عمران،قادری اور تبدیلی۔سٹار پلس کا نیا ڈرامہ ؟؟؟

ایک وقت تھا جب سٹار پلس کے ڈراموں کا ہر طرف چرچا ہواکرتا تھا،ہر محفل مردانہ و زنانہ کا موضوع سٹار پلس کے نہ ختم ہو نیوالے ڈرامے ،سازشی دماغ رکھنے والے کردار اورا لٹی سیدھی چالیں چلنے والی ساس بہوئیں ہوا کرتی تھیں۔نہ تو اُن ڈراموں کے شروع ہونے کا کوئی وقت معین تھا اور نہ ہی ختم ہونے کا کوئی وقت مقرر ہوا کرتا تھااور ہفتے کے ساتوں دِن بغیر کسی وقفے کے چلا کرتے تھے۔آج کل مملکتِ خدادا میں بھی کچھ ایسے کردار اورڈرامے عوام کے سامنے اپنے اپنے حصے کا کردار ـ’’بخوبی‘‘ نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر تھوڑا غور فرمائیں تو دونوں قائدین بھی اور انکی جماعتیں بھی کوئی سر پیر نہیں رکھتیں۔نہ تو قادری صاحب ایسا با عمل،پاکباز اور دلیر لیڈر نظر آتے ہیں کہ انکے انقلاب کے نعرے کا یقین کر کے سر پہ کفن باندھ کے وزیرِاعظم ہاؤس سے بڑے میاں صاحب کو نکال دیا جائے جنہوں نے پچھلے پانچ سال بڑی ہی مشکل سے اپنی باری کا انتظار کیااور نہ ہی خان صاحب جیسے یو ٹرن ماسٹر بلاسٹر پہ اعتبار کر کے ملک میں انارکی پھیلانے میں مدد دے سکتے ہیں۔قادری صاحب اپنے مریدین سے سجدے تک کروا بیٹھے ہیں نجانے اب وہ اس ملک سے کیا چاہتے ہیں۔سمجھ نہیں آتی کہ انہیں مشرف کا ظلم و جبر سے بھر پور اور غیر آئینی دور کیوں انقلاب کے لئیے موزوں نظر نہیں آیا،پھر کرپشن اور بد عنوانیوں سے مزین زرداری دور بھی اُن کے لئیے قابلِ قبول تھا اور وہ کینیڈا کی یخ بستہ ہواؤں کے مزے بھی لوٹتے رہے اور فنڈز بھی دونوں ہاتھوں اور بال بچوں سمیت اکٹھے کرتے رہے۔لیکن اب میاں صاحب کا یک سالہ دور بھی اُن سے برداشت نہیں ہو رہا اور وہ ملک و قوم جو اس وقت کئی محا ذوں پہ لڑ رہی ہے اورملک کی 52%آبادی ترقی کے لیئے کیئے جانیوالے حکومتی اقدامات پر مطمئن بھی ہے کو ایک گہرے تاریک غار کی طرف لے کے جا رہے ہیں۔ڈرامے کا جو کردار آپ نبھا رہے ہیں آپ کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر وہی نظر آتے ہیں جو شام ،مصر،لیبیا میں کیئے گئے خونی ڈرامے کے ذمہ دار تھے۔اور پھر جنکی گود میں بیٹھ کر آپ پاکستان کی زمین پر اترے انکے ہاتھ پاؤں بھی خون سے رنگے ہوئے اور انکا کردار اور انکے کرتوت دونوں ہی عوام سابقہ ادوار میں دیکھ چکے ہیں۔انقلاب کو کسی شیخ اور کسی چودھری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انقلاب لیڈر کی سچائی ،ایمانداری،حب الوطنی اور عوام کی اکثریت کے اس پر اعتماد کرنے کے محتاج ہو تے ہیں۔مگر نہ تو قادری موصوف عوامی اکثریت رکھتے ہیں نہ انکی سچائی ،ایمانداری اور حب الوطنی پہ کوئی یقین کر سکتا ہے ،یہاں تک کہ کئی لوگ آپکی دماغی حالت پہ بھی تحفظات رکھتے ہیں۔آپ لوگوں کی اپنے ساتھ رکھے جانیوالی مذہبی عقیدت کا نا جائز استعمال یا اُسکو ذاتی مقاصد کے لیئے استعمال کر رہے ہیں۔یہ کیسا انقلاب ہے جو کرائے کے مقرروں اور عوام کے مسترد کردہ لوٹوں پر انحصار کر رہا ہے،جنکو اپنے حلقے اورمحلے کے عوام نے مسترد کر دیا وہ اب قوم کی تقدیر بدلنے نکل پڑے ہیں،قوم کو سچ کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ سب کچھ بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیئے کیا جا رہا ہے اور اس ڈرامے کے سبھی کردار پہلے سے طے شدہ تھے۔