سیاسی بلوغت

ہمارے پیارے وطن کی عمر اب کافی ہوچکی ہے۔سامنے نظر آنے والے سیاستدان بھی60سے کم نہیں ہیں۔اس سے پہلے جو لوگ مختلف پارٹیوں کی قیادت کرتے رہے ہیں۔وہ بھی بڑی عمروں والے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو،مفتی محمود،پروفیسر غفور،نواب زادہ نصراﷲ خان تمام ہی اپنے اپنے دور میں بزرگ رہنما شمار ہوا کرتے تھے۔جناب ولی خان ،غوث بخش بزنجو،پیر پگاڑا،مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا مودودی تمام ہی نے لمبی عمریں پائیں۔اوریہ حضرات ملک کے حالات کو درست کرنے کے لئے اپنی اپنی عقل و سمجھ کے مطابق جدوجہد کرتے رہے۔مارشل لاء لگانے والے جرنیل بھی سفید بالوں کو سیاہ اور چمکدار رکھنے کے لئے کالک لگایا کرتے تھے۔عمروں میں وہ بھی کم نہ تھے۔لیکن پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ چند سال کے بعدہی حالات بگڑ جاتے ہیں۔اور محسوس ہوتا ہے کہ لیڈرشپ میں سیاسی بلوغت نہیں آئی۔اب تک حکومتوں کے خلاف کئی تحریکیں چل چکی ہیں۔ان میں مذہبی اور سیاسی تحریکیں تمام ہی شامل ہیں۔متحدہ پاکستان کے زمانے کی مجیب کی تحریک ایوب کو گھر روانہ کرنے کی تحریک کافی معروف ہیں۔بھٹو کے زمانے میں ختم نبوت کی تحریک اور پی۔این۔اے کی تحریکوں نے کئی کئی ماہ ریاستی نظام کو مفلوج کئے رکھا۔قوم و ملک کا بے شمار نقصان ہوا۔ایم۔آر۔ڈی کی تحریک بھی کافی جاندار رہی ہے۔ایسے ہی90ء کی دہائی میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرتی رہیں۔جج بحالی کی تحریک سے لیکر اب نوازشریف ہٹاؤ تحریک تک بات آپہنچی ہے۔جب1973ء کا تفصیلی آئین بن گیاتھا۔تو قوم نے سکھ کا سانس لیاتھا۔کہ آدھا ملک کھونے کے بعد قوم بالغ ہوگئی ہے۔ریاست اور عوام ایک معاہد ہ عمرانی میں بند ہوگئے تھے۔وفاق اور صوبوں کے اختیارات طے ہوگئے تھے۔اور پوری قوم نے قائد اعظم کی ہدایات کے مطابق ریاست کو چلانے کے لئے پارلیمانی طریقہ منتخب کرلیاتھا۔لیکن ایک سال کے بعد ہی ختم نبوت کی تحریک نے پورے ملک میں پھر ہل چل مچادی تھی۔ایسا لگتاتھا کہ ریاست میں اسلام کے کردار کو پوری طر ح واضح نہیں کیا جاسکا تھا۔اسی لئے بعد میں اضافی پیراگرافوں کے ذریعے وضاحتیں کی گئیں۔مسلم کی تعریف طے ہونے کے بعد لوگ پرسکون سے ہوگئے تھے۔لیکن براہوا اقتدار کی ہوس کا کہ 3سال بعد پھر لوگ سڑکوں پر تھے۔اور اب پھر14اگست والے دن سے ایک سیاسی اور دوسری مذہبی پارٹی اسلام آباد میں رونق افروز ہے۔پھر پوری قوم اسلام آباد کی طرف دیکھ رہی ہے۔کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں۔اشیاء کی اندرون ملک ترسیل میں بہت سی رکاوٹیں پیدا ہوچکی ہیں۔اور اس سے مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے۔اگر کسی شعبہ کے لئے یہ موسم بہار ہے تو وہ شعبہ الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔تمام چینلز میںCut-throatمقابلہ ہے۔ہر ایک کی یہ کوشش ہے کہ دھرنے کے لیڈروں کو مختلف زاویوں سے دکھایا جائے۔یہ بھی دکھایا جارہا ہے کہ اگر لیڈروں کے سامنے سامعین نہ ہوں تو لیڈر سامعین کو بلانے کے لئے کیاکیا حربے اختیار کریں۔اور ڈانس چاہے یہ لڑکوں کا ہویا لڑکیوں کا کوئی بھی چینل اس کام سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔اور اب قوالوں کا بھی انتظام ہوگیا ہے۔اب صرف بھانڈ باقی رہ گئے ہیں۔