2013 کو ریٹائر ہو رہے تھے، لیکن افضل خان نے گریڈ 22 میں ترقی اورملازمت میں توسیع کی درخواست دی تھی، جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔ انتخابات کے روز ہم نے اپنے تمام اختیارات ریٹرننگ افسران، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور پریزائیڈنگ افسران کو تفویض کردیے تھے۔ جبکہ جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کا کہنا تھا کہ میں افضل خان سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد ان کو یہ سب اچانک پتہ چلا؟ جب یہ وہاں ملازم تھے، تب انہوں نے کچھ کیوں نہیں کیا۔ اسی طرح سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اگر اس دھاندلی میں جسٹس افتخار چودھری شامل تھے تو پھر اس دھاندلی میں عمران خان بھی شامل ہوں گے، کیونکہ وہ تو ان کے پیچھے تھے اور ان کی پارٹی کے قریبی لوگ افتخار چودھری کے چاہنے والوں میں شامل ہیں۔ عمران اور قادری کو چلانے والے وزیراعظم کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں۔ ملک میں قانون کی کوئی وقعت نہیں رہی، کوئی بھی شخص 10 لوگوں کوجمع کرکے کوئی بھی الزام لگاسکتاہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ آزادی اور انقلاب مارچ والوں کی دھرنا سیاست سے گزشتہ دو ہفتے سے امور حکومت و مملکت اور روزمرہ کا کاروبارِ زندگی عملاً معطل ہے، بیرون ملک کے سفارت خانوں میں بھی پاکستانی شہریوں کے ویزوں کے اجراءو تجدید سمیت ہر قسم کی مراسلت بند ہے۔ ملک کی اسٹاک مارکیٹ عملاً کریش ہو چکی ہے، قومی معیشت کو اربوں ڈالر کا ٹیکہ لگ چکا ہے ۔ دھرنے اور دھمکیوں کے ذریعے اپنی مفاداتی سیاست کو پروان چڑھانے اور ملکی سالمیت کو داﺅ پر لگانے والے قائدین کو حالات کی سنگینی کا کوئی ادراک تک نہیں۔ اس مزاحمتی سیاست کے نتیجے میں لوگوں میں جو ذہنی خلجان پیدا ہو رہا ہے، وہ اپنی جگہ پر صحت مند معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔ انتخابی نظام اور گورننس میں موجود خرابیوں کی نشاندہی اور اصلاح کے تقاضے کرنا بلاشبہ اپوزیشن کا استحقاق ہے، مگر یہ حق سسٹم میں رہ کر اس کی اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کے دوررس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، جبکہ اپنے اس حق کی بنیاد پر پورے نظام کو تاراج کرنے کی ٹھان لی جائے تو ایسی مفاداتی سیاست حکومت کے لیے تو کجا، قوم کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو بھی حکومت کے ساتھ یکجہت ہو کر پارلیمنٹ، آئین اور نظام کو بچانے کی فکر لاحق ہے، جو یک زبان ہو کر عمران خان اور طاہرالقادری کے فسادی ایجنڈے کو مسترد کر رہے ہیں۔ بلکہ ان کے اپنے کارکنان بھی بد دل ہورہے ہیں،اسی لیے اپنے کارکنوں کے اضطراب کو بھانپ کر انہیں اب واپسی کے کسی ایسے راستے کی تلاش ہے جس سے ان کا بھرم قائم رہ سکے۔ قوم مفاداتی سیاست کے اسیران قائدین سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ انہیں ملک و قوم کے مفادات کے برعکس اپنے مفادات کا کھیل کھیلنے کا حق کس نے دیا ہے۔ اگر وہ فی الواقع سسٹم کی اصلاح چاہتے ہیں تو انہیں صرف ایک شخصیت کے ساتھ ضدبازی پر مبنی اپنی سوچ ترک کرکے ملک اور قوم کے اچھے مستقبل کی بنیاد رکھنا ہو گی، بصورت دیگر وہ پاکستان میں اپنے لیے موجود تھوڑی بہت ہمدردی سے بھی محروم ہو جائیں گے اور ان کی اپنی سیاست کا بوریا بستر لپیٹ جائے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.