بس اب قادری صاحب فنڈ ’’حلال‘‘ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔نجانے چوہدری صاحبان کی گود میں بیٹھ کر اور شیخ رشید سے بوسہ لے کر کس خلافت راشدہ،کس حُسینیت اور کس انقلاب کی بات کی جاتی ہے۔عوام کو چاہیئے کہ ایسے دماغی خلل رکھنے والے مریضوں اور مداریوں پر بھروسہ کرنے سے قبل مندرجہ بالا باتوں پر غور کر لیں تا کہ کل کو پچھتاوے کی ایسی آگ میں نہ جلنا پڑے جو کبھی بجھ نہ سکے۔عوام کو اُس قادری کا چہرہ یاد رہنا چاہیئے جو کنٹینر میں بیٹھے ہوئے رو رو کر مریدین سے وعدہ لے رہا تھا کہ وہ اسے اس کنٹینر میں اکیلا چھوڑ کے نہ جائیں،خود کو حُسینی قرار دے رہا تھا اور حکومتِ وقت کو یزیدی ،اور پھر پہلی آمد پر ہی ڈھیر ہو کر ایک دفعہ پھر ’’فنڈ‘‘ اکھٹا کرنے کینیڈا لوٹ گئے۔اُنکے پرجوش عقیدت مندوں کو چاہیئے کہ ذرا ہوش کے ناخن لیں اور کسی ایسے حسینی لشکر کا حصہ نہ بنیں جو یزیدیوں سے معاہدے کر لے اور جس لشکرکی باگ ڈور ماضی کے ہٹلروں کے ہاتھ میں ہو۔ایک سادہ سی بات ،اِس انقلاب کے نعرے کے سچا یا جھوٹا ہونے کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ چودھری برادران اور شیخ رشید کے کمزور،مفاد پرست اوربے سرو پا کندھوں کا سہارا لیئے ہوئے ہے۔ 14اگست کو انقلاب مارچ کی کال اسلئیے دی گئی تا کہ خان صاحب کے ہجوم کا بھی فائدہ حاصل کیا جا سکے،کیونکہ قادری موصوف اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکے پچھلے دورِ حکومت میں کیئے گئے ڈرامے کو عوام اتنی جلدی نہیں بھولے ہونگے۔

دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف کے بیچارے نا بالغ سے سیاستدان عمران خان ہیں جنکا مشرف کے بعد کوئی والی وارث نہیں رہا کچھ وقت کے لیئے پاشا صاحب نے ضرور گود لیا مگر وہ بھی مکمل ساتھ نہ دے پائے اور کپتان خان روزِ اول کی طرح رونے دھونے پہ لگے ہوئے ہیں۔در حقیقت انکے دماغ میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا تھا کہ وہ 2013کے الیکشن میں وزارتِ عظمیٗ کی کرسی پر برا جمان ہونگے،فیس بک پر ہزاروں بلکہ کروڑوں لائکس دیکھ کر وہ اس مغالطے کا شکار ہو گئے کہ وہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اگلے لیڈر ہونگے۔اپنے جلسے جلوسوں میں عوام کا جم غفیر دیکھ کر وہ آپے سے باہر ہو گئے حالانکہ آدھی سے زیادہ عوام تو اس میوزک کنسرٹ کے لیئے آتی تھی جس کو آپ نے اپنے جلسوں میں لازم قرار دے رکھا تھا۔مجھے خُدا نے موقع ہی نہ دیا ورنہ آپکا میوزیکل شو دیکھنے کی حسرت میرے دِل میں آج بھی باقی ہے۔خیر موصوف نے بھی 14اگست کو مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔آپ کا دھاندلی والا الزام اپنی جگہ پر بالکل جائز اور حقیقت پر مبنی ہے لیکن سچ تو یہی ہے نا کہ جہاں آپکا زور چلا وہاں آپنے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اگر ن لیگ کے ایم این ایز فارغ ہوئے تو آپ کے بھی کچھ ایم این ایز دھاندلی کے الزامات کی زد میں آئے اور دوبارہ گنتی میں اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔نجانے آپ کی یہ سوچ آپ کے اور اِس ملک کے کس دشمن نے آپ کو دی کہ آپ یہ خیال کر بیٹھے کہ آپ پہلے ہی الیکشن میں وزیرِاعظم بن جائیں گے۔