اَب کیا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہرکادھرناکوئی نئی تبدیلی لاسکے گا...؟؟

آج یہ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری اپنے انقلاب اور آزادی مارچوں کے ساتھ ریڈزون میں داخل ہوگئے ہیں اور دونوں اپنے دھرنے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے منتقل کرچکے ہیں اور یہ بھی سب نے دیکھا کہ عمران خان نے کس طرح سِول نافرمانی کا اعلان کیااور پھر بعدمیں یہ ریڈزون کی تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے ریڈزون میں داخل ہوگئے ہیں اور لانگ مارچوں کے شرکاء رکاوٹیں توڑ کر وہاں تک پہنچنے میں کامیاب نظرآئے اِنہیں جہاں تک پہنچناتھاابھی بطاہر تو پُرامن طریقے سے دونوں ہی لانگ مارچوں کے شرکاء شاہراہ دستورپر آپس میں مل کر بیٹھے ہوئے ہیں مگر پھر بھی کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمتنے کے لئے ریڈزون کی حفاظت پر معمورسیکورٹی فورسز کے تازہ دم دستے موجود ہیں اور ریڈزون کی اہم و حساس عمارتوں کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں اور کسی بھی ہنگامی حالتِ کے پشِ نظر اسلام آباد کے اسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذہے اور سارے انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں آج جدھر یہ سب کچھ ہے تو وہیں پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے اپنے جنونی کارکنان سے خطاب کے دوران دھمکی دی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے استعفے کا انتظارکروں گااگر استعفیٰ نہ آیاتووزیراعظم ہاؤس میں گھس جائیں گے،اِس موقع پر عمران خان کا کہناتھاکہ اَب ہمیں پولیس روک سکتی ہے اور نہ پاک فوج اُنہوں نے کہاکہ نوازشریف تم اِنہیں روک سکتے ،اَب سامنے آؤ میں آرہاہوں‘‘جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہرالقادری نے اپنے انقلا ب مارچ کے انقلابی کارکنان سے خطاب کے دوران یہ اعلان کیا کہ اسمبلیوں کی تحلیل تک دھرناجاری رہے گا‘‘اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں حکومت کا جو اور جیسارویہ رہااور اِس نے دھرنیوں کو ریڈزون تک آنے کے لئے سیکورٹی فورسز کو کیا احکامات جاری کئے یقینااِس کا کریڈٹ حکومت کو جاتاہے آج حکومت دانشمندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے سیکورٹی فورسزکو مظاہر ین کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کا نہ کہتی تو حالات اِس کے یکدم اُلٹ ہوتے اور دھرنی اپنے اہداف تک پہنچنے کے بجائے کہیں کے کہیں نظرآتے اور مُلک کا ساراسسٹم اُلٹ پلٹ ہوچکاہوتااور سب ایک دوسرے کے بُرابھلاکہتے ہوئے آہ وفغاں کررہے ہوتے اور اپنے چھپنے کے لئے کونے تلاش کرتے ہوئے نظرآتے،حکومت کا دھرنیوں کو آسانی سے ریڈزون تک آنے کے لئے راہ ہموارکرناایک قابل تسائش امرہے۔
اَب جبکہ انقلابی اور آزادی مارچوں کے دھرنی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک انقلاب اور نئے پاکستان کی تلاش کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں تو آج اِن حالات میں یہ سوالات ہر پاکستانی کے دماغ سے نکل کر زبان پہ آرہے ہیں کہ کیا مذاکرات کی راہ کو چھوڑکر دھرنے دینے سے مُلک میں کوئی انقلاب آپائے گایا نیاپاکستان بن سکے گا...؟اوراِس کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ ریڈزون کو کراس کرنے کے بعدجمہوریت قائم رہ سکے گی..؟یاپھر وہی ہوجائے گا اور وہی لوگ مسندِ اقتدار پر قابض ہوجائیں گے...؟جن کے ہاتھوں جمہوری چڑیا قیدہوجائے گی..؟اور ہمارے یہی ضدی اور اَناپرست سیاستدان جو ابھی تو جمہوری شیربنے ہوئے ہیں ڈرہے کہ یہ کہیں کسی لمبے عرصے تک کے لئے گیڈرنہ بن جائیں...؟اِس موقع پر سب کا ہی امتحان ہے وہ اپنی ضدو اَناکو بچاتے ہیں یا اپنی حکمت و دانشمندانہ سیاسی فیصلے کرکے جمہوریت کوبچالیتے ہیں اَب اِن حالات میں یہ فیصلہ کرنااِن حکمرانوں اور سیاستدانوں کاکا م ہے آج جن کی وجہ سے جمہوریت سمیت اِنہیں بھی قیدکرنے کی یہ ہولناک سیاسی بساط بچھادی گئی ہے۔

