سنگین حالات و واقعات میں ماضی کے عدالتی کمیشنوں کا کردار!

آج برسرِ اقتدار ٹولے اور برسرِ پیکار ٹولوں کی باہمی کشا کش نتیجہ خیز لمحات تک آپہنچی ہے ۔ہر طرف بے چینی ،پریشانی اور گو مگو کی حالت ہے ۔کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ آنے والے کل میں کون برسرِ اقتدار اور برسرِ پیکار رہے گا ۔آمدورفعت کے لیے سڑکیں ،راستے ،بڑی گلیاں ،چوک اورچوراہے بند ہیں ۔ساری کی ساری پولیس تھانوں پروٹوکول اور بیکار کاموں سے نکل کر سڑکوں پر حاضر باش ہو چکی ہے ۔وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ہر کام کاج بند ہے ۔ہر اہلکار14 اگست کے بعد کسی بھی کام کو سرانجام دینے کا عندیہ دے رہا ہے ۔آئین اور قانون کے نفاذ کے بجائے کوئی اقتدار بچانے پر اور کوئی حصول تخت کے لیے انقلاب اور کوئی آزادی مارچ کی طرف گامزن ہے ۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کے منہاج القرآن سیکریٹریٹ پر پنجاب حکومت کی طرف سے ہونے والی قتل و غارت گری ایسی احمقانہ غلطی ثابت ہوئی ہے کہ پورے ملک میں اس ظلم و بربریت کی مذمت کی گئی ۔دوسری مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد پر جس طرز سے مسائل پیدا کئے گئے ہیں اس سے پوری قوم ہمہ تن گوش ہوگئی ہے اورہر کسی کو لگا کہ کچھ نہ کچھ غلط ضرور کیا جارہا ہے تیسری غلطی حکومت کی طرف سے یہ ہوئی کہ اتنے بڑے سانحہ پر معذرت اور اسے غلطی تسلیم کر لینے کے باوجود کوئی ایسا ہمدردانہ حل تلاش نہ کیا گیا ہے کہ جس سے عوام الناس یقین کر لیتے کہ ایک حاکم وقت سب کو اپنی رعایا جان کر اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے ۔اور داد رسی کی کوئی جائز مناسب اور انصاف پر مبنی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے ۔بلکہ اس کے برعکس اکثریتی وزراء کے بیانات اپنے کرو فر اور رعونیت بھرے ایسے غیر ذمہ دارانہ اور غرور و تکبر والے سننے اور دیکھنے میں آتے رہے کہ جیسے حکومتی لوگوں کی ایماء پر ان کے ماتحت اداروں نے انسان نہیں بلکہ جانور مارے ہیں ۔اور ایسے غیر ذمہ دارانہ تمام رویوں کے نتیجہ میں جس فضا کا پیدا ہونا لازمی تھا وہ زور پکڑ نے لگی اور بالآخر پھر ایسا ہوا کہ کچھ ایسے افراد کی آشیر باد ملی کہ جنہیں اپنے ماضی کے حسین اقتدار کی مسحور کن ہوا کے جھونکوں کی بجائے دیار غیر جیسا ماحول نصیب ہوچکا تھا ۔اس طرح جب مظلوم انصاف سے محروم اور حکومتی محبت سے محروم ٹولے کو حمایتی مل گئے تو پھر صدائے احتجاج بلندی کی طرف جانے لگی ۔اس موقع پر بھی بہت وقت تھا مگر حکومت کے غلط اور نا اہل مشیر ان کی جہالت پر مبنی حکمت عملی اور رویے نے حالات کو سنگین سے سنگین تر بنا دیا ۔اورا س طرح مظلومیت کے مارے لوگ خود کو تحفظ اور عزت کے ماحول سے محروم جان کر کھل کر سامنے آنے لگے ۔

چوتھی غلطی حکومت کی طرف سے پھر ایسی ہوئی کہ اس موقع کو بھی ہاتھ سے جانے دیا گیا اور اپنے غرور و تکبر میں اپنے ہی عوام کو اپنا مدمقابل قرار دے لیا اور ڈاکٹر طاہر القادری سے اپنی ذاتی نوعیت کی ماضی کی تعلق داری اور قرابت داری تسلیم کی اور موجودہ حالت میں ان کو کسی بھی قسم کی چھوٹ دینے کی بجائے آہنی ہاتھوں نپٹنے کا عندیہ دے دیا ۔اور عملی طور پر ہر طرف کنٹینرز ،محاصرے اور پکڑ دھکڑ کا بازار گرم کر دیا ۔جس کے نتیجہ میں گنجائش پوری کرکے کئی سازشی اور اقتدار سے محروم عناصر ان سے جڑنے لگے اور حتی الامکان ہر کسی نے حکومت کے خلاف ہی بڑاس نکالی اور جو کوئی حکومتی رویوں کے ساتھ جڑا ہوا نظر آیا تو کچھ ایسے کہ ۔۔۔’’سامنے آتے بھی نہیں صاف چھپتے بھی نہیں ‘‘والی بات بن گئی ۔جبکہ انہی ایام میں عمران خان بھی مسلسل سرگرم عمل اور سراپا احتجاج بنے رہے جو کہ بالآخر دونوں پارٹیاں یکجا مشن کی حامل ہوگئیں اور ان کے ساتھ دیگر کئی لیڈران بھی ہم پلہ نظر آنے لگے ،جبکہ وہ حالات پیدا ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ ،صدر پاکستان ،وزیراعظم ،انکی کابینہ ،صوبائی حکومتیں ہر کوئی سوچ بچار میں پڑ گیا ۔کسی کو پاکستان کی سالمیت اور بقا کی فکر اور کسی کو اقتدار کے چھن جانے کا ڈر کیونکہ تمام وہ مواقع جو تمام مذکورہ بالا کو آج میسر ہیں ،ناجانے کل قسمت ساتھ رہے یا نہ رہے ۔ان حالات میں حکومت کے ایوانوں میں وہ بھونچال برپا ہیں کہ کبھی آج تک ۱۴ ماہ میں دیکھے نہیں گئے ۔