نہ کوئی قربانی نہ اپنی ذاتی محنت ،عوام بھی بیٹھے بٹھائے مل گئی اور پارٹی رہنما بھی پلیٹ میں رکھ کر دے دیئے گئے،سارا سازو سامان تو آپکو تیار شدہ مل گیا مگر نہیں ملا تو حوصلہ،نہیں ملی تو ایک مدبر سوچ لیکن اگر آپ کو صرف یہ دو چیزیں مل جاتیں تو وزیر اعظم نہ سہی ایک اچھے ،قابلِ فہم اور زیرک سیاستدان ضرور بن جاتے جو آج نہیں تو کل ضرور وزیر اعظم ہوتااور خان صاحب اِس ملک کو وزیر اعظم کی نہیں ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔یہ عوام بیوقوف ضرور ہے اس بات میں کوئی شک نہیں ،مگر یہ بات یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کرائے کہ گھر کو جتنا بھی سجایا جائے وہ اپنا نہیں ہوتااور یہ بات آپ بھی اچھی طرح سے اپنے دماغ میں بٹھا لیں کیونکہ آپکی پوری کی پوری پارٹی لوٹوں ،اقتدار کی حوس رکھنے والوں اور کرائے کے لوگوں پر مشتمل ہے۔آپکی پوری پارٹی میں چند ایسے افراد ہیں جو حقیقتاً پی ٹی آئی کے ورکر ہیں اور وہ اب دور دور تک نظر نہیں آتے۔آپکی پارٹی کا صدر ن لیگ کا ، وائس چیئر مین پیپلز پارٹی کا اور باقی پارٹی بھی ق لیگ ، ن لیگ اور دیگر پارٹیوں کے لوگوں پر مشتمل ہے۔آپ نے کوالٹی کے بجائے کوانٹٹی پر انحصار کیا اور ملک بھر سے تمام ہارے ہوئے اور مسترد شدہ سیاستدانوں کو یکجا کر کے پارٹی بنائی۔اب سالہا سال سے ہارتے ہوئے اور مسترد شدہ لوگ کیسے آپکو وزارتِ عظمیٗ کی سیٹ پر پہنچا دیتے؟؟

آپ کی پارٹی میں جو اچھے اور ذاتی پارٹی کے افراد تھے یا آپ خود جو پارٹی کے سربراہ ہیں الیکشن جیت گئے۔اب اگر کرائے کے لوگ ہار گئے یا لوٹوں کی جو پوری فیکٹری آپنے بنا رکھی تھی،وہ ہار گئے تو اسمیں بچگانہ ضد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،نہ ہی اتنا واویلا کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام آپ سے بدظن ہو جائیں۔ملک پہلے کئی بحرانوں سے نبرد آزما ہے اسکا اور اِس عوام کا مزید امتحان نہ لیں اور عوام نے جو آپکو کے پی کے میں مینیڈیٹ دیا ہے اُس پہ پورا اترنے کی کوشش کریں ،اور اسکو ایک ایسا مثالی صوبہ بنائیں کہ اگلی بار عوام آپکو ووٹ دینے پر مجبور ہوجائے۔ایک بات بلکہ حقیقت بتاتا چلوں اور وہ یہ کہ آپ جو مڈ ٹرم الیکشن کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اسمیں بھی آپکو کوئی فائدہ نہیں ہونیوالاموجودہ حالات میں بھی ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے اور وہ کلین سویپ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔خدارا جمہوری قوت ہونیکا ثبوت دیں اور کوئی بھی ایسا عمل نہ کریں جس سے غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھائیں۔اسکی ذمہ دار حکومت ہو یا آپ نقصان تمام جمہوری پارٹیوں اور اس ملک و قوم کا ہوگا ۔مولانا فرام کینیڈا کی طرف دھیان نہ دیں اور یہ نہ سوچیں کہ وہ سڑکوں پر نکل کر آپکی ریٹنگ کم کر دینگے ،وہ تو ایک غیر جمہوری اور تھوڑے تھوڑے غیر ملکی آدمی ہیں۔وہ ایک موسمی پھل ہیں جو کچھ دن کے لیئے پکا ہوا ہے پھر گل سڑ جائے گا۔شیخ اور چودھریوں کی پیٹی بھی اُس پھل کو نہیں بچا پائیگی بلکہ یہ اسکے جلد گلنے سڑنے کی پہلی نشانی ہے۔مگر آپ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھتے ہیں،کے پی کے کی حکومت آپکے پاس ہے،آپ نے کل پھر عوام کے سامنے جانا ہے ۔خدارا عوام پر رحم کریں،ملک پر رحم کھائیں ،کاروباری حضرات کا خیال کریں اور ملک کو انتشار سے بچائیں۔
Saleem Tufani
About the Author: Saleem Tufani Read More Articles by Saleem Tufani: 6 Articles with 4619 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.