اگرچہ آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کی موجودہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی سیاسی ہلچل بازی پر نہ صرف مُلکی بلکہ عالمی اداروں اور اپنے پرائے سب ہی ممالک کی نظریں جمعی ہوئی ہیں، دارالحکومت میں ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے کارکنان کے ساتھ دھرنادیئے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے علامہ طاہرالقادری اپنے مریدین کے ہمراہ انقلاب آنے تک ڈیراجمائے ہوئے ہیں جہاں علامہ طاہرالقادری کی ڈیڈلائین کی مدت 18اگست کو ختم ہوگئی ہے جس کے بعد قادری صاحب نے 19اگست کی شام 5بجے اپنے مریدین کی مرضی و منشاکے مطابق نئی اور حتمی حکمتِ عملی کا اعلان کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس میں یہ اپنی مرضی اور ارادو ں کے بجائے اپنے مریدین اور انقلابی ادھرنے کے شرکاء سے پوچھ کر اپنا آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کریں گے تو اُدھرہی عمران خان کی وزیراعظم کو دی گئی48گھنٹوں کی مہلت ختم ہونے میں بھی کچھ گھنٹے باقی ہی تھے کہ عمران خان نے اپنے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران سے بھی استعفے لے لئے تھے اور اِسی کے ساتھ ہی عمران خان نے تمام حکومتی اقدامات اور خطرات سے باخبر ہونے کے باوجود بھی 19اگست کو خودکو فرنٹ پر رکھتے ہوئے ریڈزون عبورکرنے کابھی اعلان کردیاتھا،سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا خام خیال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب دونوں (نوازو عمران) اطراف سے سیاست کے بجائے ذاتی لڑائی اور ضد اوراَناکا غلبہ ہے اِس موقع پر عمران خان کا عورتوں اور بچوں کو سامنے رکھ کر ریڈزون عبورکرنے کا اعلان کسی بھی لحاظ سے درست نہیں کہاجاسکتاہے،اَب اس ساری سیاسی صورتِ حال میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیاکے بیشترممالک کے سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ عمران و قادری کے ایجنڈوں کے پسِ پردہ کو ن سے ہاتھ ہیں...؟ اور وہ کون ہیں جو اِن کی پست پناہی کررہے ہیں...؟جبکہ اِن تمام خدشات کے باوجود عمران خان اور طاہر القادری اپنے اپنے کارکنان کے ساتھ ریڈزون میں پہنچ گئے ہیں اور اَب یہ اپنے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔

اگرچہ آج اِن دونوں کے مطالبات سے کچھ کچھ یہ اندازہ ضرورہوچلاہے کہ عمران و قادری کی پیٹھ پر وہی عناصر اور ہاتھ کارفرماہیں جنہوں نے چارمرتبہ جمہوری حکومتوں پر شب خون مارااور جمہوریت کا دھرن تختہ کرکے خودہی قابض ہوئے اِس مرتبہ اِن کی یقیناحکمتِ عملی کچھ یوں ہوئی ہے کہ اُنہوں نے ایک طرف سیاسی پارٹی کو حکومت کا مخالف بناکر پیش کیاہے تو دوسری طرف عوام میں سے ہی ایک گروپ کو پیش کردیاہے یعنی یہ کہ دوتیرسے ایک شکار جو بھی نشانے پہ بیٹھ جائے ،مقصدشکار کرناہے،اَب ایسے میں دیکھنایہ ہے کہ حکمران جماعت کی سیاسی یا اخلاقی جیت ہوتی ہے یا اِن دونوں کی جو کسی کے اسکرپٹ پہ اپنی اپنی اداکاری کے جوہر دکھارہے ہیں اَب یہ آپ بھی سوچیں اور میں بھی سوچتاہوں کہ اگلے دِنوں میں کیا ہونے والاہے..؟؟