پھر بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے !آج وزیراعظم پاکستان نے اپنی حکومت کی کارکردگی جتا جتا کر پاکستان کے باشعور عوام کو باور کروایا کہ ہم بہت کچھ کر رہے ہیں ۔پورے پاکستان میں حکومت کے تمام اخراجات جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں سب نظر میں ہیں ۔ملک میں بے شمار اداروں کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے ۔ہر ادارے سے عوام الناس کو کام پڑتا ہے اور لوگ جس جس طرح سے اپنے کام کروا رہے ہیں سب کے علم میں ہے ۔عوامی نمائندگان کامیاب ہونے کے بعد ایسے چھپے ہیں جیسے جرم کرنے کے بعد اشتہاری روپوش ہوتے ہیں ۔وزیراعظم نے اجتماعی ترقی کے منصوبوں میں منصوبہ بندی اور پیش قدمی بارے تفصیلات بتائی ہیں ۔لیکن عوام کے کام اور عوامی نمائندگان تک رسائی سب سے پہلا کام ہے بیشتر نمائندگان ایسے ہیں کہ انھوں نے مضبوط حکومت کے بل بوتے پر کچھ ایسے کام بھی کئے ہیں جو قابل تعریف ہیں ۔حالانکہ بر سر اقتدار لوگ عوام کے لیے ماں باپ کا درجہ رکھتے ہیں ۔عوام کو نظر انداز کرنے والے بالآخر تنہا رہ جاتے ہیں ۔

آج وزیراعظم نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک بار پھر نظر انداز کیا ہے ۔اور حل تدارک کرنے کی بجائے اپنے سابقہ رویے کی مضبوطی کا اعلان کیا ہے ۔حالانکہ انصاف اور رحم کرنے کے لیے بہترحکمت عملی وقت کا تقاضا ہوتا ہے ۔اور کوئی بیماری ایسی نہیں ہوتی جس کا علاج نہیں ہوتا ۔مگر نادان لوگ بھی ڈاکٹر حکیم تبدیل کر کے دیکھ لیتے ہیں ۔

کسی نے لقمان حکیم سے دنیاوی معاملات کے شدید الجھاؤ کا مختصر علاج پوچھا تھا ۔تو اس نے ’’پیار و محبت ‘‘ بتلایا تھا ۔دوبارہ رابطہ کرکے بتایا گیا کہ مسئلہ حل نہیں ہوا کوئی دوسری ترکیب بتائیں تو انھوں نے کہا کہ نسخہ وہی کارگر ہوگا صرف مقدار بڑھا دیں ۔

اب وزیراعظم نے عدالتی کمیشن قائم کر نے کا عندیہ دیا ہے ۔جبکہ فیصلہ کرنے کے لیے کوئی عدالتی مدت بھی مقرر نہیں ہے ۔پہلے اصلاحات کے لیے کیمیٹی بنا دی ہے ۔در حقیقت اس خطۂ پاک میں ان کمیٹیوں اور عدالتی کمشنوں کا ماضی ایسا ہے کہ اس دوائی سے شاید بہترین علاج ممکن نہیں ہو رہا ہے ۔

کاش ! کہ مقدموں کی بجائے ہمدردانہ رویہ اور ماں باپ والا وطیرہ اختیا رکیا جاتا اور خود پسند تمام حکومتی سر کردہ لیڈران جو اب در جواب اور نئے سے نئے انداز اختیار کرنے کی بجائے حقیقت پسندی اور انسانیت کا طریقہ اختیار کرتے ۔اب بھی حکیم لقمان کی ہدایت کے مطابق انہی کا نسخہ استعمال کرنے کی کوشش کریں ۔جبکہ مرض انتہائی مہلک ہو چکا ہے ۔یا پھر مجبوراًسرور حکماء نہیں تو کم ازکم غیر ذمہ داران مشیران و وزراء ہی کو تبدیل کر دیا جائے ۔اور سنجیدگی سے سر جوڑ کر مسئلے کا حل تلاش کیا جائے ورنہ ملک و قوم بہت خسارے میں جا چکا ہے ۔عوام بہت مایوس ہو چکے ہیں ۔یہی فیصلے اگر پہلے کر لیے جاتے ، تو نتائج اس قدر سنگین نہ ہوتے جن کا مژدہ ہوائیں سنا رہی ہیں اب تو آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا۔۔۔۔۔مگر جو بھی ہو،ہمیں وہ حکمران نہیں چاہیئے جو شجرِ ملت پر پھول بن کر مہکنے کے خواہاں ہوں !ہمیں اس دھرتی کی بقاء اور فلاح چاہیئے اور ان خوابوں کی تعبیر چاہیئے جو اس وطن کے لیے بانئی پاکستان ’’قائداعظم محمد علی جناحؒ ‘‘ اور مفکرِ پاکستان’’ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھے تھے ۔

آج اس جشنِ آزادی پر یہ دعا ہے رب کریم سے کہ اب کہ مؤرخ لکھے تو ان پاکستانی حکمرانوں کی بابت لکھے جو ان اینٹوں کی مانند تھے جو زمین میں دب گئیں تاکہ اس کی سالمیت اور استحکام برقرار رہے نہ کہ ان کی مانند جن کو دستار ملی اور وہ اس کے قابل ہی نہ تھے !
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 7 Articles with 4113 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.