دونوں لیڈروں کو چاہیئے کہ دو،چار گروپ ایسے لوگوں کے بھی بلا لیں۔تاکہ قوم کی تربیت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔دھرنے کے لیڈرز دن میں آراستہ پراستہ اور ٹھنڈے کنٹینروں یا اپنے گھروں میں آرام فرماتے ہیں اور شام ہوتے ہوئے اپنے راگوں اور اداکاری کے ساتھ قوم کے سامنے حاضر ہوجاتے ہیں۔دوسروں کو مخاطب کرنے کے لئے ایسے ایسے الفاظ استعمال ہورہے ہیں کہ پہلے کبھی سننے میں نہیں آئے۔اردو کے لغات میں ان تمام الفاظ کو شامل کرنے کے لئے لغت نویسوں کو پوری لغات نئے سرے سے مرتب کرنا ہوگی۔کیونکہ ا سے ی تک کی پوری تختیوں میں نئے الفاظ داخل کرنا ضروری ہوگئے ہیں۔پاکستان کی فلم انڈسڑی کو بھی جاگنا چاہیئے۔سیاست اور مذہب نے2بہترین اداکاروں کو چھپا رکھاتھا۔دونوں کی صلاحیتیں نکھر کرپوری قوم کے سامنے آگئی ہیں۔فلم انڈسٹری کو اب جلدی سے دونوں کوکاسٹ کر لینا چاہیئے۔اس کام سے مردہ فلم انڈسڑی میں جان پڑ جائیگی۔یہ نہ ہوکہ ہمارے بلا صلاحیت اداکاروں کو کوئی اور ملک لے اڑے۔انڈسڑی والوں کے لئے یہ آخری موقع ہے ۔نئے سکرپٹ کی ضرورت نہ ہوگی۔سب کچھ پہلے سے تحریر شدہ موجود ہے۔بات سیاسی بلوغت سے شروع ہوئی تھی۔لیکن کسی اور طرف ہی نکل پڑی۔لگتا ہے کہ بلوغت اور خاص طورپر سیاسی بلوغت کا تعلق عمر سے ہرگز نہیں ہے۔پاکستان کی اپنی عمر 67سال اور اس وقت سامنے جو لیڈر شپ موجود ہے وہ سب60سے اوپر ہے۔شاید سیاسی بلوغت سے ذاتی مفادات نکالنے کے بعد مفہوم صاف ہوتا ہے۔ہمارا کوئی بھی لیڈر ذاتیات سے بلند ہوکر سوچنے کے لئے تیار نہیں۔سراج الحق چاہے جتنی مرضی دہائی دیں۔ہاتھ باندھیں ۔منت کرلیں۔ہرشخص یہاں اپنا قد کاٹھ بڑھانے کے بارے جدوجہد کرتاہے۔صرف اور صرف اپنے مفادات ۔نواز شریف سے لیکر عمران خان تک لیڈروں کی ایک لمبی لائن ہے۔لیکن نگاہ بلند،سخن دلنواز اور جان پر سوز والی بات کسی میں نہیں ہے۔جب نواز شریف وزیراعظم منتخب ہونے کا حلف لے رہے تھے۔اس سے پہلے انہیں اپنے خاندان سے باہر کے وفادار رفقاء کے بارے سوچنا چاہئے تھا۔کیا چودھری نثار اورخواجہ آصف وزیراعظم کے لئے نااہل تھے۔اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ آخر صرف ایک شخص تک کیوں محدود رہے۔پاکستان مسلم لیگ ن اب کافی پرانی پارٹی بن چکی ہے۔اپنے دوسرے ساتھیوں پر بھی کبھی کبھار اعتبار کرنا سیاسی بلوغت میں آتا ہے۔اور پھر وزیراعلیٰ کے ساتھ حمزہ شہباز ڈپٹی وزیر اعلیٰ۔100ارب روپے والے قرض کے پروگرام پھر خاندان کے اندر ہی سے نگران ۔جناب نواز شریف صاحب اگر پاکستان مسلم لیگ کو آپ واقعی سیاسی پارٹی بنانا چاہتے ہیں تو خاندان سے باہر والے باصلاحیت لوگوں پر اعتمادکریں۔یوں پارٹی زیادہ جاندار بن جائے گی۔مختلف ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے پارٹی کے اندر سے ہی لوگوں کو ٹریننگ ملتی رہے گی۔عمران خان نے بھی دھرنا دیکر اپنے قدکاٹھ میں اضافہ نہیں کیا۔وہ چارسال باقی صوبوں خاص طورپر سندھ اور بلوچستان میں کام کرتے۔اکثر دانشوروں کے نزدیک اگلا الیکشن عمران خان کا نظر آرہا تھا۔لیکن دھرنے کے بعد عمران خان سیاستدان کی بجائے کچھ اور ہی نظر آنے لگے ہیں۔سیاسی بلوغت ابھی آپ سے بہت دور ہے۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 18 Articles with 10832 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.