بہرکیف ..!آج آزادی مارچ لے کر اسلام آباد میں پڑاؤڈال کر نئے پاکستان کی تلاش میں نکلنے والے عمران خان نے سِول نافرمانی کا اعلان کردیاہے اَب اِس کے بعد مُلک کا کیا بنے گا..؟؟قوم کا کیا ہوگا..؟؟معیشت کدھرجائے گی..؟؟کیاتعمیروترقی رک جائے گی..؟؟یا یہ سب کچھ خدشات و توقعات کے برخلاف پہلے سے بہتر ہوجائیں ..؟؟یامزیدتنزلی کا شکارہوکرپستی میں چلے جائیں گے ..؟آج یہ وہ سوالات ہیں جو ہر محبِ وطن پاکستانی کے دماغ میں جنم لے رہے ہیں اَب جن کے جوابات ہر پاکستانی شدت سے چاہتاہے اور ضروری ہے کہ قوم کے دماغ میں پیداہونے والے مختلف اقسام کے سوالا ت کے جوابا ت عمران خان تسلی بخش دیں تاکہ قوم کو اِن کے سیاسی و ذاتی مفادات و عزائم اور مستقبل کے نئے پاکستان پراعتمادبحال رہے ورنہ قوم کو یہ سب کچھ فضول ہی لگے گاجس کے لئے یہ سب کچھ کیاجارہاہے اوراگرعمران خان اپنے آزادی مارچ اور دھرنے سے کچھ بھی حاصل نہ کرسکے توپھرآئندہ نہ صرف قوم کابلکہ عمران خان کے اپنے کارکنان کا بھی اپنے قائد پر سے بھروسہ اُٹھ جائے گا۔

اتوار سترہ اگست کی شام قوم نے سُنا،دیکھااور اگلے روز اخبارات میں بھی پڑھاکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی زندگی کی سب اہم تقریرکرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ سے وزیراعظم بننے والے مسٹر نوازشریف کو کس انداز سے مخاطب کیا اور اِن کے لئے جو الفاظ استعمال کئے وہ بھی سب کو معلوم ہے اور عمران خان نے اپنے جذباتی انداز سے کس طرح وزیراعظم مسٹرجنابِ مسٹرنوازشریف کو مستعفی ہونے کے لئے 48گھنٹے کی مہلت دی اور ایسانہ کرنے پر عمران خان نے مُلک میں کھلم کھلاسِول نافرمانی کی تحریک کااعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے عوام بجلی، گیس کے بل اور ٹیکس نہ دیں،تاجر جی ایس ٹی نہ دیں اُنہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے دونمبری سے پیسہ بنایا، میرادل چاہتاہے کہ وزیراعظم کو گریبان سے پکڑکرگھسیٹوں اورپھینک دوں،دونمبری آدمی کا احتساب کریں پارلیمنٹ بھی جعلی ہے،نوازشریف نے الیکشن کمشن ، چیف جسٹس کو خریدا،جمہوریت پسند ہوں نہیں چاہتاانتشار کی وجہ سے فوج آجائے ،مُلکی عدالتیں، سِول بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین نوازشریف کی ملازمت سے خودکو آزادکریں،میں دھاندلی سے آئے وزیراعظم کو دودن کی مہلت دیتاہوں،وزیراعظم مستعفی نہ ہوئے توکارکن کنٹرول میں نہیں رہیں گے،اوراِنہوں نے اپنی اِس تاریخی تقریرمیں عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کا کئی مرتبہ تذکرہ کرتے ہوئے اِس کا نوازشریف کا حواری ہوئے کے ساتھ ساتھ موجودہ دونمبری وزیراعظم نوازشریف کے تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے تک کے عمل پر میچ فکسنگ کا الزام لگایا‘‘ ۔اور 18اگست کی شام کو عمران خان نے دھرنے کے کارکنان سے پھر خطاب کیا جس میں عمران خان نے حکومتی کو دھمکی آمیزلہجے میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ 19اگست کی شام خودکو سامنے رکھیں گے اور یہ ریڈزون میں داخل ہوں گے،اِن کے جنونی کارکن اِن کے پیچھے اور اِن کے ہمراہ اِن فیملی کی خواتین جن میں اِن کی بہنیں اور اِن کی خواتین کارکنان ہوں گیں اِس موقع پر اُنہوں نے واشگاف انداز سے یہ اُمیدبھی ظاہر کی کہ پاکستان کی پولیس عمران خان پہ گولی کیا لاٹھی بھی نہیں چلائے گی اور عمران کے اِس دھمکی آمیزاعلان و عزائم کے بعدحکومتی سطح پر تشویش ناک حدتک چہ مگوئیاں شروع گئیں ہیں اور ریڈزون تک عمران خان اور اِن کے کارکنان کی رسائی روکنے کے لئے بھی حتی الممکن سخت تردین اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں ابھی جب میں یہ سطورلکھ رہاہوں توآج ایک مرتبہ پھر عمران خان کے نئے اعلان وعزائم یعنی کہ ریڈزون عبورکرنے کی مُہلت ختم ہونے میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔

آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک اِنصاف کے چئیرمین عمران خان دھرنے کی جس تقریر کو اپنے تئیں تاریخی تقریرقراردے رہے ہیں ممکن ہے کہ یہ تقریر اِن کے لئے تاریخی اہمیت کی حامل ہومگر دراصل اِن کی اِس تقریر میں کوئی بھی ایک نقطہ سوائے سول نافرمانی کے اعلان اور نوازشریف کو48گھنٹے کی مہلت کے کچھ بھی نیانہیں تھاسب کچھ وہی پرانے الفاظ اور جملے تھے جن کا تذکرہ عمران خان کئی مرتبہ کرچکے ہیں بہرحال..!اِس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنے خطاب میں نوازشریف سے متعلق جو کچھ کہا وہ سب کا سب کسی حدتک ضرور سچ پرمبنی ہوسکتاہے اِس لئے کہ اگر آج ہم وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائزوزیراعظم مسٹر نوازشریف کے ٹیکس ادائیگیوں کے گوشوارے دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ مسٹرنوازشریف نے 1994 ،1995،1996اور1997میں صرف 477روپے ٹیکس جمع کروائے ہیں،اَب اگرایک ایساشخص جو خود ٹیکس کی ادائیگی میں ڈنڈی مارے اور مُلک کو پوراٹیکس ادانہ کرے اور پھر بھی مُلک کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ، اور خود اپنے ہی منہ سے امیرالمومین کہلائے اور قوم کو کہے کہ وہ بجلی و گیس سے محروم رہ کر بھی بجلی کے اضافی بل باقاعدگی سے اداکرے، اور ٹیکس پوراجمع کرائے ،تو ایسے میں ذراسوچیں کہ کیا یہ قوم کے ساتھ ذیاتی نہیں ہوگی..؟کہ قوم کا وزیراعظم تو اپنا ٹیکس بچائے اور قوم کو کڑوی گولی نگلنے کا مشورہ دے اور کہے کہ قوم ٹیکس پوراجمع کرائے،تو یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے...؟

جبکہ یہاں یہ امر یقیناباعث تشویش ہے کہ عمران خان نے جس انداز سے اپنی تاریخی تقریر میں نوازشریف پر الزام تراشیوں کی بھوچھاڑ کی ہے وہ موقع محل کے لحاظ سے کچھ درست نہیں ہے، عمران خان کی تقریر سیاست سے زیادہ ذاتی لڑائی کے رنگ میں رنگی محسوس ہوئی آج اگر مسٹرسونامی عمران خان کونئے پاکستان کی تلاش کے لئے سول نافرمانی کی ہے تحریک چلانے کا اعلان کرنامقصودتھاتو عمران خان جو اپنی ایک تقریرمیں دانستہ یا غیردانستہ طور پر’’ میں وزیراعظم پاکستان‘‘ بھی کہہ چکے ہیں اِنہیں چاہئے تھاکہ وہ کم ازکم اپنی اِس تاریخی تقریر میں سول نافرمانی کا اعلان تو نہ کرتے اور ایساکچھ منہ سے نہ نکالتے ...آج جس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے لانگ مارچ اور دھرنے کی ساری محنت پر پانی پھرجاتااور اِن کی ذات اور اگلے وقتوں میں بنے والے کسی نئے پاکستان کے نظام اور سسٹم کی کارکردگی پر بھی ابھی سے لگانے والے سوالیہ نشان لگادیتے،آج اِس میں کوئی دورائے اور ابہام باقی نہیں ہے کہ عمران خان جس مقصدکے لئے لانگ مارچ اور دھرنے کاپروگرام لے کر نکلے تھے اِس میں اِنہیں اتنی کامیابی نہیں مل پائی ہے جس کا یہ تصورکرکے چلے تھے،اُدھرحکومت نے بھی تہیہ کررکھاہے کہ سارے سیاسی بحران کا حل مذاکرات اور آئین میں رہتے ہوئے نکالاجائے گا،جس کے لئے کوشیش جاری ہیں دیکھیں کیا رزلٹ آتاہے..؟؟
 

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 888198 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.